تحریر : محمد اسلم لودھی
یہ خبر یقینا ہر محب وطن پاکستانی کے لیے فکر انگیز ہے کہ پاکستان کے عظیم
فضائی سرفروش اور ائیر کموڈور (ر) ایم ایم عالم شدید بیمار ہیں اور کراچی
کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں ۔پاکستان اور مسلمانوں کے جانی دشمن بال
ٹھاکرے کو گلدستہ بھجوانے والے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو پاکستان کی
حفاظت کے لیے گراں قدر خدمات انجام دینے والا فضا ئی سرفروش ایم ایم عالم
یاد ہی نہیں ۔ یہ وہ عظیم پاکستانی اور بہاری مسلمان ہے جس کو مشرقی
پاکستان کی علیحدگی کے بنگلہ دیشی فوج کا کمانڈر انچیف بننے کی پیشکش ہوئی
لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے پیشکش ٹھکرا دی کہ وہ اول و آخر پاکستانی ہیں
بنگلہ دیشی فوج کا کمانڈر انچیف بننے کی بجائے پاکستان کا ادنی سپاہی
کہلانے پر میں فخر محسوس کرتا ہوں۔ ائیر کموڈور ایم ایم عالم دنیا کے وہ
عظیم فائٹر پائلٹ ہیں جنہوں نے65 کی جنگ کے ایک فضائی معرکے میں بھارت کے
پانچ جنگی طیارے مار گرائے یہ ریکارڈ اب تک ناقابل تسخیر ہے جبکہ اسی جنگ
میں انہوں نے کل 9 طیارے تباہ کیے جبکہ دو کو نقصان پہنچایا ۔ یہ عظیم
فضائی سرفروش ہندوستان کے شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے ان کا تعلق صوبہ بہار کے
ایک خاص مقام " بہار شریف " سے تھا یہ علاقہ بطور خاص بزرگان دین اور
اولیاءاللہ کی سرزمین کی آمجگاہ تصور کیا جاتا ہے آپ ترک نسل سے تعلق رکھتے
ہیں جبکہ آپ کے آباﺅ و اجداد شمالی افغانستان سے صدیوں پہلے نقل مکانی کرکے
بہار شریف میں آباد ہوگئے تھے ۔ تقسیم برصغیر کے وقت آپ کا خاندان پہلے
کلکتہ پھر مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ نقل مکانی کرگیاابھی آپ فرسٹ ائیر
میں ہی تھے کہ پائلٹ بننے کا شوق آپ کو پاک فضائیہ میں لے گیا اکتوبر
1953ءکو آپ نے پاک فضائیہ میں کمیشن حاصل کیا ۔ آپ کا اصل نام محمد مصطفی
محمود عالم ہے لیکن آپ نے شہرت ایم ایم عالم کے نام سے پائی ۔1971ءکی پاک
بھارت جنگ میں کوشش اور خواہش کے باوجود آپ کو فلائی نہیں کرنے دیاگیا بعد
ازاں 1982ءکو آپ کو جبرا ریٹائر ڈ کردیا گیا اس وقت آپ ائیر کموڈور کے عہدے
پر فائز تھے۔ اس حوالے سے جب آپ پوچھا گیا تو آپ نے نہایت خوبصورت بات کہی
اور فرمایا کہ جب مجھے جبری طور پر ریٹائرمنٹ کا لیٹر دیا گیا تو اس وقت
واقعی مجھے شدید دھچکا تو لگا تھا لیکن پھر حضرت خالد بن ولید ؓ کا وہ
واقعہ یاد آگیا جب وہ میدان جنگ میں دشمن سے برسر پیکار تھے تو خلیفہ دوم
حضرت عمر ؓ نے آپ ؓ کو مسلمان افواج کی سپہ سالار ی سے سبکدوش کرکے ایک عام
سپاہی بنا دیا حضرت خالد بن ولید ؓ نے حضرت عمر ؓ کا حکم مانتے ہوئے فورا
سپہ سالار کا عہدہ چھوڑ دیااور ایک عام سپاہی کی حیثیت سے باقی جنگ لڑی ۔ایم
ایم عالم فرماتے ہیں کہ جب بھی اپنی تمام تر اور شاندار خدمات کے باوجود
جبری ریٹائرمنٹ کا خیال آتا ہے تو میں حضرت خالد بن ولید ؓ کا واقعہ یاد
کرکے اطمینان حاصل کرلیتا ہوں ۔
آپ ایک سچے اور کھرے مسلمان ہی نہیں بلکہ جہاد آپ کی زندگی کا واحد مقصد بن
ہے آپ نے شادی کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ کشمیر کی آزادی کے بعد
آپ اپنا گھر بسائیں گے اپنی اس بات میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے آپ نے
عملی طور پر جہاد کشمیر میں عملی طور پر حصہ لیا اور بارہا مرتبہ مقبوضہ
کشمیر میں بھارتی فوج سے جنگی معرکے بھی لڑئے لیکن شہادت پھر بھی آپ کو نہ
مل سکی۔ شہادت کی یہی تمنا 1982 میں آپ کو سر زمین افغانستان لے گئی جہاں
اس وقت دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت یونین کی ٹڈی دل افواج بربریت اور
وحشت کے ریکارڈ قائم کررہی تھی بستیاں ، قصبے اور شہر روسی فوج کی بمباری
سے کھنڈرات میں تبدیل ہورہے تھے دس لاکھ افغان مسلمانوں کو شہید کرنے والا
روس افغانستان پر قبضے کے بعد پاکستان کو کچلتا ہوا بحرہ عرب تک رسائی حاصل
کرنا چاہتا تھا لیکن نہ صرف جنرل محمد ضیا ءالحق کی قیادت میں افواج
پاکستان اور آئی ایس آئی نے سوویت یونین کے ان مکروہ عزائم کو اپنے خداداد
صلاحیتوں اور قوت ایمانی سے خاک میں ملا دیا بلکہ ایم ایم عالم بنفس نفیس
روسی فوجوں کے خلاف جہاد کے لیے سرافغانستان گئے اور انتہائی دشوار گزار
علاقوں اور نامساعد موسمی صعوبتوں کے باوجود ہمت و حوصلے کے وہ ریکارڈ قائم
کیے کہ سوویت یونین کا افغانستان فتح کرنے کا خواب تنکوںکی طرح بکھر گیا
اور وہ خود افغان مجاہدین سے التجا کرنے لگا کہ واپس جاتی ہوئی روسی افواج
پر حملے نہ کیے جائیں ۔ افغانستان میں جہاد کے دوران ایم ایم عالم حکمت یار
گلبدین ، احمد شاہ مسعود کے شانہ بشانہ مصروف جنگ رہے اس دوران آپ زخمی بھی
ہوئے لیکن شہادت پھر بھی آپ کو میسر نہ آسکی ۔ آپ کو دفاع وطن کے حوالے سے
عظیم خدمات انجام دینے پر دو مرتبہ ستارہ جرات سے نوازا گیا جو نشان حیدر
کے بعد سب سے بڑا اعزازہے ۔
آج جب پاکستان کا یہ عظیم فضائی سرفروش بڑھاپے اور بیماریوں سے دست بدست
جنگ لڑتا ہوا ہسپتال کے بستر تک محدود ہوچکا ہے تو پاکستانی حکمرانوں اور
قوم کی بے حسی یقینا ان کے لیے اذیت کا باعث بنتی ہوگی ۔ افسوس تو اس بات
کاہے کہ وہ مفاد پرست حکمران جو کروڑوں اربوں روپے ذاتی عیاشیوں پر بے دریغ
خرچ کررہے ہیں ناچنے گانے والوں پر نوازشات کی بارش کرتے ہوئے انہیں تکلیف
نہیں ہوتی انہیں وطن عزیز پاکستان کے دفاع کے لیے اپنی جوانی قربان کرنے
والے عظیم فضائی سرفروش کے پاس جانے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کی
فرصت ہی نہیں ہے ۔ رجیش کھنہ کی موت پر آنسو بہانے والی پاکستانی قوم کیا
اتنی ہی بے حس ہوگئی ہے کہ اپنے عظیم محافظ اورقومی ہیرو کو بھول گئی ہے ۔
ہر انسان جو دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن اپنے رب کے پاس واپس بھی
جانا ہے لیکن اگر پاکستان کے غافل حکمران ، مفاد پرست سیاست دان اور بے حس
پاکستانی قوم ایم ایم عالم کی عیادت کے لیے ہسپتال جائے تو یہ کسی پر احسان
نہیں ہوگا بلکہ اس عظیم فضا ئی سرفروش کے لیے عزت اور حوصلے کی بات ہوگی
۔وہ شخص جو بنگلہ دیشی فوج کا کمانڈر بننے کی بجائے پاکستان کا ایک ادنی
سپاہی بننے پر فخر کرتا ہے کیا بحیثیت پاکستانی ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم
میں سے ہر شخص اسے اپنے خاندان اور گھر کا فرد تصور کرتے ہوئے اس سے اظہار
محبت کریں اور ہسپتال میں جہاں وہ عظیم شخص زیر علاج ہے پھولوں کے گلدستوں
کے انبار لگاکر اپنی محبت کا اظہارکریں مجھے یقین ہے کہ ہمارا یہ عمل یقینا
ایم ایم عالم کے لیے تسکین کاباعث ہوگا اور اسے اپنے فیصلے پر کبھی ندامت
نہ ہوگی ۔ |