تحریک طالبان کی پاک افغان کو جنگ بندی پیشکش

 افغانستان کے صدارتی انتخابات کےلئے ماہ اپریل2014ءکی پانچ تاریخ سے زیادہ اس بات کو اہمیت دی جار ہی ہے کہ امریکہ اگر بادل نخواستہ افغانستان سے واقعی جانا چاہتا ہے اور غیر ملکی افواج کا انخلا ءاگست یا ستمبر2014ءمیں متوقع ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ اگر 5اپریل2014ءمیں افغان صدر کا انتخاب پہلے مرحلے میں ممکن نہیں ہوسکا تو پھر 22مئی2014ءکو منعقد دوسرے مرحلے کی نگرانی بھی امریکہ اور نیٹو افواج ہی کریں گی۔افغانستان کے صدر اول فہیم مارشل نے کچھ عرصہ قبل انتخاب کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے مطابق انتخاب کے انعقاد کو ناممکن قرار دیتے ہوئے ہنگامی حالات کے نفاذ کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا ۔ ولوسی جرگہ کے رکن سید اسحاق گیلانی کے مطابق ایسا اگر کیا گیا تو اس سے حالات کافی بگڑ سکتے ہیں۔اس بیان کے پس منظر میں برطانیہ کے وزیر دفاع کے اس اعتراف کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے تسلیم کیا کہ افغانستان کی بیشتر زمین پر مرکزی حکومت کی عملداری نہیں ہے۔گیارہ سال افغانستان کی سرزمین میں رہنے کے باوجود امریکہ اور نیٹو ممالک کے اتحادی افواج افغانستان پر مکمل مرکزی حکومت کی قیام اور امن قائم میں ناکام رہی اور امریکی صدر کیجانب سے افغانستان مہم جوئی سے امریکہ سمیت نیٹو ممالک کو اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا اور اب انھیں ہزاروں ایسے شدت پسندوں کا سامنا ہے جو اپنی سرزمین کی حفاظت کےلئے امریکہ کےخلاف جنگ کر رہے ہیں ۔افغان الیکشن کمیشن نے مزاحمت کاروں اور طالبان کو بھی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی دعوت دیکر اور امریکہ نے پیرس کانفرنس میں طالبان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے ۔ تحریک طالبان افغانستان نے سیاسی دفتر کے قیام سے غیر ملکی افواج کو یقینی دہانی کی کوشش کی ہے کہ غیر املکی کے انخلا کے بعد افغانستان کا سیاسی نقشہ ماضی کے مقابلے میں مفاہمانہ ہوگا ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر امریکہ اپنی افرادی قوت اور مالی پریشانیوں کے بعد باعزت طرےقے سے واپس جانا چاہتا ہے تو اس کےلئے مناسب یہی ہے کہ افغانستان کی زمیں پر اپنے تسلط کا جلد از جلد خاتمہ کرسکے ۔اور افغانستان جدید جمہوریت کے دور میں داخل ہوکر اپنی ماضی کی غلطیوں کو دوہرانے کے بجائے افغانستان کے انفرا سٹرکچر کی بحالی پر توجہ دے ۔ طالبان کے کچھ قیدی چند امریکیوں کے بدلے اور پاکستان سے مفاہمت کے نام پرخیر سگالی کے طور پر آزاد ہوئے تاہم امریکہ کیجانب سے افغانستان کے مستقل حل کی سنجیدگی میں ناکامی کا بنیادی سبب نیت کا فتور قرار دیا جاتا ہے ۔جبکہ طالبان کیجانب سے2014ءمیں غیر ملکی افواج کے انخلا ءکو بڑی گہری سے نظر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ افغانستان میں جاری جنگ کی سب اہم اور بڑی بنیادی وجہ غیر ملکی افواج کا افغانستان کی سرزمیں پر قبضہ ہے۔بظاہر پاکستان ، امریکہ اور افغانستان کے وزرائے خارجہ پر مشتمل سہ فریقی گروپ کا یہ ماننا رہا ہے کہ افغانستان میں جاری مفاہمتی عمل میں تیزی لانے کےلئے طالبان سے مختلف ذرائع کی مدد سے روابط بڑھانے کی ضرورت اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس بات کا اظہار ٹوکیو میں 8جولائی 2012ءمیں کور گروپ نے افغانستان کی امداد کےلئے منعقدہ کانفرنس کے موقع پر ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کیا تھا۔ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن، پاکستان میں ان کی ہم منصب حنا ربانی کھر اور افغانستان کے زلمے رسول نے افغان حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے والوں سے اپیل کی کہ وہ تشدد کا راستہ چھوڑ کر مذاکرات کا آغاز کریں۔اس کے علاوہ خاص بات یہ بھی تھی کی اس بات میں اتفاق رائے پایا گیا کہ اس بات کا فیصلہ کرنا افغان عوام کو کرنا ہے کہ وہ اکھٹے کیسے رہ سکتے ہیں۔ان کے ملک کامستقبل کیسا ہوگا ؟ اور ان کے ملک کا خطے اور باقی دنیا میں کردار کیا ہوگا ´۔افغانستان کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق 2014ءمیں نیٹو افواج کے بعد افغان حکومت میں انتشار اور ملک میں خانہ جنگی لا شدید خطرہ موجود ہے ۔ حالاں کہ افغان صدر کے نائب ترجمان حامد علمی کہہ چکے ہیں کہ اگر بین الاقوامی برادری مستقبل میں حمایت اور وعدے پورے کرتی ہے تو 2014ءکے بعد غیر ملکی افواج کے انخلا ءسے کو ئی فرق نہیں پڑے گا ۔ روس اور امریکہ کی جنگ میں بہت نقصان اٹھا چکے ہیں ۔ اس سلسلے کو اب رک جانا چاہیے کیونکہ اب پاکستان مکمل غیر محفوظ ہوچکا ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور بقا ءکا دارومدار پر امن افغانستان سے وابستہ ہے۔پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے اگر افغانستان کے مسئلے کا حل مدبرانہ طرےقے سے نکالنے میں ماضی کی غلطیوں کا اعادہ کیا گیا تو یقینی طور پر شمال مغرب سرحدیں کبھی بھی محفوظ نہیں رہیں گی ۔ بھارت کیجانب سے افغانستان میں اپنا سیاسی اثر رسوخ بڑھانے کا مقصد یہی ہے کہ با آلاخر بین الاقوامی برادری پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے اندرونی معاملات میں الجھا دی گی ۔ تحریک طالبان افغانستان میں قیام امن کوششوں کےلئے تعاون کی راہ پر ہے اب تحریک پاکستان پنجاب کی جانب سے بھی حکومت کو جنگ بندی اور مفاہمت کی پیش کش موصول ہے لیکن دل چسپ امر یہ ہے کہ افغانستان کے مقابلے میں پاکستان طالبان گروپوں پر مشتمل یہ گروپ خود تفرقے کا شکار ہیں اور کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کے بجائے اپنے اپنے موقف کی بنیاد پرکبھی امریکہ تو کبھی پاک افغان کے خلاف کاروائیوں میں مشغول نظر آتے ہیں۔پاکستان سے افغانستان تک طالبان تحریک(پاکستان) کی مختلف کالعدم تنظیموں پر پاکستان میں پابندی عائد اور ان کی سیاسی کوئی حیثیت نہیںہے ۔ جن میں بلوچ لبرشن یونائٹیڈ فرنٹ ، بلوچستان لبریشن آرمی ، حرکتہ الجہاد اسلامی ، حرکتہ المجاہدین ، لشکر جھنگوی ، لشکر طیبہ ، سپاہ صحابہ ، سپاہ محمد پاکستان جیشں محمد اور طالبان کے مختلف گروہ ہیں۔تحریک پاکستان کی مختلف گروپوں میں حکیم اللہ محسود روپ کو امیر پاکستان تسلیم کیا جاتا ہے۔ عمر خالد گروپ کو مہمند ایجنسی ، مولانا ابو بکر گروپ کو باجوڑ ایجنسی ، منگل باغ گروپ کے لشکر اسلام خیبر ایجنسی ،ولی الرحمان گروپ کو ساﺅتھ وزیرستان ، وانا میں نیک محمد کے بیٹے ولی محمد گروپ اور ریڈیو ملا کے نام سے مشہور مولانا فصل اللہ گروپ کو تحریک نفاذ شریعت محمدی سوات کے امیر کے طور پر متعارف ہیں۔ ساﺅتھ وزیر ستان کے بیت اللہ محسود تحریک پاکستان کی پہلے امیر تھے جو اگست 2009میں ہلاک ہوئے، مولانا داد اللہ باجوڑ کے کمانڈر تھے جو 24اگست 2012کو ہلاک کئے گئے ۔قاری حسین بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھی 23جون2009کو ہلاک ہوئے، قاری زین العابدین محسود جنوبی وزیرستان کے 23جون 2009کو ہلا ک ہوئے مولوی محمد افتخار پاکستان کے ٹاپ لیڈروں میں تھے جو لال مسجد کے حوالے سے شہرت یافتہ ہوئے 14اکتوبر2011کو ہلاک ہوئے۔ فقیر محمد باجوڑ ایجنسی کے مارچ 2012میں ہلاک ہوئے ۔صوفی محمد تحریک نفاذ شریعت محمدیہ کے لیڈر5جون 2009سے ابھی تک گرفتار ہیں۔تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے تسلیم نہ کئے جانے والے جنوبی وزیر ستان کے حافظ گل بہادر گروپ ،جو حکیم اللہ محسود کے مخالف ہے اور امریکہ کے نیٹو قافلوں کو نشانہ بنانے میں اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے اور شمالی وزیرستان میں مولوی نذیر گروپ ہے۔ بیت اللہ محسود کے ترجمان کو اگست2009میں گرفتار کیاگیا تھا جبکہ مسلم خان 11ستمبر2009سے گرفتار ہے۔اسی طرح پنجابی طالبان کے سے متعارف لشکر جھنگوی ، لشکر طیبہ ، سپاہ صحابہ ، سپاہ محمد پاکستان جیشں محمد فرقہ وارانہ ہیں۔دیگر طالبان گروپ میں الیاس شاکر گروپ ، قاری ثناءاللہ گروپ، ابو فتادہ گروپ ،ازبک گروپ میں امجد فاروقی گروپ ،تکسری گروپ ، جلال الدین حقانی گروپ ، قاری یاسین گروپ ، قاری ظفر گروپ ،حافظ گل بہادر گروپ ، محمد عمر گروپ ۔ ملاد داد اللہ گروپ ، مولوی رفیق گروپ ، بھی اپنے کاروائیوں میں مصروف ہیں۔بدر منصور گروپ، بنگالی گروپ ، رانا افضل گروپ عرف نور خان گروپ ،سیف اللہ اختر گروپ ، گل حسن احمد خان گروپ ،کلیم اللہ گروپ ،تحریک اسلامی گروپ ، شیخ فاتح عثمان گروپ ،شیخ معراج گروپ ، بلال گروپ ، عبدالجبار گروپ ، عصمت اللہ گروپ ، شامل ہیں ۔لہذا تحریک طالبان (پاکستان) کے پنجاب کے امیر عصمت اللہ کی جانب سے حکومت کو مفاہمت کی پیش کسی دو سیاسی جماعتوں کو ہدف تنقید بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیونکہ پاکستان میں ہونےوالی تمام دہشت گردکاروائیوں سے تحریک طالبان کے امیر ملا عمر لاتعلقی کا اعلان کرچکے ہیں اور پاکستان میں جس طرح ملکی دفاعی اداروں کو بے گناہ عوام کے ساتھ ہدف بنایا گیا ہے ایسے محض کسی ایک پاکستانی " عصمت اللہ گروپ "کی جانب سے جنگ بندی کی پیش کش کرنا ناقابل فہم ہے۔پاکستان میں طالبان کے نام پر جو عناصر ملک دشمن کاروائیاں کر رہے ہیں ان سے مذاکرات غیرموثر ہیں۔تحریک طالبان افغانستان سے امریکہ اور افغان حکومت مذاکرات کر رہی ہے توتسلیم شدہ نمائندے بھی منظر عام پر ہیں۔لیکن پاکستان میں کونسا گروپ کس کے اشارے پر کیا اور کیوں کاروائی کر رہا ہے، ان سے کوئی بھی منظر عام پر نہیں ہے۔ اس پر سب متفق ہیں کہ طالبان کا یجنڈا افغانستان کے مقا بل پاکستان میں کچھ اور ہے ۔ پاکستان میں امن افغانستان کے امن سے وابستہ ہے ،لہذا امن کےلئے پوری توجہ افغان پالیسی پر ہی دی جائے تو بہتر ہے۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.