تحریر : محمداسلم لودھی
اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں میڈیا نہ صرف ایک صنعت کا درجہ حاصل کرچکا
ہے بلکہ رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے اس کا کردار سب سے نمایاں اور کلید ی
تصور کیاجانے لگاہے ۔وہ جس معاشرتی ٬ اقتصادی ٬ سماجی اور سیاسی مسئلے کا
جو رخ قوم کو دکھانا چاہتا ہے قوم اسی نقطہ نظر کو بہت حد تک اپنا لیتی ہے
۔کسی منفی منصوبے کو مثبت بنانا اور مثبت کو منفی انداز میں دکھانااب میڈیا
کے لیے مشکل نہیں رہا ۔ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں
وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ وہ مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشارت کے مطابق
کالاباغ ڈیم تعمیر کرے ۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ یہ
خالصتا تکنیکی معاملہ ہے اسی سیاست کی بھینٹ چڑھا کر ملک و قوم کے مستقبل
کو تباہ نہ کیا جائے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ
آنے کی دیر تھی کہ ایک بار پھر سندھ کے تماش بین سیاست دانوں اور سرحدی
گاندھی کی پیروکاروں کی لمبی زبانیں باہر نکل آئیں اور کھلے عام عدالتی
فیصلے کا تمسخر اڑاتے ہوئے ڈیم کی تعمیر کو پاکستان کی سا لمیت کے لیے خطرہ
قرار دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے لگے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ
حکومت پاکستان عدالتی فیصلے کا احترام کرتی اوربازاری بحث سے اجتناب کرتے
ہوئے چاروں صوبوں کے فنی ماہرین کی ٹیم تشکیل دیتی جس میں صوبائی تعصب سے
بالاتر ہوکر سوچنے والے ٹیکنیکل افراد کو شامل کیا جاتا جو اس کثیر المقاصد
منصوبے کی تعمیر پر اٹھنے والے اعتراضات کاتکنیکی بنیادوں پر جائزہ لے کر
انہیں دور کرتی اور عدالتی حکم کے مطابق ڈیم کی تعمیر کو قابل عمل بناتی ۔
لیکن وفاقی حکومت نے ابھی تک عدالتی فیصلے پر خاموشی کی چادر تان رکھی ہے
لیکن حکومتی ایما پر سندھ کے وزیر اعلی ٬ وزراء کے چرب زبان وزیروں اور
مشیروں نے کالاباغ ڈیم کے خلاف پریس کانفرنس کرنے میں بھی تاخیر نہیں کی ۔اگر
حکومت پاکستان اس منصوبے پر تماشائی کا کردار ادا کررہی تھی اور پاکستان
دشمن افراد صوبائی تعصبات کا سہارا لے کر عدالت اور ڈیم کا تمسخر اڑا رہے
تھے تو پاکستانی میڈیا کوکثیر المقاصد ڈیم کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے
کے لیے کردار اداکرنا چاہیئے تھا لیکن افسوس کہ میڈیا نے دانستہ کالاباغ
ڈیم کی تعمیر کے خلاف زہر اگلنے والے ہر چھوٹے بڑے متعصب اور مکروہ سیاست
دانوں ٬ سرحدی گاندھی کے پیرو کاروں اور قوم پرستوں کو بھرپور کوریج دے کر
اپنا وزن بھی ان کے ساتھ شامل کردیا ہے ۔میں سمجھتا ہوں یہ سراسر زیاداتی
کے مترادف ہے ۔ میڈیا کے منفی کردار کی بنا پر ڈیم کی تعمیر ہونا تو دور کی
بات ہے قومی یکجہتی کی فضا کو بھی شدید خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ سوچنے کی بات
یہ ہے کہ اگر ڈیم کی تعمیر ملک و قوم کے لیے تباہی کا باعث بنتی تو بھارت
62 سے زائد ڈیم اپنی سرزمین پر نہ بناتا ۔ یہ ان ڈیموں میں پاکستانی دریاﺅں
کا محفوظ کیا ہوا پانی ہی ہے جس کی وجہ بھارتی مشرقی پنجاب کی زمینیں سونا
اگل رہی ہیں اس کے برعکس پاکستان میںنہ صرف پنجاب کی وسیع تر اراضی پانی کی
شدید قلت کی وجہ سے بنجر اور ناکارہ ہوچکی ہے بلکہ سندھ ( جس کے متعصب
سیاست دان اور نام نہاد قوم پرست ڈیم بنانے کے سخت ترین مخالف ہیں ) کا
وسیع علاقہ صرف پانی کی قلت کی بنا پر برباد ہوچکا ہے اور سندھ کے غریب
کاشتکار پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں ۔ اس کے برعکس موسم برسات میں
پنجاب ٬ سندھ ٬ بلوچستان سمیت خیبر پی کے کے وسیع علاقے شدید ترین سیلابی
ریلوں کی زد میں ہونے کے ساتھ ساتھ ہر سال ہم کھربوں روپے کا جانی و مالی
نقصان بھی اٹھاتے ہیں ۔ جس کا عملی مظاہرہ خیبر پی کے ٬ پنجاب ٬ سندھ اور
بلوچستان کے رہنے والے بخوبی کررہے ہیں ۔ جن کی اربوں روپے کی کھڑی ہوئی
فصلیں اور مال مویشی ہی تباہ نہیں ہوتے بلکہ گھر بار صدیوں پرانے کھنڈارت
کا منظر پیش کرتے ہیں ۔سرحدی گاندھی کے پیرو کار اور سندھی قوم پرست جو
کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں تمام حدیں عبور کررہے ہیں اس وقت جبکہ غریبوں
سیلابی پانی کی تباہی کی وجہ سے دو وقت روٹی کھانے کو ترس رہے ہوتے ہیں وہ
اپنے عظیم الشان محلوں میں زندگی کی بہترین سہولتوں سے لطف اندوز ہورہے
ہوتے ہیں ۔پیپلز پارٹی ٬ عوامی نیشنل پارٹی ٬ ق لیگ اور ایم کیو ایم اس لیے
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ اس فیصلے کے بعد مسلم
لیگ ن کا سندھ میں قوم پرستوں کا اتحاد ٹوٹ سکتا ہے جبکہ خیبر پی کے میں
بھی مشکلات درپیش آسکتی ہیں اس طرح ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور اس کے
اتحادی حکومتی ایوانوں میں داخل ہوکر ایک بار پھر کرپشن اور لوٹ مار کا
کھیل شروع کرسکیں گے۔ اس لمحے کوئی سیاست دان خلوص دل سے یہ نہیں سوچ رہا
کہ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر ہوجاتا ہے تو نہ صرف 3600 میگاواٹ بجلی حاصل
ہوتی جو بجلی کی لوڈشیڈنگ کو بہت تک محدود کردے گی جس سے ملک کے فیکٹریاں
اور کارخانے چل پڑیں گے اور لوگوں کو روزگار حاصل ہوگا جبکہ کالا باغ ڈیم
میں محفوظ کیا جانے والا پانی نہروں کے ذریعے بوقت ضرورت خیبر پی کے ٬
پنجاب ٬ سندھ اور بلوچستان کے وسیع رقبے کو سیراب بھی کر سکے گا ۔یہ وقت
اختلافات کو بڑھانے کاہر گز نہیں ہے کیونکہ پاکستان پہلے ہی بدترین ٬ خائن
اور کرپٹ سیاست دانوں اور آمروں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے نہ صرف تباہی کے
دہانے پر پہنچ چکا ہے بلکہ مسائل کی دلدل میں دھنس چکا ہے ۔ انٹرنیشنل
ٹرانسپرنسی رپورٹ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال پاکستان کرپٹ ترین
ممالک میں 43 نمبر پر تھا جبکہ اس سال 33 نمبر پر پہنچ چکا ہے جبکہ گزشتہ
پانچ سالوں میں 1260ارب روپے کی کرپشن کی نشاندہی بھی گئی ہے جو پاکستان کے
دو سالانہ بجٹ کے برابر ہے۔ میرا بحیثیت پاکستان موقف یہ ہے کہ صرف کالا
باغ ڈیم ہی نہیں بلکہ خیبر پی کے٬ پنجاب ٬ سندھ اور بلوچستان کے شہر شہر
اور گاﺅں میں اتنی بڑی تعداد میں ڈیم اور پانی کی ذخیر ہ گاہیں بنائی جائیں
کہ پاکستانی دریاﺅں کے پانی کا ایک قطرہ بھی سمندر میں گر کر ضائع نہ ہو
اور یہ پانی بوقت ضرورت تمام کاشتکا ر استعمال کرسکیں ۔ اسے میں بدقسمتی ہی
قرار دوں گا کہ ڈیم کی مخالفت کرنے والے سند ھ کے وزیر اعلی کتنی ہی بار
تربیلا اور منگلا ڈیموں میں محفوظ کیا جانے والے پانی اپنے حصے سے زیادہ
لینے پر اصرار کرتے رہے ہیں جبکہ آصف علی زرداری بھی سندھ کو پنجاب کے حصے
کا پانی فراہم کرنے کا تعصب آمیز حکم کئی بارجاری کر چکے ہیں ہر سال پنجاب
کو بڑا بھائی کہہ کر اس کے حقوق ہمیشہ غصب کرلیے جاتے ہیں اور نتیجے کے طور
پر پنجاب کے بزنس مین ہو ں یا کاشتکار ٬ بجلی کے صارفین ہوں یا گیس کے ۔
ہمیشہ سب سے زیادہ نقصان پنجاب کی صنعت ٬ تجارت اور گھریلو صارفین کو ہی
برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ محمد حنیف رامے کے بعد اب کوئی ایسا شخص نہیں جو
پنجاب کے حقوق کامقدمہ لڑسکے ۔ میاں برادران کا تعلق بے شک پنجاب سے ہے
لیکن وہ پنجاب کی ترجمانی کرنے سے اس لیے گھبراتے ہیں کہ پھر انہیں دوسروں
صوبوں سے ووٹ نہیں ملیں گے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ پنجاب ٬
پاکستان کا دل اور سب سے بڑا صوبہ ہے اس کے باوجود سب سے زیادہ حقوق پنجاب
کے ہی غصب کیے جاتے ہیں اور تو اور خود پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلز
پارٹی کے بے ضمیر جیالے اپنے ہی صوبے کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرنے میں بہت
پرجوش دکھائی دیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس سندھ کا ہر شخص چاہے خواہ وہ کسی
بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہو ۔ سندھ کی تقسیم کا مخالف ہے بلکہ اسے زندگی
اور موت کا معاملہ تصورکرتا ہے ۔پاکستانی سیاست دان کے بارے میں تو یہ
مشہور ہے کہ وہ ذاتی مفادات کے لیے ملک و قوم کو بھی فروخت کرنے سے بازنہیں
آتے اور ملک کی 65 سالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جتنے بھی اہم منصوبے
اور ڈیم تعمیر ہوئے وہ فوجی ادوار میں ہی تعمیر ہوئے ملکی صنعت و تجارت اور
مواصلات بھی انہی ادوار میں فروغ پاتی ہے کیونکہ سیاست دانوں کو کرپشن ٬
لوٹ مار سے ہی فرصت نہیں ملتی ہے ۔ موجودہ بدترین جمہوریت اس کی اہم ترین
مثال ہے۔ بہرکیف سیاست دانوں کا کردار جہاں انتہائی تکلیف ہے وہاں مجھے سب
سے زیادہ شکایت پاکستانی میڈیا سے بھی ہے وہ ہر اس شخص کو زیادہ سے زیادہ
کوریج دیتا چلا آیا ہے جو پاکستان کو گالی دیتا ہے یا جو پاکستان کو توڑنے
کے عزائم کا اظہار کرتا ہے ایسے مکروہ انسانوں کی پریس کانفرنسوں اور
بیانات کو نہ صرف الیکٹرونکس میڈیا پر زیادہ سے زیادہ دکھایاجاتا ہے بلکہ
اخبارات میں بھی تبصرے اور تجزیئے کرکے ان سانپوں کو دودھ پلانے کی مکمل
جستجوکی جاتی ہے ۔ اور یہ سب کچھ سچ دکھانے کے نام پر پاکستانی میڈیا فخریہ
انداز میں کررہا ہے ۔ شیخ سعد ی ؒ کی حکایت ہے کہ بادشاہ نے ایک قیدی کو
قتل کا حکم دیا قیدی قتل کا حکم سن کر بادشاہ کو گالیاں دینے لگا ۔ بادشاہ
نے قیدی کو بڑبڑاتے ہوئے دیکھا تو اپنے ایک نیک دل وزیر سے پوچھا کہ قیدی
کیا کہہ رہا ہے ۔ وزیرنے کہا کہ بادشاہ سلامت یہ قیدی کہہ رہا ہے اپنے غصے
کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کردینے والے بہت اچھے ہوتے ہیں وزیر کی
یہ بات سن کر بادشاہ کو قیدی پر رحم آگیا اور اس نے قتل کرنے کا حکم واپس
لے لیا ۔ اس لمحے ایک اور وزیر نے دوسرے وزیر سے مخاطب ہوکر کہا ہمارے لیے
یہ مناسب نہیں کہ ہم بادشاہوں کے سامنے سچ کے علاوہ کچھ اور کہیں ۔ قیدی نے
تو بادشاہ کو گالی دی اور برا بھلا کہا ہے ۔دوسرے وزیر کی یہ بات سن کر
بادشاہ کو سخت غصہ آیا اور اس نے طیش میں آتے ہوئے دوسرے وزیر کو کہا کہ
مجھے تیرے سچ سے زیادہ پہلے وزیر کا جھوٹ زیادہ اچھا لگا کیونکہ اس کے جھوٹ
میں بھلائی مضمر تھی جبکہ تیرے سچ کی بنیاد برائی پر ہے ۔ اسی لیے داناکہتے
ہیں کہ مصلحت آمیز جھوٹ ٬ فتنہ پیدا کرنے والے سچ سے بہتر ہے ۔
اس وقت پاکستانی میڈیا سچ دکھانے کے جنون میں کچھ اس طرح مبتلا ہوچکا ہے کہ
وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ جو لوگ ان کے اپنے وطن ( پاکستان ) کی بنیادوں
کو کھوکھلا کرکے اس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی جستجو کررہے ہیں وہ کسی تعاون
یا رحم کے مستحق نہیں ہیں ۔ایم کیو ایم ٬ عوامی نیشنل پارٹی ٬ پیپلز پارٹی
کے متعصب جیالوں اور قوم پرستوں کی زہر آلود کانفرنسوں اور بیانات کو بڑھ
چڑھ کر ٹی وی اور اخبارات کی زینت بنانا کیا پاکستان کے حق میں جاتا ہے ۔سانپ
کا اگر سر بروقت نہ کچلا جائے تو بچے دے دیتا ہے جو اس سے بھی زیادہ خطر
ناک ثابت ہوتے ہیں ۔یہی کچھ ہمارے پاکستان میں ہورہا ہے ۔ ہونا تو یہ
چاہیئے تھا کہ جو لوگ کالا باغ ڈیم یا پاکستان کے خلاف بات کرتے ہیں میڈیا
اس کا مکمل بائیکاٹ کرتا ہے اور ان کی لچھے دار تقریروں کو دکھانے اور
چھاپنے سے اجتناب کرتا اور اس کی بجائے قومی سوچ رکھنے والے افراد کو زیادہ
سے زیادہ کوریج دی جاتی تاکہ پاکستان کی بقا کے ضامین منصوبے پر اتفاق رائے
کی نوبت آتی لیکن یہاں اتفاق رائے کی بات تو سبھی کرتے ہیں لیکن اتفاق رائے
پیدا کرنے کی جستجو کسی بھی حکومت یا سیاسی جماعت نے ہرگز نہیں کی ۔
لاہور ہائی کورٹ نے بھی کالاباغ ڈیم کو توانائی کے بحران اور پانی کی قلت
کے حوالے سے ایک اہم ترین منصوبہ قرار دیتے ہوئے اسے تعمیر کرنے کا حکم دیا
ہے ۔اب اتفاق رائے پیدا کرنا اور تکنیکی اختلافات کو دور کرنا حکومت کا کام
ہے جو وہ کسی بھی صورت میں کرنے کو تیار نظر نہیں آتی بلکہ ان کے چرب زبان
وزیر مشیر اور اتحادی مخالفانہ بیانات سے مسلسل گولہ باری کررہے ہیں ۔جو
کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے ۔عدالتی فیصلے کو متنازعہ بنانے
میں جہاں متعصب سیاست دانوں کا کردار ہے وہاں میڈیا نے بھی کوئی کسر نہیں
چھوڑی اور وہ بھی کالا باغ ڈیم پر زیادہ سے زیادہ منفی افراد کے انٹرویو ٬
بیانات اور پریس کانفرنسوں کی دکھا کر مثبت ذہن رکھنے والے محب پاکستانیوں
کی رگوں میں بھی زہر انڈیل رہا ہے پاکستانی میڈیا کا یہی کردار ملک کو
ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ان حالات میں اگر کوئی بھی ڈیم پاکستان
میں مزید نہیں بنایا جاتا تو خوانخواستہ پاکستان زیادہ دیر تک اپنی وحدت
اور وجود کو برقرار نہیں رکھ سکے گا ۔ |