ہمارا روپیہ کس سمت جا رہا ہے

کہا جاتا ہے کہ کسی ملک کی کرنسی (ہمارا روپیہ) اس کی حرکت و طاقت ہوتی ہے، روپیہ ہمارے پاکستان کی کرنسی کا نام ہے اور یہ ملک کی معیشت کا آئینہ دار بھی ہے۔ جب روپیہ ڈالر کے مقابلے میں سستا ہوتا جائے گا تو معیشت کے سامنے لازماً سوالیہ نشان کھڑے ہو جائیں گے۔کس شعبے میں کمزوری ہے؟ کس جگہ پر خامیاں ہیں؟ کہ جس کی وجہ سے ملک کا زرِ مبادلہ کم ہوتا جا رہا ہے، کیوں درآمد و برآمد میں فرق کی وجہ سے مسلسل خصارہ ہو رہا ہے۔؟ صرف ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی روپیہ کی قیمت پر لوگ نظر رکھتے ہیں۔ اگر روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مہنگا ہو رہا ہو تو یہ پہچان ہوتی ہے معیشت کے مضبوط ہونے کی اور ایسی صورت میں ملک کے باہر سے پاکستان میں سرمایہ لگانے والوں کے لئے ملک میں کشش پیدا ہوتی ہے لیکن اگر روپیہ ڈالر کے مقابلے میں سستا ہو رہا ہو تو ملک کی اقتصادی حالت کے بارے میں طرح طرح کے سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔

آج بھی ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدرمیں کمی کا سلسلہ جاری ہے اور انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر مسلسل اضافے کی حدوں کو پار کر رہا ہے۔ جبکہ آج اس کی قیمت خرید 97/40اور قیمت فروخت 98/10پیسہ ہے۔ اور لگتا یہی ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں امریکی ڈالر سو کے ہندسے کو عبور کر لے گا۔ اور یوں ہماری کرنسی کی سمت کیا متعین ہوگی! کیونکہ اگر ہم اپنے حکمران جماعت اور پالیسی سازوں سے پوچھیں کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کون سا ہے تو سب ہی کا ایک جواب ہوگا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ روپے کی روز افزوں بے قدری ہے۔کیا اس جواب سے مسئلہ حل ہوتا ہے شاید نہیں! کیونکہ صرف سوال و جواب سے اگر مسئلہ حل ہوتا تو کب کا کر لیا جاتا۔ میرے بھائی ٹھوس اور مضبوط پالیسی بنائی جائے تبھی جاکر ہمارے روپئے کی قدر کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوٹ کاغذ کے بے وقعت ٹکروں میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ پانچ پانچ ہزار کے بیس نوٹ تو ایسے ہاتھوں میں سما جاتے ہیں کہ بس اور دیکھا جائے تو یہ بیس نوٹ ایک لاکھ روپیہ کہلاتا ہے۔ سکوں کا وجود اب ہمارے ملک سے تقریباً ختم ہی ہو گیا ہے ۔ پڑوسی ملک کو ہی دیکھ لیں کبھی ان کا روپیہ ہمارے روپیہ کے مقابلے میں کم مالیت کا تھا مگر اب ہمارے دو روپے کے برابر ہو چکا ہے۔ یہ ہمارے پالیسی سازوں اور حکمران کیلئے لمحہ ¿ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے۔

ریسرچ کرنے والے ادارے ملک کی اقتصادی صورتحال کے بارے میں غور و خوض کرنے لگ جاتے ہیں کیا ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرنا مناسب ہوگا یا نہیں؟ پاکستان بھی دوسرے ملکوں کی طرح تیل برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے اور تیل کی ادائیگی ظاہر ہے کہ ڈالروں کی شکل میں ہوتی ہے اس لئے روپیوں کو ڈالروں میں بدلنا ضروری ہوتا ہے۔ روپیہ اور ڈالر کے رشتے میں یہی پہلو اہمیت کا حامل ہے کہ جب تک پاکستان تیل خریدنے پر مجبور ہے، وہ ڈالروں کی خریداری پر بھی مجبور ہے۔ یہی مانگ تو ڈالروں کو مضبوط کرنے کا سبب ہے ۔ بات صرف ڈالروں کی کیوں کریں ہمارا روپیہ تو دوسرے ممالک کی کرنسی کے مقابلے میں بھی کافی حد تک سستا ہو چکا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی تیل کی وافر مقدار موجود ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے استعمال کو صحیح سمت کی طرف متعین کیا جائے ، ضائع ہونے سے بچایا جائے ویسے بھی ہمارے ملک میں اس وقت 102/=اور کچھ پیسے میں پیٹرول فروخت ہو رہا ہے۔ اور یہ سب یقینا غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ حکمران طبقے کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہیئے تاکہ قرضوں سے بھی ہمیں نجات مل سکے اور برآمدات میں بھی اضافہ ہو تاکہ ہمارے کرنسی (روپیہ) کی قدر میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آئے۔

ہمارے یہاں تو ڈالروں کی برسات جاری ہی رہتی ہے چاہے وہ اُدھار کی صورت میں مل رہا ہو یا مختلف قسم کے ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں.... بہرصورت قرض ہی زیادہ نظر آتا ہے اور موجودہ وقت میں کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں پیدا ہونے والا بچہ بھی کئی کئی ڈالروں کا مقروض ہے۔ کمزور روپیہ کے باوجود پاکستانی منڈیوں میں ڈالروں اور آئی ایم ایف کی شرائط بڑھتی جا رہی ہیں۔ اور حکومتی ریفارم کے اعلانات صرف کاغذی نظر آ رہے ہیں۔ سرمایہ کاری برائے نام رہ گئی ہے اور بقول وزیرِ خرانہ کے معیشت ڈانواں ڈول ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ ڈالروں کا کھیل کب تک جاری رہے گا اور ہمارا روپیہ کب سدھار کی طرف گامزن ہوگا۔
امریکی ڈالر تو جیسے ہمارا ازلی دشمن بن گیا ہے کیونکہ ہر روز ڈالر تو اوپر کی طرف جا رہا ہے مگر ہمارے روپے کی بے قدری یوں ہو رہی ہے کہ روز افزوں گِراوٹ کی طرف سفر کر رہا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ماہرین کی ٹیم کو روپئے کی سدھار کیلئے سوچنا ہوگا اور اپنے روپئے کو ڈالر کے مقابلے میں بہتر کرنے کی کوشش کرنی ہوگی اور کم از کم برابری کی سطح پر لانے کی سعی بھی کرنی ہوگی تاکہ ہم ہمارا ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔

ہمارے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ 2012ءمیں سب کرنسیوں کے مقابلے میں روپیہ سب سے کم قیمت پر رہا ہے۔ روپیہ کی قیمت پر اثر ڈالنے والے وجوہات کا پتہ چلانا حکومتِ وقت کیلئے انتہائی ضروری ہے ہماری درآمدات کی مالیت برآمدات کی مالیت سے بہت زیادہ ہے یہی وہ خاص سبب خسارے کا ہے۔ غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری سے جو زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے وہ بھی روپیہ کی قیمت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کسی ملک کی معیشت پر جو قرض چڑھتا ہے وہ بھی کرنسی کی قیمت پر اثر ڈالتا ہے۔ اگر ملک کی معیشت پر قرض کا بوجھ زیادہ ہے تو کرنسی سستی ہو جائے گی۔ اب تک جن اسباب کی وجہ سے روپیہ ڈالر کے مقابلے میں سستا نظر آ تا ہے اس کے کم ہونے کے یا ختم ہونے کے آثار تو بالکل نظر نہیں آتے۔جو قرض کا پہاڑ معیشت کے کندھوں پر سوار ہے اس کے ہٹنے کی امید نظر نہیں آتی، نہ افراطِ زر میں کمی کا کوئی نشان ہے۔ ایسی صورت میں روپیہ کے دام بڑھنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ جب تک ملک کی بیرونی تجارت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی اور برآمدات کی مالیت درآمدات سے زیادہ نہیں ہوگی روپیہ کی گِراوٹ کے سلسلے کو نہیں روکا جا سکتا۔ یہ منزل مشکل اور دور معلوم ہوتی ہے لیکن اسے طے کرنا ناممکن نہیں ہے بس یہ یاد رہے کہ اچھے نتائج کا اثر روپئے کی قیمت پر بھی ہو سکتا ہے۔

کسی بھی معاملے میں چاہے وہ کرنسی کا ہی معاملہ کیوں نہ ہو مہارت سے کامیابی حاصل کرنا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور تمام مہارتوں کا درومدار مکمل طور پر کامیابی اور جیت پر ہے یعنی کسی بھی مقصد کیلئے بہتر طور پر منصوبہ بندی کرنا اور مقصد کو مقررہ وقت پر حاصل کرنا کامیابی کی نوید لاتا ہے۔ مگر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہم اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پاتے اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیںاس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے روپئے کی بلند سطح پر بحالی کیلئے خلوصِ دل اور لگن کے ساتھ جد و جہد کریں اور اپنے مقصد کے سمت کا تعین کریں اس لئے میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مقاصد کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے گر شفافیت اور دل جمعی کے ساتھ کوشش کی جائے۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 341805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.