18دسمبر کراچی پریس کلب کے باہر
ایک اور احتجاج ۔ لیکن یہ احتجاج کچھ مختلف ہے۔ اس میں اکثریت خواتین کی
تھی جن میں 16سال سے لے کر 40سال تک کی پولیو رضا کار اور لیڈی ہیلتھ ورکرز
موجود تھیں۔ جنھوں نے ہاتھوں میں احتجاجی بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن
پر پولیو رضاکاروں کی ہلاکت کے خلاف احتجاجی نعرے درج تھے۔
حالیہ 17دسمبر کو شروع ہونے والی پولیو مہم کے پہلے دن ایک رضاکار اور مہم
کے دوسرے دن 4 خواتین رضاکاروں کو شہید کردیا۔250روپے کی یومیہ اُجرت کے
عوض یہ رضا کار گلی گلی دو بوند زندگی معصوم بچوں کو پلانے کی غرض سے نکلتے
ہیں۔ اس دہاڑی میں تو کوئی اور کام بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ ان کا جذبہ ہے
کہ یہ خود غرضانہ سوچ کی پاداش میں نہیں پلتے۔ ایک عظیم مقصد ہے ۔ پاکستان
کے مستقبل کو اپاہج ہونے سے بچانے کا عزم۔
پاکستان ، افغانستان اور نائجیریا ایسے تین ممالک ہیں جو پولیو پر قابو
پانے میں ناکام رہے ہیں ۔ اس وقت دنیا بھر سے ستر فیصد سے زائد مریضوں کا
تعلق پاکستان سے ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ڈونرز
ایجنسیاں کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہیں لیکن پاکستان میں پولیو پر تاحال قابو
نہ پایا جاسکا۔ سترہ سال سے جاری اس مہم کے باوجود کیس رپورٹ ہوئے جس سے
بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو شدید ٹھیس پہنچی ہے ۔ ساتھ ہی اس
بات کا بھی قوی امکان ہے کہ اگر پاکستان میں پولیو کے پھیلاﺅ پر جلد قابو
نہ کیا گیا تو پاکستان پر بین الاقوامی سفر سے قبل پولیو کے قطرے پینے کی
شرط عائد ہو سکتی ہے ۔ جس کی مثال سعودی عرب ہے ۔ جہاں پر پاکستان ،
افغانستان اور نائجیریا سے سفر کرنے والے تمام افراد کو پولیو کے قطرے پینے
لازم قرار دیئے گئے ہیں ۔ ایسی کیا وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر ہم اب تک اس
موذی مرض سے اپنے ملک کو پاک نہ کرسکے ۔ فقط اگر سندھ کی بات کی جائے تو
گزشتہ سال 4لاکھ 44ہزار بچوں کو والدین کی جانب سے پولیو کے قطرے نہ پلائے
جانے کا انکشاف ہوا۔ 33ہزارخاندانوں نے انسداد پولیو مہم میں رجسٹرڈ ہونے
کے باوجود بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر کے ملک کے آفت ذدہ اور
دہشت گردی کے شکار صوبے خیبر پختونخواہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ لوگوں کو
صحیح اُمور پر آگہی فراہم نہ کی گئی جس کی وجہ سے 33ہزار 780خاندانوں نے
دانستہ طور پر اپنے 5سال سے چھوٹے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر
دیا۔ تو کہیں ناقص منصوبہ بندی کرپشن اور بدعنوانی کے باعث اربوں روپے خرچ
کرنے کے باوجود حکومت پولیو پر قابو پانے میں ناکام ہو گئی جس کے بعد ڈونرز
کی بڑی تعداد نے پاکستان کو فنڈز دینا بند کر دئے ۔ اس سلسلے میں حکومت
پاکستان نے اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک سے پولیو مہم کے 35 ملین
ڈالرز قرض بھی مانگ لیا۔
شہر کے مختلف اضلاع میں انسداد پولیو مہم کے دوران بڑے پیمانے پر
بدعنوانیوں اور کرپشن کا انکشاف ہوا۔ عالمی ادارے صحت کی جانب سے انسداد
پولیو مہمات کے لئے ملنے والی امداد میں کرپشن اور بدعنوانیوں کے پیش نظر
فنڈز براہ راست پولیو کارکنوں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اس سلسلے میں
تنظیم کی جانب سے شناختی کارڈ طلب کےے گئے۔ تاکہ انہیں بنک کے ذریعے براہ
راست ادائیگی کی جائے۔ تو 80فیصد سے زائد شناختی کارڈز جعلی قرار دیئے گئے۔
بعد ازاں اس معاملے کو سلجھایا گیا اور غلط فہمی ظاہر کیا گیا۔
ان ساری وجوہات کے ساتھ ساتھ سب سے اہم مسئلہ جو اس موذی بیماری پر قابو نہ
پانے کی وجہ بنا وہ انتہا پسندوں کی جانب سے ویکسی نیٹروں کی ملکی اور غیر
ملکی ایجنسیوں کے آلہ کار بننے کے خدشے کے پیش نظر سامنے آیا۔ان خدشات کو
ڈاکٹر شکیل آفریدی کے اسامہ بن لادن پر حملے میں ملوث ہونے کے بعد تقویت
ملی۔ ملک کے قبائلی علاقوں سمیت سب سے بڑے شہر کراچی کی مضافاتی آبادی گڈاپ
ٹاﺅن میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے دھمکیوں کے بعد رواں برس چلائی جانے
والی مہمات کے دوران ساڑھے تین لاکھ سے زائد بچے پولیو کے حفاظتی قطرے پینے
سے محروم رہے۔
لیکن ساتھ ہی کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاﺅن اور بلدیہ ٹاﺅن میں تقریباً 4ماہ کے
وقفے کے بعد سیوریج کے پانی کے نمونوں میں پولیو وائرس پی تھری کی تصدیق کی
گئی جس کے بعد نئی حکمت عملی طے کرنے کے ساتھ ہی پولیو ورکرز اپنی جانوں کی
پروا کےے بغیر دھمکیوں کے باوجود اپنا فریضہ انجام دینے ان بستیوں میں پہنچ
گئے۔ اور نتیجتاً ان معصوم خواتین کو زندگی سے محروم کر دیا گیا ۔ یہ
رضاکار اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ بنانے کے لئے کام کر رہی تھیں ۔ یہ حملے
یقینا پاکستان کے مستقبل کو اپاہج بنانے کی سازش کا شاخسانہ ہے اور ایک
سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کےے جارہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا انسداد پولیو مہمات سے
کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ میڈیا کی غلط خبروں کے ذریعے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا
تعلق پولیو مہمات سے جوڑا گیا۔جس سے پولیو مہمات کے دوران ویکسینیشن میں
مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور یہی پولیو رضاکاروں پر حملے کی وجہ بنی ۔
ادارہ صحت کے ایک اعلیٰ عہدہ دار کے مطابق ڈاکٹر شکیل کے متعلق یہ کہا جا
رہا ہے اس نے انسداد پولیو مہم کے ذریعے اسامہ کی ہلاکت میں امریکہ کی مدد
کی تھی۔ جبکہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے جسے کوئی عام شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ
دو قطرے پولیو ڈراپس سے کسی کے ڈی این اے کی جانچ کیسے کی جاسکتی ہے۔ دراصل
ڈاکٹر شکیل آفریدی نے غلط بیانی کی کہ اس نے پولیو مہم کے ذریعے ایسا کیا۔
اس غلط بیانی سے لوگ گمراہ ہوئے ۔ ڈاکٹر شکیل نے ہیپاٹا ئٹس پروگرام کے نام
پر خون کے نمونے حاصل کےے تھے۔ اور امریکی سی آئی اے کو معلومات فراہم کی۔
ذرائع کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی کے منظر عام پر آنے اور ان کی گرفتاری کے
بعد کالعدم تنظیموں کی جانب سے صحت کے حوالے سے ملک کے شمالی علاقوں خصوصاً
شمالی اور جنوبی وزیرستان میں کام کرنے والے ملکی اور غیر ملکی فلاحی
تنظیموں پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہوئے انہیں علاقوں سے نکلنے پر مجبور کر
دیاگیا۔ جبکہ گڈاپ ٹاﺅن میں پولیو مہمات کے دوران جولائی سے اب تک رضاکاروں
کے قتل کے نتیجے میں گڈاپ میں مسلسل دھمکیوں اور خوف کے باعث 22ہزار سے
زائد 5سال سے کم عمر کے بچے پولیو کے قطرے پینے سے محروم ہیں۔
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے کہا ہے کہ پولیو رضاکاروں پر حملے کے
بعد سندھ بھر میں اس وقت تک انسداد پولیو مہم نہیں چلائی جائے گی جب تک
سیکورٹی ادارے کلیئرنس نہیں دے دیتے۔ 17دسمبر کو شروع ہونے والی انسداد
پولیو مہم کو بھی اس لئے روکا گیا کیونکہ مہم کے پہلے دن ایک رضاکار اور
مہم کے دوسرے دن 4خواتین کو شہید کر دیا گیا۔ ہم مزید 55ہزار پولیو
رضاکاروں کی جانوں کو داﺅ پر نہیں لگا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ 17دسمبر سے
19دسمبر تک چلائی جانے والی رواں برس کی اس آخری مہم کے دوران سندھ بھر کے
44لاکھ 33ہزار 680بچوں کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے کے لئے
15ہزار514ٹیمیں تشکیل دی گئی اور انہیں دو ہزار 504ایریا انچارج سپروائز کر
رہے تھے۔ اسی طرح کراچی میں 13لاکھ 43ہزار 853بچوں کو پولیوکے قطرے پلانے
کے لئے 6ہزار 455ٹیمیں فرائض انجام دے رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیو کے
خلاف گھر گھر جا کر معصوم بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا قومی مشن ہے لیکن
فرسودہ اور جاہلانہ سوچ کے حامل افراد کی جانب سے پولیو رضاکاروں کو پشاور
اور کراچی تک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نشانہ بنایا گیا جس کی ہم مذمت کرتے
ہیں ۔جبکہ جامعہ بنوریہ سائٹ کے مہتمم شیخ الحدیث مولانا مفتی نعیم نے کہا
کہ ہم نے اس ویکسین پر تحقیق کی ہے اور اسے مختلف لیبارٹریوں سے تجزیئے
کرائے ہیں۔ اس میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے جس سے انسان کو کوئی
نقصان پہنچے یا نسل کشی ہو ۔ اس لئے پولیو ویکسین کے خلاف جھوٹاپراپگنڈہ
عوام کو گمراہ کرنے کے لےے کیا جارہا ہے او ر اس کے پیچھے وہی لوگ ہیں جن
کے ذاتی مقاصد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیماری کی روک تھام کے لئے تدابیر
اختیار کرنا سنت نبوی ﷺ ہے لہذا پولیو جیسی مہلک بیماری کی روک تھام کے لئے
حفاظتی قطرے پلانے چاہییں ۔ قطرے پلانے سے متعلق تمام علماءکا متفقہ فتویٰ
آچکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پولیو کے قطرے پلانے والوں کا تعلق این جی اوز
سے ہوتا ہے اور ڈاکٹر شکیل آفریدی نے این جی اوز کے نام پر اسامہ بن لادن
کی مخبری کی جس کی وجہ سے لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے
کہ لوگوں کو حقیقت بتائی جائے۔
علماءکرام میڈیا اور منبر و محراب کے ذریعے عوام میں اس جاہلانہ سوچ کے
خلاف شعور بیدار کریں تاکہ لوگ پولیو جیسی مہلک بیماری سے آگاہ ہوں۔
دوسری جانب شدت پسندوں کی جانب سے ہلاک ہونے والوں کے غم میں صوبے بھر کی
لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جانب سے 18سے 22دسمبر تک 5روزہ سوگ منایا جارہا ہے۔ |