صدر زرداری کا خطاب اور مصری ماڈل

گزشتہ دنوں لاڑکانہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مقتول چیرپرسن بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر منعقدہ جلسے میں جیالوں کا جوش و خروش کیسا تھا یا جلسے میں عوام کی تعداد کیا رہی یہ ہمارے آج کے کالم کا موضوع نہیں بلکہ ہمارے آج کے کالم کا موضوع صدرمملکت کا وہ بیان ہے جس میں صدر نے کہا تھا کہ ہمیں مصری ماڈل قبول نہیں؛سوال یہ ہے کہ جناب صدر کو یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور کیا جناب صدر کے اس بیان کے پیچھے کہیں کوئی نادیدہ قوت تو کارفرما نہیں ان سوالوں کے جواب جاننے سے پہلے لازم ہے کہ تھوڑی سی روشنی مصری صورتحال پر ڈالی جاتے تا کہ یہ پتہ چلے کہ آخر مصری ماڈل میں ایسی کیا برائی ہے کہ جس سے ہمارے صدر صاحب کو اتنی الرجی ہے -

اگر آج سے تھوڑا عرصہ پیچھے جا کہ ہم مصر کی صورتحال کا جائزہ لے تو حیرت انگیز طور پر اس وقت کی مصری صورتحال پاکستان کی موجودہ صورتحال سے بہت مماثلت رکھتے تھے یعنی جوکام آج پاکستان میں ہورہاہے کل یہی کچھ مصر میں ہورہاتھا مثال کی طور پر آج پاکستان میں اقربا پروری کا دور دورا ہے کل یہی کچھ مصر میں ہورہاتھا ،آج پاکستان میں ہر طرف لوٹ مار ہورہاہے جس کے نتیجے میں غربت روزبروز بڑھ رہی ہے ،کل یہی کچھ مصر میں ہورہاتھا آج اگر ہماری خارجہ پالیسی غیروں کی تابع بنی ہوئی ہے تو کل یہی کچہ مصر میں ہورہاتھا آج جو پاکستان میں روشن خیالی کی نام پر دینی شعائر کامذاق اڑایا جارہاہے تو کل یہی کچھ مصر میں ہورہاتھا ،آج پاکستان میں اسلام پسندوں کا گھیرا تننگ کیا جارہاہے تو کل یہی کچھ مصر میں ہورا ہورہاتھا .مصری عوام اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے عرصہ دراز سے کوشش کر رہے تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے بے پناہ قربانیاں دی تھیں -

مصری عوام کو اس وقت زبردست امید پیدا ہوئی جب تیونس کے عوامی انقلاب کے آگے وہاں کے حکمران زین العابدین نے ہتھیار ڈال کر ملک سے راہ فرار اختیار کرنے میں عافیت جانی ،تیونسی عوام کے کامیاب کوششوں نے مصری عوام کو ایک نئی جلا بخشی اور انہوں نے مصری صدر حسن مبارک کے خلاف اپنی جدوجہد تیز کردی اور بے پناہ قربانیوں کے بعد بالاخرانہوں نے حسن مبارک سے چھٹکارا حاصل کرلیا ،حسن مبارک کی جانے بعد گو کہ انکے وفاداروں نے گڑبڑ کرنے کی بہت کوشش کی کہ ملک میں کوئی اسلام پسند قیادت سامنے نہ آجاتے لیکن انکی یہ کوشش اس وقت بری طریقے سے ناکام ہوئی جب انتخابات میں مصر کی اسلام پسند جماعت اخوان المسلمون نے بھرپور کامیابی حاصل کی ،اخوان کی کامیابی کے بعد عام خیال یہ کیا جارہاتھا کہ وہ حکومت کی تمام کلیدی عہدے اپنے پاس رکھیں گے لیکن اخوان المسلیمین نے اس وقت دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا جب انہوں نے کئی اہم اور کلیدی عہدے اپنے نظریاتی مخالفین کو دے دیے ،اسکے علاوہ اخوانی صدر جناب محمد مرسی کے بارے میں یہ اطلاعات وقتا فوقتا اتی رہتی ہے کے وہ انتہائی شریف النفس اور مزاجا سادہ طبیعت کے مالک ہے اسکے علاوہ محمد مرسی کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے حالیہ فلسطین اسرائیل جنگ میں مسلمانوں کے ازلی دشمن اسرائیل کو گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کردیا -

مندرجھ بالا تمام وجوہات کے بنیاد پر آج نہ صرف مصری عوام بلکہ دنیا بھر کے مسلمان مصری صدر کو اپنا روحانی سربراہ اور مصری حکومت کو اپنے لیے ایک ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں ،دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح پاکستانی مسلمان بھی صدر مرسی کو اپنا ہیرو تصور کرتی ہیں اور انکی یہ دلی خواہش بھی ہے کی انکے اوپر بھی مرسی جیسا خدا ترس اور عوام دوست سربراہ ہونا چاہیے -

لیکن سوال پھر وہی سامنے آرہا ہے کہ آخر صدر زرداری کے بیان کو کس پیرائے میں لیا جاتے ؟تو میں سمجھتا ہوں کہ اس بیان میں ہمارے صدر محترم کی زبان اگر چہ استعمال ہوئی ہے لیکن اس بیان کی پیچھے وہی قوتیں کارفرما ہیں جو عراق اور افغانستان میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد تیونس اور مصر میں بھی ناکام ہوچکی ہیں اور اب پاکستان میں خود کو بچانے کی تگ و دو کر رہے ہیں اسکے علاوہ اس بیان کے پیچھے ہمارے کچھ دوست ممالک کی سوچ بھی ہوسکتی ہیں کیونکہ مندرجہ بالا تمام قوتیں یہ سمجھتے ہیں کے اگر پاکستان میں مصری طرز حکومت قائم ہوئی تو انکے مداخلت کی تمام راستے مسدود ہوجائینگے-

مندرجہ تمام تر حقائق کو سامنے رکھتے ہو یے میں اس کالم کی توسط سے جناب صدر کی خدمت میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کے دنیا کی بدلتے ہوتے حالات کی پیش نظر ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے کہ جس سے ایک طرف تو عرب ممالک "جو کہ ہمارے بہترین دوست ہیں،،کے ناراضگی کا خطرہ تو دوسری طرف عوامی غیض و غضب کا-
Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 105451 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More