امن ہر جاندار کی ضرورت ہے ۔ اس
دنیا میں کون ایسا ہو گاجو امن و آشتی اور سکون و سلامتی نہیں چاہتا
ہو۔اپنے جسم و جان ،خاندان اور عزت و آبرو کی سلامتی سب کو عزیزہے۔امن
کاآرزو مند ہو ناانسان کی فطرت میں داخل ہے ،اس لئے ہر وجود امن اور سلامتی
چاہتاہے کیونکہ امن و سلامتی معاشرہ،افراد،اقوام اورملکوں کی ترقی و کمال
کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح اگر تمام اسلامی عبادات اور معاملات سے لے
کر آئین اور قوانین سیاست و حکومت تک کا بغور جا ئزہ لیاجائے تو ان تمام
چیزوں سے امن و سلامتی اور صلح و آشتی کا عکس جھلکتا ہے جو اسلام کا مقصود
و مدعا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نہ صرف امن کا حامی اور دعویدار ہے بلکہ
قیام امن کو ہر حال یقینی بنانے کی تاکید بھی کرتاہے۔
امن خوشیوں کی نوید ہے، امن نغمہ مسرت ہے، امن مژدہ جاں فزا ہے، امن خواب
ہے اور امن تعبیر بھی۔آرزوں اور امنگوں کا موسمِ بہار ہے امن۔ امن ہی شرف ِانسانیت
ہے، امن راحت ِجاں ہے، امن چین کی بانسری ہے، لے ہے، شہنائی ہے امن.پرسکون
نیند ہے امن۔ امن ہی انسانیت کی ضرورت ہے۔ امن ضروری ہے، ازبس ضروری سانس
کی طرح، جس سے تارِ زندگی بندھا ہوتا ہے۔ امن ہی گیت ہے اور امن ہی سنگیت
بس امن ، لیکن میرے یہ خوبصورت الفاظ، میرے خوبصورت خواب،شاعروں کے نغمے،
ان کے لکھے ہوئے گیت، لکھاریوں کے افسانے، ہم سب کی آرزوئیں اور امنگیں،
خدا کرے ہمارے ضلع میں امن لے آئیں؟
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ال مسلِم من سلِم ال
مسلِمون مِن لِسانِہِ و یدِ ہِ '' یعنی مسلمان وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ
سے دو سرے مسلمان محفو ظ ہوں۔ انسان اکثر او قات اپنی زبان اور ہاتھ دوسروں
کو نقصان پہنچاتاہے اس لئے اسے اپنے ہا تھ اور زبان پر قابو رکھنے کی ہدایت
ہو ئی تاکہ انسان دوسرے لو گوں کو امن و سکو ن کی نعمت سے محروم نہ کر سکے۔
تاریخی اور اصلاحی لحاظ سے اسلام لفظ سِلم سے نکلا ہے جس کے معنی صلح وامان
اور سلامتی ہے۔اسلام کے اسی معنی اور مفہوم کے پیش نظر ایک مسلمان جب دوسرے
مسلمان سے ملتاہے تو السلام علیکم کہتا ہے جس کے معنی ہیں تجھ پر سلامتی
ہو۔سلام ایک دعائیہ کلمہ ہے اور اللہ تعالی کے اسما ئے حسنہ میں سے ایک ہے
جس میں اپنے اور دوسروں کے لئے امن و سلامتی کی خو اہش اور آرزو شامل ہے۔
چونکہ اسلام اس نظام حیات کا نام ہے جس میںانسان ہر قسم کی تباہی،آفت اور
بر بادی سے محفوظ رہے اور دنیا میں بھی امن و سلامتی اور صلح و آشتی قا ئم
کرنے کاموجب ہو۔وہ سفر زند گی میں دوسرے افراد معاشرہ کے ساتھ ہم آہنگی کے
ساتھ چلے اور کوئی کام ایس نہ کرے جس سے معاشرے کے امن میں کو ئی خلل واقع
ہو۔جیسا کہ حضرت علی نے بھی اپنے ایک خطبے کے آغاز میں اسلام کو امن و
سلامتی کا قلعہ قرار دے کر فرمایا ہے کہ''ساری تعریف اس خداکے لئے ہے جس نے
اسلام کا قانون معین کیا تو اس کے ہر گھا ٹ کو واردہو نے والے (قبول کرنے
والے ) کے لئے آسان بنا دیااور اس کے ارکان کو ہر مقابلہ کرنے والے کے
مقابلے میں مستحکم بنادیا۔اس نے اس دین کو وابستگی اختیار کرنے والوںکے لئے
جائے امن اور اس کے دائرہ میں داخل ہو نے والوں کے لئے محل سلامتی بنادیا۔
ان حالات میں ہم مسلمانوں کو آپس کی فرو عی اختلا فات کو مٹاکر درخت ِدین
یعنی دین اسلام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جودینی عقائدکے مجموعے کا نام ہے
کیونکہ فروع یعنی شاخوں کی بقا اور مضبوطی کادارو مدار بھی درخت کی جڑوں پر
ہے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم برداشت ،رواداری ، صبراور معا فی جیسے
اسلامی اقدار کے عا لمی اصو لوں پرعمل پیرا ہوں اور فرقہ واریت سے اپنے آپ
کو بچا ئیں۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ تعا لی کا ارشاد ہے کہ ''یعنی اور تم سب
مل کر اللہ تعا لی کی رسی کو مضبو طی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو''
۔ اس لئے بحیثیت مسلمان ہمیں رسول اللہ کے زمانے میں قائم کردہ مواخات کے
عمل سے سبق حا صل کرنا چا ہئے جو کہ اخوت یعنی بھا ئی چا رے کا بے مثال سبق
ہے۔اگرمسلمان بھائیوں کے درمیان کوئی ناچاقی ہوجائے تو دوسروں کوچا ہیئے کہ
آگے بڑھ کر دو نوں میں صلح کر ا دے۔ ہم سب کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ جتنا
ہم سے ہوسکیں امن کی باتیں کریں امن کی ان باتوں پر عمل کریں اور اپنے اس
ضلع کو پرامن بناکر اہلیان بھکر کے لئے ایک پرسکون جگہ بنادیں۔ امن کاشعور
دینے کیلئے ضروری ہے کہ ہم مدرسوں ،سکولوں، کالجوں یونیورسٹیوں اور دیگر
مذہبی وسماجی اداروں میں اپنی نئی نسل کو انسانی فلاح اور امن کی تعلیم دیں۔
قرآن پاک میں ہمارے مالک نے ہمیں بتایاہے کہ'' لکم دینکم الولی الدین ''
اور تمہارا دین تمہارے لئے بہتر ہے ہمارا دین ہمارا لئے ۔
امن سے ہی سماج میں ترقی ممکن ہے اس لئے ہر ایک کو اپنا بھرپور کردار ادا
کرنا چاہئے تاکہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ہوسکیں۔آج کل کے حالات میں ہم
سب کی زمہ داری بنتی ہے کہ امن کا داعی بنے اور امن ہی کی باتیں کریں۔ یہ
اس صورت میں ہوگا جب ہم ایک دوسرے کے لئے قربانی کا جذبہ رکھیں گے۔ معافی
اور صبر کے اسلامی تعلیمات ہی امن کا سبب بن سکتے ہیں۔ برداشت اور ایک
دوسرے کی مدد کے ہمارے روایات بھی امن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
علماکرام سے دست بدست عرض ہے کہ علمی و فکری مسائل کو فرقہ واریت کا سبب نہ
بننے دیں اور مذہبی اختلافات کو اشتعال انگیز اور شعلہ بار بنانے سے حتی
الامکان بچا ئیں ، ایک دوسروں کی برگزیدہ شخصیات کے احترام کو پیش نظر رکھ
کر ایک دوسرے کی دل آزاری سے مکمل اجتناب کریں۔
اہل صحافت اور میڈیائی دوستوں سے ایک طالبعلم کی حیثیت سے دل کی دوہائی
وفریاد ہے اگر وہ اس کو گستاخی نہ سمجھیں تو خدار ا !!! مذہب و مسلک کے خول
سے نکل کر ایسے بیانات، مضامین، کالم،فیچر، رپورٹیں شائع کرنے سے گریز کریں
جس سے کسی کی پگڑی اچھلتی ہو، مکمل غیر جانبداری کا ثبوت دیں، یک طرفہ
ٹریفک چلانے سے گریز کریں، کسی بھی خبر کو قابل اشاعت قرار دینے کے لئے
لازم قراردیا جائے کہ اس کا موادباہمی احترام کی مسلمہ تعبیرات سے متصاد م
نہ ہو ، اور قومی ومعاشرتی اور علاقائی نقصان و فائدہ کو بھی ملحوظ خاطر
رکھیں اور اس کے لئے ایک کامیا ب صحافتی ضابطہ اخلاق تیار کیا جانا
چاہیں۔نیز خبروں میں سنسنی خیزی ، اشتعالانگیزی سے اجتناب کیا جانا
چاہیں۔گزشتہ دنوں کے سانحات نے ہمیں سبق دے دیا ہے ۔بہر صورت اس حوالے سے
ہمارے صحافی بھائیوں اور اخبارات کے مالکان کو پہلے کی طرح اب بھی سر جوڑ
کر بیٹھنا چاہیے اور ایک نقطے پر متفق ہونا چاہیے۔ یہاں یہ بات بھی قابل
ذکر ہے کہ بھکر کے اخبارمالکان کے اجلاس میں حتیٰ الوسع کوشش پر زور دیا
گیا کہ مذہبی اشتعال انگیزی سے پرہیز کیا جائیگا اور اللہ کے فضل و کرم سے
وہ اپنے وعدے پر قائم رہے ہیں ، دوسرے طبقات کو بھی امن کی اس کوشش میں
اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
اہل علم و دا نش ا ورصاحبان قلم و قرطاس سے مودبانہ استدعا ہے کہ تعلیمی
اداروں میں برداشت کا ماحول پیدا کیا جائے، علمی درسگاہوں میں مکالمے اور
مباحثے کا خوشگوار ماحول پیدا کیا جائے، اپنے طلبہ و طالبات کو ایسی تربیت
دی جائے جو سماجی ومعاشرتی روایات پر مبنی ہو،طلبا اور اساتذہ کی ایسوسی
ایشنوں میں کمیونیکیشن گیپ کو ختم کیا جائے۔ دینی اور عمومی و عصری
درسگاہوں کے طلبہ کے درمیان فاصلوں کو جتناممکن ہوسکے کم سے کم کیا جائے
اور ان میں مثبت ڈائیلاگ کے کلچر کو عام کیا جائے۔اساتذہ ادب ایسے ادبی
کلچر کو فروغ دیں کہ عوام و خواص اس کو تسلیم کئے بغیر رہ نہ سکے۔ اور
نوجوان شعرا و ادباء کی خلوص نیت کے ساتھ رہنمائی کریں اور ایسے پروگراموں
کی تشکیل و تنظیم کریں کہ آپس میں جوڑ و اتحاد کی فضا پیدا ہوسکے۔ میری
دانست کے مطابق بھکر شہر کے ادباو شعرا، صحافی یہ کام کربھی رہے ہیں تاہم
مزید بہترسے بہترین کا سوچا جانا چاہیے اور مابین کی اختلافات اور رنجشوں
کو بالائے طاق رکھ کر امن کی اس مہم کو مزید فعال کرنا چاہیے۔سب کو مل بیٹھ
کرکام کرنا چاہیے اور ایک دوسروں کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔معاشرے سے
تعلق رکھنے والے دیگر افراد، گروہ،طبقات اور اداروں سے بھی عرض ہے کہ وہ
امن کی اس مہم میں اپنا حصہ ادا کریں، سرکاری آفیسر اور ملازمین کرپشن، کام
چوری، اور میرٹ کی پامالی سے اجتناب کریں اور امانت و دیانت،فرض شناسی
اوررواداری کاعملی ثبوت دیں۔
خون ِ دل دے کے نکھاریں گے رُخ برگ ِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے |