ایک بار پھر مسلمانوں کے سب سے
بڑے مرکز عقیدت ومحبت پرحملہ کیا گیا ہے۔یہ مسلمانوں کے خلاف 9/11سے بھی
بڑھ کر ایک اور سازش تیار کی گئی ہے۔امریکا اور اس کے سرکاری اہلکاروں اور
دیگر حواریوں کے پاس اس کے سوا کہنے کو کوئی بات نہیں ہے کہ وہ نہا یت ہی
ڈھٹائی سے اسے آزادی اظہار رائے کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر
ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو مکروہ اور گھنا۔ نا سلسلہ سالہا سال سے چلتا
ہوا دکھائی دیتا ہے۔امریکا اور مغربی ممالک دہشتگردی کو اسلام کے ساتھ
چسپاں کرنے کی کوششیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔مسلمانوں کو دہشتگرد گردانا جاتا
ہے۔قرآن پاک کو نعوذباللہ دہشتگردی کی تعلیم دینے والی کتاب قرار دیا جاتا
ہے۔پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفےﷺکی ذات پر طرح طرح سے کیچڑ اچھالا جاتا
ہے۔توہیں آمیزکارٹون اور خاکے بنائے جاتے ہیں۔کبھی ناول اور فلمیں تیار کی
جاتی ہیں۔اللہ کی آخری کتاب ہدایت قرآن مجید کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔یہ
تمام واقعات محض اتفاقیہ نہیں ہوتے بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش اور طے شدہ
منصوبے کا حصہ ہیں۔اسلام دشمن عناصر بخوبی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے عقیدت
ومحبت اور ایمان وعقیدہ کے مراکز کون کون سے ہیں۔وہ باری باری ان تمام مقدس
مراکز عقیدت ومحبت کو نشانہ بناتے ہیں۔پیغمبر اسلامﷺ قرآن اور دیگر اسلامی
شعا ئرکی تضحیک کی جاتی ہے۔ جب مسلمان ان توہین آمیز واقعات پر مشتعل ہوتے
اور کسی نہ کسی طریقے سے جوابی رد عمل کا اظہارکرتے ہیں تو فو ری طور پر ان
پر انتہا پسندی اور دہشتگردی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔دشمنان اسلام کی
سفاکی تو دیکھیئے کہ وہ افغانستان اور گواتانامو بے کے قید خانوں میں موجود
مسلمانوں کو بھی ذہنی اور جسمانی اذیت دینے سے نہیں چوکتے اور ان قیدیوں کو
اشتعال دلانے کے لیے ان کے سامنے بھی قرآن مجید کی توہین کی جاتی ہے۔
ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے خود ساختہ ڈرامے کے دس سال مکمل ہونے کے موقع پر ایک
یہودی فلم ڈائریکٹر نے پیغمبر اسلام ﷺ کے خلا ف توہین آمیز اور شر انگیزفلم
کو نہ صرف امریکا اور یورپ بلکہ مشرق وسطی یعنی مسلم ممالک میں بھی ریلیز
کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا۔اسلامی ممالک میں دکھائی جانے والی فلم کو عربی
زبان میں پیش کیا گیا تھا۔اخباری اطلاعات کے مطابق اس شر انگیز فلم کی
تیاری کے لیے یہودیوں نے پچاس لاکھ ڈالر کی رقم جمع کر کے دی تھی۔یہ ساری
چیزیں اس بات کی کھلم کھلا نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ فلم ایک سوچے سمجھے
منصوبے اور ساز ش کے تحت تیار کی گئی تھی۔ مشرق وسطی یعنی عرب ممالک میں اس
فلم کی نمائش کا مقصد شاید یہ تھا کہ چونکہ وہاں طویل عرصے سے امریکا نواز
حکمرا ن چلے آرہے تھے۔عوام بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہوں گے۔خاص طور پر
لیبیا٬ مصر ٬تیونس اردن اور دیگر ممالک میںحالیہ تبد یلیوں کے بعد عوام کی
اکثریت امریکی پالیسیوں کو پسند کرنے لگی ہے۔تیس اور چالیس سالہ دور آمریت
کے خاتمے کے بعد عوام میں امریکا اور ان کے حواریوں کے ساتھ ساتھ ان کی
پالیسیوں کے لیے بھی نرم گوشہ پیدا ہو گیا ہو گا۔مگر امریکا اور اس کے
دانشوروں کے تجزیئے اور خیال اس وقت دھرے کے دھرے رہ گئے کہ جب سب سے زیادہ
سخت رد عمل لیبیا ٬ مصر ٬تیونس ٬ اردن اور دوسرے عرب ممالک سے آیا۔ لیبیا
میں تو امریکی سفیر سمیت تین دیگر افراد کو بھی نشان عبرت بنا دیا گیا۔رد
عمل اتنا سخت تھا کہ شاید امریکا اورا نکے اداروں کو اس کی توقع نہ تھی۔اسی
دوران متعدد دوسرے اسلامی ممالک میں بھی امریکی سفارت خانو ںپر حملے کیے
گئے ہیں۔توہین رسالت مآبﷺ پر مبنی اس شر انگیز فلم کے خلاف مذمت اور
مظاہروں کا سلسلہ پوری اسلامی دنیا میں پھیل چکا ہے۔ایک عام مسلمان بھی عمل
کے لحاظ سے کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو وہ اپنے پیارے نبی ﷺ کی توہین اور ان
کی شان میں گستاخی کسی حال میں بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ادہر سخت رد عمل کو
دیکھتے ہوئے امر یکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے توہین آمیز فلم سے امریکی
حکومت کی لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور پر تشدد مظاہروں
کو بھی بلا جواز قرار دیا ہے۔درایں اثنا ئامریکا نے اپنے سفارتخانوں کی
حفاظت کے لیے اپنے فوجی اور کمانڈوز بھیجنے کی بات بھی کی ہے۔
امریکا اور مغرب کا یہی دوہرا معیار اور دوغلا پن ہے کہ جو دیگر ممالک اور
اقوام خاص طور پر مسلمانوں میں اشتعال اور نفرت کا سبب بنتا ہے۔ان کا اپنے
لیے ایک قانون ہے اور دوسرے ممالک اور اقوام کے لیے علحدہ قانون ہے۔ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کو امریکی فوجی پر رائفل تاننے کے جھوٹے الزام میں 86سال کی
سزا سنا دی گئی جبکہ ریمنڈ ڈیوس جس نے سر عام اور دن دیہاڑے لاہور کی سڑکوں
پر تین بے گناہ پاکستانیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔مگر امریکا اسے چھڑا کر لے
گیا۔گویا ہمارے لوگوں کی حیثیت کوڑوں مکوڑوں جیسی ہے۔یہودیوں کے ہولو کاسٹ
کے حوالے سے کوئی بات کرنا بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔مگر تعجب ہے کہ
مسلمانوں کے پیغمبر قرآن مجید اور دیگر اسلامی شعائر کے حوالے سے شر
انگیزاور توہین آمیزخاکوں ٬کتابوں ٬ناولوں اور فلموں کے خلاف احتجاج کرنے
اور ردعمل آنے پر اسے دہشتگردی اور انتہا پسندی قرار دیا جاتا ہے۔جبکہ
امریکا اور یورپ والے اپنی شر انگیز حرکتوں کو آزادی اظہار رائے سے تعبیر
کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ دوہرا معیار آخر کب تک چلے گا۔ بار بار کے اسلام
اور مسلم دشمن واقعات اور رویوں نے مسلمانوں کے دلوں میں امریکا اور یورپ
والوں کے خلا ف نفرت اورانتقام کا لاوہ بھر دیا ہے۔اس قسم کے واقعات
مسلمانوں کے حقیقی اور دلی رد عمل کا اظہار ہیں۔ جو اپنے آپ کو مہذب اور پر
امن کہتے ہیں پہل تو ان کی طرف سے ہوتی ہے۔جبکہ رد عمل توایک فطری عمل
ہے۔اگر امریکا اور یورپ والے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دل آزاری اور
شرانگیزی والی حرکات نہ کریں تومسلمان خواہ مخواہ ان کے خلاف کوئی اقدام
اٹھانے والے نہیں ہیں۔اسلام تو سراپا سلامتی اور امن کا دین ہے۔ |