قیام پاکستان سے اب تک جتنی بھی حکومتیں رہیں چاہے وہ سیاسی ہوں یا فوجی،
انہوں نے عوام کی خواہشات کے برعکس ہمیشہ امریکہ بہادر کے جوتوں میں پناہ
ڈھونڈی، یہاں تک کہ جب امریکہ بلکہ دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد حکمران بش
کو حقیقت میں عراق میں جوتے پڑ رہے تھے اس وقت بھی ہمارے عوام خوش جبکہ
حکمران بش کی کاسہ لیسی میں مشغول تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا
حکمران نہیں آیا جس نے امریکہ کو حقیقی معنوں میں ”انکار“ کیا ہو، اگر کسی
نے عوامی سطح پر ایسا کیا بھی ہے تو ایسا صرف ”اندر کھاتے“ اور ”سیاسی“
بیان کے طور پر۔ اگر کسی حکمران نے کہیں اڑ پھس کی بھی تو اسے نشان عبرت
بنا دیا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے حکمران اللہ سے ڈرنے کی بجائے
امریکہ سے ڈرنا شروع ہوگئے اور پاکستان کی تباہی میں امریکہ سے بھی بڑھ چڑھ
کر حصہ لینا شروع کردیا۔ امریکہ بہادر کے جن احکامات کی پاسداری سیاسی غلام
نہ کرسکے وہ فوجی غلاموں نے کئے اور وہ کام جو فوجی غلام نہ کرسکے وہ سیاسی
یتیموں اور غلاموں نے سرانجام دیے، جس کی تازہ ترین مثال ماضی قریب کی مشرف
حکومت تھی کہ ایسی حکومت کی کوئی زندہ مثال تاریخ کے ذہن میں موجود نہیں ہے۔
شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اگر کسی نے دیکھنے ہوں تو مشرف دور کی تاریخ اس
سے بھری ہوئی ہے۔ یہ امریکہ کی غلامی کا ہی نشہ تھا کہ ایک فوجی کمانڈو نے
ایک بچہ جمورا کی طرح کیسی کیسی قلابازیاں کھائیں، کس کس طرح اس قوم کے
سینے پر مونگ دلی اور چہرے پر کالک ملی۔ دنیا حیران و پریشان تھی جبکہ
امریکی آقاﺅں پر خوشی مرگ کی کیفیت طاری تھی جب پاکستان کے ”کمانڈو“ صدر نے
ساری پالیسیوں کا دھڑن تختہ کرتے ہوئے یو ٹرن لیا۔ ایک فون کال پر سر کے بل
کھڑے ہوکر سلیوٹ مارے گئے۔ وہ فوجی کمانڈو جس کے سینے پر بیسوں تمغے آویزاں
تھے اس نے اس قوم کو ایک آبرو باختہ فاحشہ کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی
جس کے نزدیک صرف روپیہ پیسہ اور ٹھاٹھ باٹھ ہی سب کچھ ہوتے ہیں، وہ تو خدا
کا شکر ہے اس ملک کے ایک لاکھ وکلاء نے سڑکوں پر نکل کر، لاٹھیاں، آنسو گیس،
گرفتاریاں، نظربندیاں اور یہاں تک کہ موت کو بھی گلے لگا لیا لیکن اس
”مچھندر“ کے چنگل سے نکلنے اور قوم کو نکالنے کا عزم مصصم اور پختہ ارادہ
قائم رکھا، جب سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور تاجروں نے دیکھا کہ اگر نہتے
وکلاء سڑکوں پر نکل سکتے ہیں، اپنے کاروبار تباہ کرسکتے ہیں اور موت تک
قبول کرسکتے ہیں تو انہوں نے بھی ہمت اور طاقت پکڑی اور اللہ تعالیٰ نے چیف
جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی صورت میں اس مملکت خداد کے رہنے والوں
پر ایک بار پھر ثابت کردیا کہ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت، محبت اور قربانی
ہرگز ضائع نہیں کرتا۔
چیف جسٹس کی بحالی تو چاروں جانب سے مخالفتوں کے باوجود ہوگئی، اس قوم کو
منزل کے حصول کے لئے ایک راستہ مل گیا، پہلا زینہ عبور کر لیا گیا لیکن
مستقبل میں یقیناً اس سے بھی بڑی تحریکوں کی ضرورت پڑنے والی ہے، وہ اس لئے
کہ جو ڈرون حملے پہلے صرف پاکستان کی شمالی اور قبائلی علاقوں تک محدود تھے،
جن کے مابعد اثرات تو بےشک پورے ملک میں محسوس کئے جاتے ہیں لیکن یہ حملے
باقی پاکستان کی سرزمین پر نہیں ہورہے، اب امریکہ کی نئی پالیسی کے مطابق
بلوچستان میں بھی شروع ہونے والے ہیں۔ اب تک جتنے بھی ڈرون جاسوس طیاروں کے
ذریعے کئے گئے ہیں ان میں 95 فیصد سے زیادہ اموات معصوم اور بے گناہ لوگوں
کی ہوئی ہیں جن کا کوئی تعلق واسطہ جنگ سے نہیں ہوتا۔ البتہ جب ان معصوم
اور بےگناہوں کے لاشے اٹھا لئے جاتے ہیں تو ان کے لواحقین میں سے بلاشبہ
جنگجو بھی پیدا ہوتے ہیں اور خودکش بمبار بھی۔ لیکن وہ رد عمل کے طور پر
سامنے آتے ہیں۔ کوئی بھی مسلمان یہ ماننے کو تیار نہیں کہ کسی بےگناہ کی
جان لی جائے چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ تو پھر کیوں معصوم لوگوں کو
خودکش بمباروں میں تبدیل کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں؟ ہماری موجودہ حکومت
نے تو مشرف سے بھی دو قدم آگے جاکر ’برخورداری “ دکھانا شروع کردی ہے۔ مشرف
حکومت کے وزراﺀ، مشیران اور وکلاء یہ کہتے تھے کہ یہ حملہ امریکہ نے نہیں
بلکہ ہم نے خود کیا ہے، ایسا اس لئے ہوتا تھا کہ قوم کا ”مورال“ مزید ڈاﺅن
نہ ہو کہ امریکہ اب باقاعدہ پاکستان پر حملہ آور ہے۔ جبکہ موجودہ حکومت، جس
کا اپنا ”مورال“ ڈاﺅن کرنے کے لئے پارٹی کے شریک چئیر مین اور صدر پاکستان
آصف زرداری کی ”حرکات و سکنات“ ہی کافی ہیں، کو قوم کے ”مورال“ کی ذرا
برابر فکر نہیں، موجودہ حکومت کے اکثر وزراء، وزیر اعظم اور خود صدر صاحب
بھی یہ کہتے ہیں کہ ”ہم نے امریکہ سے احتجاج کیا ہے“، ”ایسے حملے مزید
برداشت نہیں کئے جائیں گے“اور ”ڈرون حملوں سے عوام کے دل نہیں جیتے جاسکتے“
وغیرہ وغیرہ اور اسی طرح کے بیانات داغ کر حکومت یہ سمجھ لیتی ہے کہ اس نے
ڈرون طیاروں پر ”پیٹریاٹ میزائل“ داغ دیا ہے، اللہ اللہ خیر صلہ۔
اب جبکہ امریکہ کے نئے صدر کی پالیسی سامنے آگئی ہے جس کے مطابق امریکہ
بلوچستان پر بھی ڈرون حملے کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، اس کی وجہ یہ بیان
کی جارہی ہے کہ بلوچستان کے بہت سارے علاقوں میں طالبان نے پناہ لی ہوئی ہے
اور اپنے آپ کو مضبوط کررہے ہیں۔ ہمارے کچھ ”نام نہاد“ مفکرین بھی دانستگی
یا نادانستگی میں امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں اور ایسی فضاء بنائی
جارہی ہے کہ عوام کے دلوں میں طالبان کے لئے نفرت پیدا کی جائے کہ جو کچھ
ہورہا ہے طالبان کی وجہ سے ہورہا ہے، تاکہ جب (خدانخواستہ) ڈرون حملے کئے
جائیں تو زیادہ رد عمل نہ ہو اور نہ ہی شدید مزاحمت ہو۔ بلوچستان میں بھی
وحشت کا کھیل کھیلنے کا پروگرام تیار ہورہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ کیا صرف بلوچستان یا اس کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی تباہی کے بھی
منصوبے بن رہے ہیں؟ کیا ایک بار پھر پاکستان ایک ”پراکسی وار“ کے لئے میدان
جنگ تو نہیں بن رہا؟ کیا امریکہ گوادر کی بندرگاہ کو تو ٹارگٹ نہیں کررہا
تاکہ چین وہاں سے گرم پانیوں تک رسائی حاصل نہ کرسکے، کہیں ایسا تو نہیں کہ
امریکہ چین کی تیز رفتار ترقی کو پاکستان کے کندھے پر رکھ کر روکنا چاہتا
ہو کیونکہ امریکہ اگر اس وقت کسی ملک اور قوم سے خائف ہے تو وہ چین ہی ہے،
بےچارے مسلمان تو یونہی بدنام ہیں، مسلم ملکوں میں تو امریکہ کی غلامی کے
لئے حکمران کلاس ہی کافی ہے۔ موجودہ تمام صورتحال میں ہماری حکومت کیا
کررہی ہے؟ کیا ساری توانائیاں ابھی بھی پنجاب کا تاج سر پر سجانے پر صرف
ہورہی ہیں یا صدر زرداری کی تیمار داری پر؟ کیا پاکستان نے ایٹمی قوت اس
لئے حاصل کی تھی کہ امریکہ کی غلامی میں مزید کامیابیاں سمیٹی جائیں؟ کیا
کروڑوں پاکستانیوں کی زندگیاں، ان کی عزتیں، آبروئیں، گھر، بار ایک امریکہ
کی غلامی کے لئے قربان کردئے جائیں؟ اگر ہم اللہ کو چھوڑ کر ڈریں بھی
امریکہ سے اور مدد بھی اس سے مانگیں تو اللہ کی مدد ہمیں حاصل ہوسکتی ہے؟
آخر حکومت کب سوچے گی؟ اپوزیشن کب سوچے گی؟ ہم کب سوچیں گے؟ صرف حکومت نہیں
اس میں اپوزیشن کو بھی اپنا فرض ادا کرنا چاہئے، اس میں مذہبی سیاسی
جماعتوں، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی ، وکلاء اور عوام کو بھی شامل ہونا
چاہئے، اگر ہم امریکہ سے لڑ نہیں سکتے تو بھی کسی بھی صورت میں ایسے حملوں
کے خلاف پوری قوم کو سیسہ پلائی دیوار بننا پڑے گا، تمام اختلافات بھلا کر،
اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کو ختم کر کے، سیاسی، لسانی، صوبائی، مذہبی،
مسلکی سمیت ہر قسم کی عصبیتوں سے دل و دماغ کو پاک کرکے اپنا اپنا فرض ادا
کئے بغیر چارہ نہ بن سکے گا۔ اگر ہمیں ایک قوم بننا ہے اور اس ملک کو آگے
کی طرف لےجانا ہے تو سوچ لینا چاہئے کہ ہجوم سے قوم بننے کےلئے سرمایہ اور
وسائل نہیں جذبات درکار ہوتے ہیں، جب تک ہم اپنا اپنا دکھ بھول کر مشترکہ
دکھوں کا مداوا نہیں ڈھونڈیں گے، جب تک امریکہ کو چھوڑ کر اللہ کی غلامی
قبول نہیں کریں گے ہم پر یونہی وحشت طاری رہے گی، ہم یونہی دہشت زدہ رہیں
گے |