اکبر کی سنجیدہ شاعری

اکبر طنزومزاح کے شاعر کی حیثیت اتنے مشہور ہوئے کہ ان کی سنجیدہ شاعری پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اگر ان کی کلیات کے چاروں حصوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کا سنجیدہ کلام چاہے نظمیں ہوں ی غزلیں، قطعات ہوں یا رباعیات، مرکب ہوں یا مفرد، اشعاریہ اسلوب و معنی دونوں لحاظ سے اپنا منفرد رنگ رکھتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں اعلیٰ پایہ کا تغزل ہے
دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا
بت کے بندے ملے اللہ کا بندہ نہ ملا
بزمِ یاراں سے پھری بادِبہاری مایوس
ایک بھی سرے سے آمادۂ سودا نہ ملا

آرزو ہے مجھے اک شخص سے ملنے کی بہت
نام کیا لوں کوئی اللہ کا بندہ نہ ہو گا

دل میں سوزش آنکھ میں آنسو
عشق ہے کھیل آگ پانی کا
اور اس شعر میں دیکھئے درد کی کیسی دھیمی دھیمی کسک ہے
زخمی نہ ہوا تھا دل ایسا سینے میں کھٹک دن رات نہ تھی
پہلے بھی ہوئے تھے یہ صدمے روئے تھے مگر یہ بات نہ تھی

موت آئی عشق میں تو ہمیں نیند آ گئی
نکلی بدن سے جان تو کانٹا نکل گیا
تصوف کا یہ شعر دیکھئے
زبانِ حال سے پروانۂ بسمل یہ کہتا تھا
حضوری ہو اگر حاصل مزہ ہے نیم جانی میں

کیا اچھا جنہوں نے دار پر منصور کو کھینچا
کہ خود منصور کو مشکل تھا جینا باخدا ہوکر

ضرورت کم ہےراہِ عشق میں خضر ہدایت کی
یہ قدر شوق سالک ہے خود کشش منزل میں ہوتی ہے
وہ صوفیوں کے عقیدے کے مطابق خود کو مٹا کر ذاتِ حقیقی میں گم ہونا چاہتے تھے
تھا لگا روح پہ غفلت سے دوئی کا دھبا
تھا وہی صوفی صافی جو اسے دھوکے مرا

گو کہ غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنے کے ہیں اور اس میں عشق و محبت کے جذبات کو بیان کیا جاتا ہے۔ محبوب کا سراپا، حسن ناز انداز، ہجر و وصال کی کیفیات، مگر اسی کے ساتھ شاعروں نے عشق مجازی اور حقیقی کے ساتھ ساتھ گذلوں میں کم ہی سہی ایسے اشعار بھی کہے ہیں جن میں زندگی کی دوسری حقیقتوں کا بیان ہے۔ اکبر کے یہاں ایسے اشعار بہت ہیں۔
دنیا کی طوالت بے جا ہے خلقت کا تو لمبا قصہ ہے
ہر شخص فقط یہ غور کرے اس ’کل‘ میں مرا کیا حصہ ہے

دل سے کہہ سکتے ہیں یاں شمع بصیرت نہ بجھے
رات سے کہہ نہیں سکتے کہ شب تار نہ بن

تو خاک میں مل اور آگ میں جل جب خشت سے تب کام چلے
ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ تعمیر نہ کر
میر تقی میر کہتے ہیں
ایک محروم ہمیں میر چلے دنیا سے
ورنہ عالم نے زمانے کو دیا کیا کیا کچھ
مگر اکبر کہتے ہیں
کروں کیا غم کہ دنیا سے ملا کیا
کسی کو کیا ملا دنیا میں تھا کیا؟

پختہ طبعوں پر حوادث کا نہیں ہوتا اثر
کوہساروں پر نشانِ نقش پا ملتا نہیں

اکبر کی غزلیات کا مجموعی طور پر اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ان کی غزلیات میں تین رنگ ملتے ہیں۔ ایک تو بالکل ابتدا میں روایتی انداز کی غزلیں جن میں ایک گھلاوٹ ہے، زبان کا لطف ہے اور کہیں کہیں مکالماتی انداز ہے جیسے
جب کہا میں نے کہ پیار آتا ہے تم پر
ہنس کے کہنے لگے اور آپ کو آتا کیا ہے؟

میں حالِ دل تمام شب ان سے کہا کیا
ہنگامِ صبح کہنے لگے کس ادا سے ’’کیا؟‘‘

تم نے بیمارِ محبت کو ابھی کیا دیکھا
جو یہ کہتے ہوئے جاتے ہو دیکھا دیکھا

اس کے بعد ان کی وہ غزلیں جن میں اعلیٰ پایہ کا تغزل ہے، برجستگی ہے، تصوف کے اشعار بھی ہیں اور غزل کے سب لوازمات کو پورا کرتی ہیں۔ ان کو اردو شاعری کے غزلیات کے انتخاب میں نمایاں جگہ مل سکتی ہے اور ان غزلیات کی بناء پر بعض نقادوں کو خیال ہے کہ اکبر صرف غزل گوئی تک اپنی شاعری کو محدود رکھتے تو ان اکا شمار چوٹی کے شعراء میں ہوتا لیکن اکبر اپنے زمانے کے تقاضوں سے باخبر تھے اوروہ سرسیّد کی تحریک کے زیراثر ہونے والی ان اصلاحات سے بھی متفق تھے۔ ادب میں تبدیلیاں آنی چاہئیں، ادب کو اصلاح کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ حالی نے خاص طور سے اس پر زور دیا کہ غزل کی لفظیات اور مضامین دونوں میں تبدیلیاں لانی چاہئیں۔ اسی کا اثر ان کی غزلوں میں ایک اور رنگ نظر آتا ہے۔ ان کی ان غزلوں کے اشعار دیکھئے۔
واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے
کردیا کعبے کو گم اور کلیسا نہ ملا
رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی قائم رکھا
زنگ باطن میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا
سیّد گزٹلے کے جو اٹھے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسہ نہ ملا

غزل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اس میں تسلسل نہیں ہے اور اس میں کوئی مربوط بات نہیں کہی جا سکتی۔ اکبر کے یہاں مسلسل غزلیات بھی ہیں۔
وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گل رہے نہ وہ حسیں رہے
وہ فلک نہ رہا وہ سماں نہ رہا وہ مکاں نہ رہا نہ وہ مکیں رہے
وہ گلوں میں گلوں کی سی بو نہ رہی، وہ عزیزوں میں لطف کی خو نہ رہی
نہ وہ آن رہی نہ وہ امنگ رہی نہ وہ رندی و زہدی کی جنگ رہی
سوئے قبلہ نگاہوں کے رخ نہ رہے درِ دیر نقش جبیں نہ رہے
وہ طریقہ کار جہاں نہ رہا وہ مشاغل رونق دیں نہ رہے

اکبر نے اس قسم کی غزلوں میں انگریزی لفظوں کو بھی خوبصورتی سے کھپایا ہے۔
یوسف کو نہ سمجھے کہ حسیں بھی ہیں جواں بھی
شاید نرے لیڈر تھے زلیخا کے میاں بھی

ہم ہوں جو کلکٹر تو وہ ہو جائیں کمشنر
ہم ان سے کبھی عہدہ برآ ہو نہیں سکتے

شیخ آنر کے لئے آتا ہے میدان کے بیچ
ووٹ ہاتھوں میں ہے اسپیچ دان کے بیچ

انگریزی کے ساتھ ہی انہوں نے بھاشا کے الفاظ کو بھی غزل کا حصہ بنایا ہے۔ جس سے غزل میں ہندوستانی فضا کی عکاسی ہوتی ہے۔
چھیڑا ہے راگ بھونرے کا ہوا کی ہے ایک نئی دھن بھی
غضب ہے سال کے بارہ مہینوں میں یہ ساون بھی
بڑے درشن تمہارے راجہ کی سیوا سے
مگر من کا پنپنا چاہتے ہو تو کرو پن بھی

اکبر نے غزلوں کے مختلف موضوعات بیان کیے۔ نئی لفظیات اور تراکیب استعمال کیں۔ اس طرح کہ اس کی اشاریت اور ایمائیت قائم رہی۔

اکبر کی شاعری کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حالی اور آزاد نے جو جدید نظم کا تصور پیش کیا تھا اور وہ جس قسم کی تبدیلیاں شاعری میں چاہتے تھے اکبر ان سے متفق تھے اور ان کے اس خیال کے بھی حامی تھے کہ شاعری کو ملک و قوم کی اصلاح کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ انھوں نے نہ صرف نظمیں کہیں بلکہ بلا قافیہ نظمیں کہنے کا تجربہ بھی کیا۔ اجسام کے فنون پرکرتے ہیں خود عمل اور چلا جاتا ہے ایک ننھا سا کیڑا رات کاغذ پر۔ اس کے علاوہ اکبر نے قطعات بھی کہے ہیں اور رباعی کا قطعہ جوڈکشن میں غزل سے قریب ہے۔ اکبر نے اسے نظم سے قریب کیا۔ رباعی کا خاص موضوع تصوف، اخلافِ دنیا کی بے ثباتی اور مناظر فطرت ہے۔ اس میں صرف دو شعر ہوتے ہیں اور مخصوص ارکان ہوتے ہیں۔ رباعی کے آخری مصرع میں شاعر اصل بات کہتا ہے۔ باقی تین مصرعوں میں اس کی تمہید باندھتا ہے۔
کیا تم سے کہیں جہاں کو کیا پایا
غفلت میں آدمی کو ڈوبا پایا
آنکھیں تو بے شمار دیکھیں لیکن
کم تھیں بخدا جن کو بینا پایا

غنچہ رہتا ہے دل گرفتہ پہلے
رنگ چمن فنا سے گھبراتا ہے
کہتی ہے نسیم آ کے راز فطرت
سنتے ہی پیام دوست کھل جاتا ہے

نئی شاعری کے حامی لوگوں نے رباعی میں اصلاحی مضامین باندھے اور سماجی و سیاسی واقعات کو پیش کیا۔ اکبر نے اس طرح کی رباعیاں بھی کہی ہیں۔
اوروں کی کہی ہوئی جو دہراتے ہیں
وہ فونوگراف کی طرح گاتے ہیں
خود سوچ کے حسب حال مضمون نکال
انسان یونہی نہیں ترقیاں پاتے ہیں

اکبر نے اپنی شاعری میں پرانی ترکیبوں اور اصلاحوں کو بھی نئے معنی دیئے ہیں جیسے
رقیب سرٹیفکیٹ دیں تو ہو تسلیم
اگر یہ شرط ہے تو ترکِ عاشقی اولیٰ

اغیار تو رگ رگ سے ہماری ہوئے واقف
اک ہم ہیں کہ پاتے نہیں اس بت کی کمر بھی

یہاں رقیب اور اغیار دونوں انھوں نے اس معنی میں استعمال نہیں کیے ہیں جس معنی میں اردو شاعری میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان دونوں سے مطلب انگریز قوم ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے خود ہی ترکیبیں وضع کیں، نئی علامتیں بنائی ہیں۔ جیسے گزٹ، باگزٹ، بدھو میاں، جمن، وفاتی، لالہ صاحب، پنڈت جی وغیرہ

اکبر نے اپنی شاعری سے موضع اور تکنیک دونوں کے لحاظ سے اردو شاعری کو وسعت دی۔ شاعر کو شاعری کے جدید تصور سے آشنا کیا۔ سیدھے سادے الفاظ میں گہرے مطالب و معنی بیان کرنے کی طرح ڈالی، اور یہی ان کی اہمیت ہے۔
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 597265 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More