CNG اور وہ پنتالیس منٹ

آکسفورڈ یونیورسٹی کے طالب علم تھے اور اُن کے سامنے ہمارے ایک وفاقی وزیر ۔ سوال جواب شروع تھے ۔ بہت سے لوگ یہ فن جانتے ہیں کہ کسی سوال کا معقول جواب نہیں تو جواب کو خوبصورت موڑ دیا اور موضوع ہی بدل کے رکھ دیا۔ مگر ہمارے وزرا میں سے چند ایک کے سوا سبھی اُس فن سے ناآشنا ہیں اور ڈھٹائی سے غلط جواب دیتے ہیں۔ سوال کچھ ہو جواب اُ ن کی اپنی مرضی کا ہوتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال تھی ہر سوال کے جواب میں یہی بتا رہے تھے کہ اُن کی حکومت نے عوام کی بھلائی کے لیے ریکارڈ کام کیے ہیں۔ اس قدر برے حالات اور اس قدر شاندار کارکردگی ، ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آخر ایک طالب علم نے کہہ ہی دیا کہ جناب ہم وطن سے دور سہی مگر ہمیں پتہ ہے کہ پچھلے چار سال سے زیادہ عرصے میں آپ نے خوشیاں ہی خوشیاں بانٹی ہیں۔ اتنی خوشیاں کہ جن کا کچھ شمار نہیں۔

اٹھارہ گھنٹے بند رہنے کے بعد جب دو گھنٹوں کے لیے بجلی آتی ہے تو گھر کے مکینوں کو جو خوشی حاصل ہوتی ہے اُس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔

اتوار بازار میں آٹے سے لدے ٹرک کے سامنے دوڈھائی گھنٹے کی دینگا مشتی کے بعد جب آٹے کا تھیلہ مل جاتا ہے تو واقعی وہ خوشی دیدنی ہوتی ہے۔

پٹرول کی قیمت میں پندرہ روپے اضافے کے بعد آہ و بکا اور احتجاج کے نتیجے میں جب دو روپے کی کمی ہوتی ہے تو یہ عمل انتہائی اطمینان اور خوشی کا باعث ہوتا ہے۔

حکومت کی طرف سے خوشیوں کی اس بندر بانٹ کا کچھ دنوں سے مجھے ذاتی تجربہ بھی ہو رہا ہے۔ پچھلے ہفتے مجھے یونیورسٹی کلاس کے لیے نو (9) بجے پہنچنا تھا۔ گاڑی پٹرول پر تھی جو مہنگا پڑتا ہے۔ اس لیے CNGکے حصول کے لیے ساڑھے سات بجے CNGسٹیشن کی قطار میں شامل ہو گیا۔ سڑک پر بہت دور تک گاڑیاں تھیں مگر اُمید پر دنیا قائم ہے۔ قطار آگے بڑھتی رہی اور CNGسٹیشن اور CNGکی اُمید دونوں قریب آرہے تھے۔ گھڑی پر نظر پڑی ساڑھے آٹھ کا وقت تھا ۔ اُس وقت سڑک پر چودہ (14)گاڑیاں تھیں اور سٹیشن کے اندر مزید پانچ ۔ یونیورسٹی کا فاصلہ بیس (20)سے پچیس(25)منٹ تھا اور مجھے کلاس یا اُمید میں سے ایک کی قربانی دینا تھی سو اُمید قربان کر دی اور قطار کو چھوڑ کر یونیورسٹی کو چل پڑا۔ مگر یہ ہفتہ مجھے بہت بہتر رہا۔ کلاس آٹھ بجے تھی اور میں سات بجے CNGکی قطار میں تھا۔ پنتالیس (45) منٹ بعد میری باری آئی تو میرے ساتھ میری گاڑی بھی خوشی سے جھوم جھوم گئی۔

سب سے مزے کی بات یہ کہ وہ پنتالیس منٹ بھی رائیگاں نہیں گئے ۔ اگر کسی ہیومن ریسورس والے سے بات کریں تو وہ یقینا تسلیم کرے گا کہ وہ لمحے (پرانے انگریزی سسٹم میں لمحہ تقریبا ڈیڑھ منٹ کے برابر ہوتا ہے ) انتہائی قیمتی تھے اور اُن لمحوں کی بدولت میری آشنائیوں میں بھی اور خوشی میں بھی بہت اضافہ ہوا جس کے مستقبل قریب میں فوائد بھی ہونے چاہیے۔

قطار میں گیس کے ستائے لوگ کر کر لمبے ہاتھ ایک دوسرے سے مل رہے تھے ۔ قطار میں میرے بالکل پیچھے سات آٹھ وکیل ایک گاڑی میں سوار تھے۔ کل تک سٹوڈنٹ پاور تھی۔ درس گاہوں کے قریب سے لوگ سر چھپا کر گزرتے تھے۔ انقلاب وقت ہے کہ اب وکیل پاور ہے۔ پڑھا لکھا اور انتہائی طاقتور طبقہ اور طاقتور دوست تو آج کے دور میں ایک اثاثہ ہوتا ہے۔ اُن وکلا سے خوب گپ شپ رہی۔ 45منٹ دوستی کے لیے بہت ہوتے ہیں۔ میرے ساتھ والی قطار میں میرے ساتھ ایک پولیس انسپکٹر تھے اور اتفاق سے اُن کا تعلق اُسی تھانے سے تھا جس تھانے کی حدود میں میری رہائش ہے ۔ پریشان تھے کہ ہائی کورٹ حاضری ہے ، لیٹ ہو رہا ہوں۔ جج صاحب ڈانٹیں گے۔ اُنہیں خاصا حوصلہ دیا کہ معقول وجہ ہے سچ بتاﺅ گے تو کچھ نہیں ہو گا۔ نام پوچھنا تو یاد نہیں رہا مگر ایسی رفاقت کے بعد امید ہے جب بھی ملاقات ہوئی پہچان جائیں گے۔ ویسے بھی خلیل جبران نے کہا ہے “تم اُس شخص کو بھول سکتے ہو جس کے ساتھ ہنسے ہو مگر اُس شخص کو نہیں بھول سکتے جس کے ساتھ روئے ہو “۔ وہ تھانیدار مجھے کیسے بھول سکتا ہے۔ میرا اور اُس کا 45منٹ کا CNGآہ و زاری کا ساتھ رہا ہے۔

پاس ہی ایک ایکسائز اینڈ ٹیکشیشن آفیسر کھڑے تھے۔ پریشانی میں بار بار گھڑی دیکھتے اور کہتے میٹنگ شروع ہونے والی ہے۔ میٹنگ شروع ہو گئی ہو گی۔ میرے بغیر فلاں بات نہیں ہو سکتی۔ میرے بغیر وہ فائل کیسے ملے گی۔ میرے بغیر فلاں فیصلہ کیسے ہو سکے گا۔ میرے بغیر اُن کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہو گا۔ میں نے اُنہیں تسلی دی اور سمجھایا کہ اس ملک میں ہر شخص آپ ہی کی طرح سوچتا ہے مگر وہ جب نہیں ہوتا تب بھی کام ہوتا ہے اور نظام چلتا رہتا ہے۔

اس ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں بھی یہی سوچتی ہیں اُن کا خیال ہے کہ وہ نہیں تو کون الیکشن جیت سکتا ہے۔ کون ہے جو ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال سکتا ہے۔ کس میں اس قدر فہم ہے کہ سوچے سمجھے بغیر ملک کی قیادت کر سکے۔ جی ہاں۔ ان پارٹیوں میں سوچنے اور سمجھنے کا تصور ہی نہیں ۔کیا ہونا ہے اور کسے آنا ہے اس کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ آنے والے انتخابات نے کرنا ہے۔ عوام کا بڑھتا شعور بتا رہا ہے کہ بہرحال نئے لوگ آئیں گے۔ نظام بدلے گا اور وہ لوگ جنہوں نے ہمدردی کی آڑ میں کئی دہائیوں تک اس ملک کو بُری طرح لُوٹا ہے ایک المناک انجام سے دو چار ہوں گے۔ اس ملک کا ہر شخص ایک نئی صبح کا منتظر ہے۔جو صبح ضرور آئے گی۔ (انشاءاللہ )
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 585 Articles with 508197 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More