اور خواب پورے ہوگئے - کیا واقعی۔

جناب نذیر ناجی صاحب کا ایک اور کالم پڑھا اور سوچا کہ آپ لوگوں سے شئیر کرتا چلوں۔

فرماتے ہیں۔

میڈیا اور اپوزیشن کی نظر سے دیکھا جائے تو منتخب حکومت کی پہلی سالگرہ پر پاکستان کے لئے صرف ایک خوشخبری ہے اور وہ ہے چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی۔ جس پر ہر طرف فتح کے شادیانے بجائے جارہے ہیں۔ کامیابی ایک ہے۔ سہرے باندھ کر سلامیاں وصول کرنے والے دولہا کئی ہیں۔ میڈیا ہے۔ (ن) لیگ ہے۔ عمران خان ہیں۔ وکلا ہیں۔ جماعت اسلامی ہے۔ پیپلز پارٹی ہے۔ مظاہروں میں شریک مولانا فضل الرحمٰن بھی ہوتے رہے۔ مگر وہ سہرا باندھنے سے کترا رہے ہیں۔ مولانا بہت گہرے اور تہہ دار سیاست دان ہیں۔ سہرا باندھنے سے ان کے گریز میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہے اور جب میں نے یہ پڑھا کہ اصل دولہا چودھری اعتزاز احسن کامیابی کی تقریبان کے دوران ہی وکلا کی سیاست سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ تو مولانا فضل الرحمٰن کے گریز پر زیادہ توجہ مرکوز ہوگئی۔ کچھ نہ کچھ ہے ضرور۔ اللہ کرے وہ خیر کی صورت میں ہو۔

میں کھلا اعتراف کرتا ہوں کہ ایک فرد کی بحالی کے لئے چلنے والی تحریک کو میں نے کبھی عدلیہ کی بحالی کی تحریک نہیں سمجھا۔ میں نے ہمیشہ لکھا کہ انصاف ہمیشہ حکومتیں فراہم کرتی ہیں۔ اگر حکومتیں اچھی نہیں تو عدلیہ از خود انصاف فراہم کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔
اور مزید فرماتے ہیں کہ

جہاں تک موجودہ چیف جسٹس کی بحالی کا تعلق ہے۔ اس کا سہرا جتنے دولہا چاہیں اپنے سر باندھیں۔ حقیقت صرف ایک ہے کہ نواز شریف نے لانگ مارچ شروع کر کے حکومت کو چیف جسٹس کی بحالی پر مجبور کیا۔ ورنہ دو سال سے چلنے والی مختلف سماجی طاقتوں کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی۔ اصل سہرے کے حقدار صرف نواز شریف ہیں۔ وہ یہ زمہ داری سیاسی ضروریات کے تحت اپنے سر لے چکے تھے۔ اب سرخرو ہو چکے ہیں۔ لیکن وکلا کے باقی مطالبات کی زمہ داری اٹھانے سے اب وہ کترائیں گے۔ ان کے سامنے اپنی سیاسی ضروریات ہیں۔ عدلیہ کی بھالی کے نتیجے میں انہیں کوئی فائدہ ہوا تو ٹھیک ہے۔ مگر فائدہ ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر۔ اب وہ باقی مطالبات کے چکر میں نہیں پڑیں گے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جیسے ہی حکومت کی طرف سے چیف جسٹس کی بحالی کا پیغام ملا۔ انہوں نے مزید کوئی تفصیل پوچھے بغیر لانگ مارچ کال آٍ کردیا۔ نو آموز سیاسی کھلاڑی کمانڈو کی طرح زیر زمین ہو کر سہرا اور ہار پہننے اسلام آباد میں لانگ مارچ کے منتظر رہے لیکن۔

اے بسا آرزو کہ خاک شدی

تحریک کے دوران چیف جسٹس کی بحالی کی اہمیت اجاگر کرنے لے لئے عوام کو جو خواب دکھائے گئے، ان کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں۔ دہشت گردی کی ہر واردات پر بیان آتا تھا کہ “اگر عدلیہ موجود ہوتی تو بم دھماکے نہ ہوتے، لوڈ شیڈنگ پر کہا جاتا۔ چیف جسٹس بحال ہوتے تو لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی۔ بیروزگاری کی وجہ صرف اصل عدلیہ کی عدم موجودگی ہے۔ چیف جسٹس کی بحالی کے بغیر کرپشن ختم نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں حقیقی عدلیہ موجود ہوتی تو بھارت ہمارے حصے کا پانی بند نہیں کر سکتا تھا“ میرے پاس ریکارڈ نہیں۔ ورنہ زرا سی محنت سے ایسے ایسے بیانات بھی نکالے جا سکتے ہیں۔ جن میں بیرونی قرضوں سے لے کر خارجہ پالیسی کے امور تک ہر مسئلے کا ایک حل بتایا جاتا تھا اور وہ یہ کہ چیف جسٹس بحال ہو گئے ۔ تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ خوش قسمتی سے بحال ہو چکے ہیں۔ امید ہے اب مسائل حل ہونے کا سلسلہ شروع ہو جائے گار۔ مگر کیسے؟ اپنے منصب پر واپسی کے پہلے ہی دن چیف جسٹس کے سامنے جو درخواستیں آنا شروع ہوئی ہیں۔ ان کا تعلق عدلی میں اکھار پچھاڑ سے ہے۔

مزید آگے لکھتے ہیں

عدلیہ کی عالمی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی چیف جسٹس کے گھر پر سیاسی کارکنوں نے اپنی جماعتوں کے پرچم لہراتے ہوئے عدلیہ کا پرچم بلند کیا۔ جن جماعتوں کے پرچم اور کارکن اس تقریب میں نہیں تھے، وہ انصاف کی کتنی امید رکھ سکتے ہیں؟ ہر مقدمے میں دہ یا ان سے زیادہ فریق ہوتے ہیں۔ اگر کوئی فریق نہیں ہوتا تو صرف عدلیہ نہیں ہوتی۔

کیا اب بھی وہی صورتحال ہوگی ؟ سوال پر سوال چلا آرہا ہے۔ کہاں تک درج کروں؟ حقیقی عدلیہ نے کام شروع کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کی بحالی کی تحریک چلانے والوں نے جو وعدے کیے تھے، وہ پورے ہو جائیں۔ پہلے ہم سیاسی جماعتوں کو افراد کے نام سے جانتے تھے۔ مسلم لیگ کا تو نام ہی نواز لیگ ہے۔ (ق) لیگ چودھری شجاعت حسین۔ پیپلز پارٹی آصف زرداری۔ ایک جے یو آئی کا نام فضل الرحمٰن ہے۔ دوسری کا نام مولانا سمیع الحق ہے۔ جماعت اسلامی کا نام قاضی حسین احمد ہے۔ تحریک انصاف کا نام عمران خان ہے۔ فوج کا نام اس کے سربراہ کا نام ہوتا ہے۔ کل اس کا نام پرویز مشرف تھا۔ آج اس کا نام اشفاق پرویز کیانی ہے۔ ایک عدلیہ کا ادارہ باقی تھا۔ اب اس کا نام بھی ایک فرد کے نام پر ہو گیا ہے۔ دنیا کہتے ہے ہم ادارے قائم کریں اور ہم ہیں کہ رہے سہے اداروں کو بھی افراد کی ذات میں سمیٹ رہے ہیں۔

تو جناب یہ کالم بھی خوب ہی لکھا ہے جناب نذیر ناجی صاحب نے اور دیکھتے ہیں کتنے صاحب علم اپنی اپنی تشریح پیش کرتے ہیں اپنے سابقہ عدلیہ بحالی موقف پر۔

آج ایک ٹی وی تازہ ترین کے مطابق آٹے کی فی کلو گرام قیمت میں پانچ سے چھ روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے یعنی دس سیر آٹے کی بوری پر پچاس سے ساٹھ روپے کا اضافہ۔ جئے جمہوریت اور جئے آزاد عدلیہ - آٹا زیادہ سستا نہیں کرواسکتے تو کم از کم آمریت کے ریٹ یعنی پچیس روپے فی سیر ہی دلوا دو اور جو چینی آمریت کے دور میں تیس روپے میں فی سیر میسر تھی وہ زرا اپنے دکانداروں سے پوچھو کہ کتنے روپے فی سیر ہے۔ میری کوشش تھی کہ اپنے طور پر زیادہ کوئی بات نہیں کروں گا مگر دل دکھتا ہے تو آواز تو نکل ہی آتی ہے۔

اور آج کے اخبار کے مطابق امریکی حملے میں آٹھ افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے دیکھتے ہیں آزاد عدلیہ کب اپنے ملک کے بے گناہ عوام کے خون سے ہولی کھلینے والوں کو اپنی عدالت میں طلب کرتی اور ان کو ان کے گھناؤنے حملوں پر سزا سناتی ہے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 495348 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.