انسانیت کی پیدائش اور اس دنیا
میں آنے کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی ”عبادت “ ہے اور عبادت میں جان پڑتی
ہے ”اخلاص“ سے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:﴿قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ
وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾․(الانعام:162)
ترجمہ:(اے نبی!) کہہ دیجیے ! بے شک میری نمازاور میری قربانی اور میرا جینا
اور میرا مرنا(سب) اللہ رب العالمین کے لیے ہی ہے۔
چناں چہ اخلاص تمام اعمال کی روح ہے اور وہ عمل جس میں اخلاص نہ ہواُس جسم
کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو، گویا اخلاص عبادات واعمال میں ویسی حیثیت
رکھتا ہے جوروح کو بدن میں حاصل ہے۔ ہر انسان کابنیادی مطمحِ نظر یہی ہونا
چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے اس کی رضا حاصل کرے اور جنت کاداخلہ
اس کو نصیب ہو، اس مقصدکے لیے اخلاص کا ہونا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں
اعمال کاحسن معتبر ہوتاہے نہ کہ محض کثرت۔ جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ
ہے:﴿لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً﴾․ (الملک:2)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اَعمال کے حسن کو جانچنے کا تذکرہ کیاہے، کثرت
کانہیں۔چناں چہ اعمال کی قبولیت اور اس پراجروثواب کے حصول کے لیے اس میں
روحانیت واخلاص اور کیفیت کااعتبار ہے، نہ کہ محض تعدادیاقلت وکثرت کا۔
حضرات مفسرین نے آیت کے لفظ”احسن عملا“ کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اس سے
وہ عمل مراد ہے جو خالص ہو اور شریعت کے مطابق ہو۔اسی آیت کے پیش نظر
علمائے محققین نے اعمال صالحہ کی قبولیت کے لیے دو شرائط ذکر کی ہیں:
اخلاص۔ یعنی وہ عمل صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہو اور اسی کو
مطمح نظر بناکر کیاجائے۔
اتباع سنت۔ یعنی وہ عمل قرآن وسنت کی تعلیمات کے موافق ہو۔ بدعت یاکسی اور
طرح سے خلاف شرع نہ ہو۔
علمائے کرام نے اخلاص کی حقیقت بیان کرتے ہوئے مختلف طریقوں سے اس کی وضاحت
کی ہے ،تاکہ ہر پہلو سے بات مکمل ہوجائے، کوئی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے۔
بعض حضرات نے کہا:طاعت میں صرف اللہ تعالیٰ کو مقصود بنانا اخلاص ہے۔
بعض حضرات نے کہا: عمل اس انداز سے کرنا کہ اُس میں نہ تو مخلوق کی واہ واہ
یامذمت پیش نظر ہواور نہ ہی خود وہ کام کرنے والاشخص اس پراِترا رہا ہو۔
بعض حضرات نے کہا: انسان کے اعمال میں اُس کاظاہروباطن باہم موافق ہو ،یہ
اخلاص ہے۔
بعض حضرات نے فرمایا: اپنے اعمال پر صرف اللہ تعالیٰ کوگواہ بناتا ہو۔
ایک حدیث میں خاتم النبیین رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ان
اللہ یحب العبد التقی الغنی الخفی“․(مسلم)
ترجمہ:یقینا اللہ تعالیٰ اپنے متقی ، مخلوق سے مستغنی اور اخفا پسند بندے
سے محبت رکھتے ہیں۔
اس حدیث میں تین صفات والے بندے کواللہ تعالیٰ نے اپنا محبوب قراردیا ہے:
تقی:وہ بندہ جو ظاہر وباطن میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے عذاب سے
ڈرتا ہواور اس کی معصیت سے بچتا ہو۔الغنی:وہ بندہ جو لوگوں کے مال وجاہ سے
کوئی غرض اور کوئی حرص ومفاد وابستہ نہ رکھتا ہو،بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے
سامنے اپنے فقر وحاجت کااظہار کرتا ہو، وہ مخلوق سے استغنا برتتا ہو اور
اللہ کے سامنے خود کومحتاج بنا کررکھتا ہو۔ الخفی: وہ بندہ جو اپنے نیک
اعمال بھی مخلوق کے دکھاوے سے بچنے کے لیے چھپ کرکرتا ہو اور اگر کوئی گناہ
صادر ہوجائے تو اس کوبھی چھپاتا ہواور اس پر خوب توبہ واستغفار کرتا ہو
،کیوں کہ اپنے گناہوں کابندوں کے سامنے اظہار بھی شریعت میں پسندیدہ نہیں
ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: اخلاص سے
خالی عمل کرنے والے شخص سے کہہ دو کہ خواہ مخواہ اپنے آپ کونہ تھکائے، کیوں
کہ بغیراخلاص کے عمل کرنے والے کی مثال اُس مسافر کی سی ہے، جواپنے زاد راہ
کی جگہ مٹی سے اپنی چادر بھر رہا ہو،کیوں کہ اس طرح وہ خود کو فضول کام میں
تھکا رہا ہے جس میں اُسے کوئی نفع نہیں ہے۔
امام ابن کثیر دمشقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تم نیت کی درستی اور اس کی
حقیقت اچھی طرح سیکھ لو،کیوں کہ یہ عمل سے زیادہ طاقت ورہے اور یہ نیت
بسااوقات انسان کواتنی بلندی تک پہنچا دیتی ہے، جہاں تک عمل نہیں پہنچا
سکتا۔
بعض اسلاف سے منقول ہے، وہ فرماتے تھے ، میرادل یوں چاہتا ہے کہ مجھے اور
کوئی مصروفیت نہ ہوتو میں لوگوں کوصرف نیت کی تعلیم دینا شروع کردوں ،کیوں
کہ بہت سے لوگ اس میں حقیقت نہ جاننے کی وجہ سے اپنے بڑے بڑے عمل ضائع
کربیٹھتے ہیں۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر وہ عمل جسے میں لوگوں کے سامنے
ظاہر کربیٹھتا ہوں تو پھر میں اسے اپنے اعمال کے شمار میں نہیں لاتا، کیوں
کہ ہم جیسوں سے اُس عمل کو اخلاص سے ادا کرنا اور باقی رکھنا مشکل ہے جسے
لوگوں نے دیکھ لیا ہو۔
اس کایہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ لوگوں کے دیکھنے کی وجہ سے عمل کو ہی ترک
کردیاجائے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کودکھلانے کی نیت سے نیک عمل نہ
کیاجائے، اس طرح اگر ایسے قصدوارادے کے باوجود لوگ وہ عمل دیکھ لیں یاوہ
عمل لوگوں پر ظاہر ہوجائے تو یہ چیز اخلاص کے منافی نہیں ہے، بلکہ بعض
اوقات لوگوں کوعمل پرابھارنے کی نیت سے اگر کوئی عمل ظاہراً کردیاجائے تو
اس میں بھی مزید اجر کی امیدہے۔ ان شاء اللہ…۔پھر یہ بات اُن اعمال میں ہے
جواخفا کے ساتھ کرنا افضل ہیں، ورنہ جواعمال ہیں ہی ایسے کہ وہ اجتماعی شکل
میں کیے جاتے ہیں تو اُن کو چھپا کرکرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے مثلاً نماز
باجماعت ادا کرنا، جہاد کرنا اور تعلیم وتدریس وغیرہ۔
اب ہم اخلاص کی کچھ مثالیں ذکر کرتے ہیں، ان اعمال کے بارے میں جنہیں انسان
بکثرت بجالاتاہے ۔اولاً تو اپنے ہر نیک عمل میں اپنی نیت کوٹٹولاجائے اور
دیکھاجائے کہ آیامیں وہ عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کررہاہوں یاکوئی اور
فاسد غرض اس کامحرّک ہے؟ یوں سب سے پہلے اپنی نیت میں اخلاص پیداکیاجائے۔
وضو میں اخلاص
وضو ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان کوپانچ وقت کی نمازوں میں عام طور سے
واسطہ پڑتاہے، اب وہ عمل پورے اخلاص اور ا س بات کوذہن میں حاضر رکھ
کرکیاجائے کہ یہ عمل میرے لیے اجروثواب کاباعث ہے اور میں اسے صرف اللہ
تعالیٰ کی رضاکے لیے کررہاہوں۔
اذان کاجواب دینے میں اخلاص
اسی طرح پانچ وقتہ اذانوں کاجواب دینا بھی عظیم اجروثواب کا باعث ہے اور اس
کے بعد نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے لیے مقام محمود کی دعا ہے، اس
پرحدیث میں بہت بڑی سعادت کے حصول کی خوش خبری دی گئی کہ ایسے شخص کو قیامت
کی ہول ناکیوں میں رحمة للعالمین صلى الله عليه وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی تو
ایسے بلندپایہ عمل سے ہر مسلمان کو دن میں پانچ مرتبہ سابقہ پڑتا ہے، اس
میں اگر اخلاص والی روح پیدا کرلی جائے اور اس بات کوذہن میں تازہ رکھاجائے
تو خود اندازہ ہوجائے گا کہ کتنی بڑی رحمت کادروازہ اُس کے لیے کھل گیاہے۔
اسی طرح نماز میں اخلاص، روزوں میں اخلاص،زکوٰة وصدقات میں اخلاص، توبہ میں
اخلاص، اللہ تعالیٰ کی خشیت سے رونے اور گریہ وزاری کرنے میں اخلاص، باپردہ
عورت کے لیے پردہ کرنے میں اخلاص، یعنی اللہ تعالی کوراضی کرنے اور اتباع
شریعت کی نیت کرناضروری ہے، ورنہ تو وہ محض ایک معاشرتی رسم بن کررہ جائے
گا۔اس حوالے سے بعض احادیث کاملاحظہ کرلینا ضروری ہے۔ مثلاً صدقات کے بارے
میں ارشاد فرمایا:(وہ اشخاص جن کوقیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے
سائے کااعزازعطافرمائیں گے اُن میں ایک وہ) آدمی ہوگا جس نے صدقہ اس خفیہ
اندازسے کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کوبھی پتہ نہ چلے کہ اس کے دائیں ہاتھ نے
کیا خرچ کیاہے۔اسی طرح اسی حدیث میں ایک اُس شخص کاتذکرہ بھی ہے جس نے
تنہائی میں اللہ کاذکر کیا اور اس کے خوف وخشیت سے وہ رونے اور گریہ وزاری
کرنے لگا تو اُسے بھی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کاسایہ نصیب
ہوگا۔(بخاری شریف)
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مسند میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
کی روایت سے یہ حدیث منقول ہے کہ جس شخص نے”لاالہ الااللہ“ اخلاصِ قلب سے
کہا وہ جنت میں داخل ہوگا(المناقب للکردری)۔ الغرض اس موضوع پر بہت سی
احادیث ہیں، خلاصہ ان سب کاایک نظر دیکھنا ہو تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان
کوپیشِ نظر رکھناچاہیے:﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ
فَاعْبُدِ اللَّہَ مُخْلِصاً لَّہُ الدِّیْنَ﴾․(سورة الزمر:2)
(اے نبی!) ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل کی ہے۔ پس آپ اللہ کی
عبادت کیجیے اُس عبادت کواسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔
قرآن وسنت میں اخلاص سے کی گئی عبادات اورنیک اعمال پر بہت سے عمدہ اور
دنیا وآخرت میں مفید ثمرات وفوائد کی خوش خبری دی گئی ہے،اُن سب کی تفصیل
اس مختصر سی تحریر میں دشوار ہے، چند فوائد کی طرف اشارہ کیاجاتاہے۔
٭…اخلاص سے ہونے والے اعمال، خاص جہاد وقتال فی سبیل اللہ پر اللہ تعالیٰ
اِس امت کی مدد ونصرت فرماتے ہیں۔
٭… آخرت میں مخلصین کوبلند وبالادرجات نصیب ہوں گے۔
٭… دنیا میں مخلصین کوگم راہی سے بچالیاجاتاہے۔
٭… مخلص عبادت گذار کے نورِ ہدایت میں بڑھوتری ہوتی رہتی ہے اور اس
کاظاہروباطن نورِ ہدایت سے روشن ہوجاتاہے۔
٭… زمین وآسمان کی مخلوق اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُس بندے سے محبت رکھتے
ہیں۔
٭…دنیاوی مصائب میں اُن کے لیے آسانی کی راہ پیدا کردی جاتی ہے۔
٭… دل کو اطمینان وسکون اور سعادت مندی کوپرکیف احسان نصیب ہوتاہے۔
٭… مخلصین کی پاکیزہ صحبت اس کومیسّر آتی ہے۔
٭… مصائب دنیوی جس قدر بھی شدید ہوجائیں اُس کو ان پر صبر کی توفیق مل جاتی
ہے۔
٭… حسن خاتمہ کی عظیم تر نعمت سے وہ شاد کام ہوتاہے۔
٭… قبر کی تنہائی اور وحشت میں اس کو انسیت اور انعامات ربانی سے سرور
وفرحت پہنچتی ہے۔
٭…اُس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور یوں وہ مستجاب الدعوات بن کر اللہ
تعالیٰ کے مقرب بندوں میں شامل ہوجاتا ہے۔
اخلاص کے موضوع پر یہ ایک مختصر تحریرہے،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں
اخلاص کی حقیقت اور اس کانور نصیب فرمائے ،ہمیں اپنے مخلص بندوں کی جماعت
میں شامل فرمائے اور اپنی رضاوالی موت نصیب فرمائے۔
صلّی اللّٰہ تعالیٰ علی نبینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلَّم |