24اکتوبر1945کوجب اقوام متحدہ کی
بنیاد رکھی گئی تب اسکے ممبر ممالک کی کل تعدادپچاس تھی جو آج ایک سو نوے
کی حدود عبور کر چکی ہے اس عرسے میں جتنی اقوام آزادی حاصل کر کے اقوام
متحدہ کی ممبر بنیں انمیں سے ایک بھی ایسی نہیں جسے قابض ممالک کیخلاف
ہتھیار نہ اٹھانا پڑھے ہوں قابل زکر تحاریک میں ایک ویتنام ہے جس نے اپنے
سے ہزار گنا بڑے قابض ملک کیخلاف ہتھیار اٹھائے اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج
امریکن کالونی ہوتے ۔فلسطینیوں نے ہتھیار اٹھائے تو منزل کے قریب ہیں اگر
ایسا نہ کرتے توایک یاسرعرفات نہیں سینکڑوں ملکر ہزار برس تک لبنان شام
اردن اور مصر کے چو ک و چوراہا میں پر امن تقریریں کرتے رہتے کچھ حاصل نہ
کر پاتے نہ ہی دنیا انکی بات سنتی اور اہل فلسطین کی شاندار تاریخ آج مہاجر
کیمپوں میں دم توڑ چکی ہوتی ۔فرانس الجزائر کو ہر قیمت پر اپنے ساتھ رکھنا
چاہتا تھا جبکہ اس نے الجزائر میں فرانس سے کئی زیادہ انویسٹ کیا اور حتی ٰ
المکان کوشش کی کہ وہ الجزائریوں کا دل جیت سکے حالانکہ وہ اس کوشش میں
دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا تھا لیکن الجزائر ی اپنے سے
کئی گنا بڑے قابض ملک فرانس کیخلاف ڈٹ گئے اور اگر وہ ایسا نہ کرتے توآج
فرانس کی کالونی ہوتے انکی تاریخ و تشخص دم توڑ گیا ہوتا اور کوئی انکی بات
نہ سنتا لیکن انکی اسی جدوجہد نے الجزائر کو فرانس کے لئے نقصان دہ پروڈیکٹ
بنا دیا جس سے فرانس نے بالآخر نجات حاصل کی۔افغانستان پر 37 ممالک کی
افواج حملہ آور ہوئیں اور قبضہ کر لیا جب کے حملہ آوروں کی مذمت میں ڈٹنے
والوں کو دہشت گرد کہا گیا ۔اور باغیوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ دنیا
انہیں کیا کہتی ہے اور جدوجہد کو جاری رکھا آج وہی عالمی سامراج بظائر
انہیں دہشت گرد کہتا ہے اور درپردہ ان سے مذاکرات کی بھیک مانگتا ہے اگر وہ
مذمت سے دستبردار ہو کر پر امن تقریریں جاری رکھنے پر اکتفا کر لیتے تو
انہیں یہ عالمی درندے پاؤں تلے مسل دیتے انکا نام و نشان باقی نہ رہتا۔
کل ہی کی بات ہے کہ 13اگست 1947کواقوام متحدہ (عالمی برادری)نے کشمیری عوام
سے حق خود ارادیت دینے کا کا تحریری معائدہ کیا اور ہم پر امن طور پر اس کے
وفا ہونیکا انتظار کرنے لگے چالیس برس بیت چکے ایک جنریشن نے وہ انتظار
جھیلااور اسوقت شیخ عبدلﷲ جو کشمیری تاریخ کا ناقابل تردید عوامی لیڈر تھا
نے قوم کو پرامن جدوجہد کیجانب دھکیلا لیکن اس پر امن جدوجہدکا کیا نتیجہ
برآمد ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے جبکہ وہ شخص جو ڈیڑھ کروڑ لوگوں کا مسلمہ
لیڈر تھا اسکی زندگی کو نشان عبرت بنا دیا گیا لیکن وہ پر امن عوامی تحریک
قوم کی تقدیرنہیں بدل سکی البتہ شیخ خاندان کو نسل در نسل پر آسائیش زندگی
کی سہولت ضرور ملی بہر حال دنیا بھر کی اور ریاست کی اپنی تاریخ یہ ثابت کر
رہی ہے کہ بسم اﷲ چوک لعل چوک شہیدچوک اور دوسرے چو ک وچوراہا میں گونجنے
والی آوازیں کبھی سامراجی ایوانوں میں نہ پہنچی ہیں نہ کبھی پنہچ پائیں گی
اگر پہنچ بھی جائیں تو اس کاکسی پر کوئی خاطرخواہ اثر نہیں ہوتایہی وہ
تاریخی حقائق رہے ہیں جنکی بنیاد پر شہید کشمیر نے این ایل ایف قائم کیا
تھا جبکہ بعد میں لبریشن فرنٹ کے قیام کے اغراض و مقاصد بھی یہی تھے۔
ریاست جموں کشمیر کی تحریک آزادی میں میجرتحریکی تنظیم جموں کشمیر لبریشن
فرنٹ ہے 1988میں جس کی کال پر پوری قوم نے لبیک کہتے ہوئے قابض ملک کیخلاف
ہتھیار اٹھائے اور دو لاکھ لخت ہائے جگر اس میدان کار زار میں قربان کر
دئیے پھر بدلتے حالات کے پیش نظر ریاست میں یکطرفہ سیز فائر کا علان کر دیا
گیا ۔تحریک آزادی کشمیر میں یہ بڑا اہم ترین موڑ ہے جب تحریکی قیادت کے پاس
یہ موقع ہے کہ وہ دنیا کو باور کروائے کہ ہم پر امن قوم ہیں ہم نے پہلے بھی
عالمی برادری کے کہنے پہ سیز فائر کیا تھاجب ہمارے ساتھ دنیا نے انصاف نہیں
کیا تو ہم نے مسلح جدوجہد شروع کی اور اب ایک بارپھر ہم نے کئی برسوں سے
یکطرفہ سیز فائر کر کے دنیا کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ پرامن طور پر ہمیں
ہمارا حق خود ارادیت دلائے ۔اسکے ساتھ ساتھ تحریکی قیادت کا یہ بھی فرض
اولین ہیکہ وہ قوم پر یہ واضع کر دے کہ کیا آپ نے مسلح جدوجہد کو ہمیشہ
کیلئے ترک کر دیا یا اسے بوجوہ معطل کیا ہے۔تاکہ عشروں کی جدوجہد اور بے
مثال قربانی کے عوض عوام کے دلوں میں تحریک آزادی کی سواد اعظم لبریشن فرنٹ
کیلئے جو محبت وہمدردی اور وابستگی ہے اسے کوئی نقصان نہ پہنچے کیونکہ عوام
کے دلوں میں ایسا مقام حاصل کرنے میں بڑی قربانیاں دینا پڑھتی ہیں اور اس
عمل میں صدیاں لگ جاتی ہیں لہٰذہ اس عظیم سرمایہ کو بچا کے رکھنا سب کا فرض
ہے بشرطیکہ اسکا ادراک ہوکیونکہ عالمی برادری کسی فرد کا نام نہیں کہ جسے
وعدہ خلافی کرنے پر برسرعام گریباں سے پکڑ کر ہم اپنا حق لے سکتے ہوں ۔نہیں
ایسا نہیں ہوتا ایسے کاموں میں،،،،،جن لوگوں نے 13اگست1947میں پاس ہونیوالی
قرارداد پر دستخط کئے اور سیز فائر کروایا تھا آج ہم ان کا گریبان نہیں پکڑ
سکتے اور نہ ہی وہ لوگ ہمیں وہ سب لوٹا سکتے ہیں جو ہم نے ان چھ عشروں میں
کھویا اور دوبارہ ہتھیار اٹھانا پڑھے ۔اسی طرح آج ہم اس وقت کی لیڈر شپ کو
اگر وہ کہیں مل بھی جائے جو کہ ناممکن ہے سے کیا حاصل کر سکتے ہیں ماسوائے
اسکے کہ جناب آپکے اس غلط فیصلے نے قوم کو تبا ہ و برباد کر دیا۔ |