23 دسمبر کو لاہور میں مولانا طاہر القادری
صاحب لاکھوں لوگوں کا اجتماع جمع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ پاکستان کے
موجودہ الیکٹرورل نظام سے نالاں ہیں۔ اور اس نظام کو بدلنے کی خواہش لے کر
پاکستان آئے ہیں۔۔ جس کا اظہار انہوں نے لاہو ر کے جلسے سے خطاب میں بھی
کیا۔ انہوں نے حکمرانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے 15جنوری کی ڈیٹ لائن دی ہے کہ
تب تک نظام ٹھیک کرلو ورنہ وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔۔ ایک بات جو
سمجھ نہیں آتی وہ یہ کہ مولانا صاحب نظام کو تو بدلنا چاہتے ہیں مگر خودکسی
نظا م کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اس بات کے پیچھے کیا راز ہے خدا ہی جانے۔
کہیں انہیں اپنی دوہری شہریت کی فکر تو نہیں ۔۔؟ مگر بات جو بھی ہے وہ جس
مشن کے تحت پاکستان آئے ہیں اس مشن کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایم
کیو ایم کا سہارا کیوں لے رہے ہیں۔۔؟
اگر ایسا نہیں ہے تو وہ یقینا ایم کیو ایم کے لئے استعمال ضرور ہورہے ہیں۔
طاہر القادری کی نیت پر تو مجھے شک نہیں ہے مگر میرا ماتھا ٹھنک ضرور رہا
ہے ۔ ۔۔ خدشہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم جو حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ سے نالاں
ہیں اور قائدتحریک الطاف بھائی نے کھلے الفاظ میں سپریم کورٹ کی شان میں
گستاخی کر ڈالی تھی۔۔جس کی پاداش میں ملک کے سب سے بڑی عدالت نے انہیں
توہین عدالت کی نوٹس جاری کرتے ہوئے کورٹ طلبی بھی کی ہوئی ہے۔ یہی بات ایم
کیو ایم سے ہضم نہ ہوسکی ۔ لہذا ایم کیو ایم کے غنڈوں نے اسلحے کے زور پر
سندھ کے بڑے شہروں کو کچھ دنوں کے لیے جام بھی کردیا۔قائد بھائی نے دبے
لفظوں میں واضح اشارہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کو انتباہ کیا کہ ان کی پیشی کی
صورت میں کچھ برا بھی ہوسکتا ہے۔۔
ایم کیوایم کی طرز حکمرانی اور طرز سیاست کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن
طاہر القادری صاحب ایم کیو ایم کی نئی نویلی دوستی سے خوش ہیں۔کیونکہ انکی
تحریک کی راہ میں کوئی ہمسفر تو ملے۔ مگر ہوسکتا ہے اسلام آباد مارچ کے بعد
ان کی خوشی غم میں بدل جائے ۔ کیونکہ ایم کیوایم نظام کی تبدیلی سے زیادہ
سپریم کورٹ پر رعب جمانے پر زیادہ توجہ دی گی۔۔اور ان کو طاہر القادری کی
صورت میں اچھا ساتھی مل گیا ہے۔ جو لاکھوں لوگ اسلام آباد لانے میں کامیاب
ہوجائیں گے اور لگے ہاتھوں ان کابھی کام ہوجائے گا۔۔لہذا مولانا صاحب کو
قبل از وقت سوچنا چاہئے کہ کہیں ان کی کاز پیچھے نہ چلی جائے ۔۔۔ |