تحریک انصاف کے بعد دفاع پاکستان
کونسل اور اب طاہر القادری کی تحریک منہاج القرآن ،عوامی تحریک کی سیاست
میں آمد ان کوششوں کی تیزی کو ظاہر کرتی ہے کہ آئندہ الیکشن کے نتائج تقسیم
در تقسیم ہوں اور جس کی بدولت نصف درجن سے زائد جماعتوں کے اتحاد پر مبنی
مجبور و بے بس حکومت قائم کی جا سکے۔اور اس عمل کا نشانہ واضح طور پر میاں
محمد نواز شریف کی قیادت میں قائم مسلم لیگ (ن) ہے۔غیر جانبدار مبصرین کا
مطابق بھی محمد نواز شریف ہی اس وقت اقتدار کو واپس سولین حکومت کے دائرہ
اختیار میں لاتے ہوئے پارلیمنٹ کی حقیقی بالا دستی کا عزم رکھتے ہیںتاہم ان
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاملے میں میاں محمد نواز شریف ایک حد تک
ہی جا سکتے ہیں۔ملک میں مختلف فرقوں کے ” دینی مدارس“ اور پشت پناہی کے
عوامل کی بدولت فر قہ وارانہ جماعتیں اپنی عددی طاقت کے بل بوتے اپنا وجود
منوانے کی جدوجہد میں ہیں۔طاہر القادری کے لئے تحریک انصاف اور ایم کیو ایم
کی حمایت نہایت معنی خیز ہے۔ان تمام کوششوں کا مقصد دوران الیکشن بلخصوص
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچانا،کمزور کرنا نظر آتا ہے ۔
جنرل ایوب ،جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف نے ملک کی سیاست کو تابعداری
اور آلہ کار کے جس انداز میں ڈھالنا چاہا ،وہی ملکی سیاست کے نا سور بن
گئے۔آج ملک میں ملٹری ڈیموکریسی کے آلہ کار اور ملٹری ڈیموکریسی کے ڈسے
افراد کے درمیان کھینچا تانی کی صورتحال نمایاں ہے۔ جنرل ایوب نے مارشل
لاءکے بعد زور زبر دستی اپنی سیاسی جماعت اور حکومت بنائی اور اس کی انتہا
جنرل پرویز مشرف نے کی کہ حکومت ہی نہیں اپوزیشن بھی اپنی ہی بنا ڈالی۔اب
فرقہ داریت پر مبنی جماعتوں کے علاوہ تحریک انصاف ، ایم کیو ایم اور مسلم
لیگ (ق) کی صورت شطرنج کی نئی بساط سجائی جا رہی ہے۔
ایک طرف طالبان ملک کی سلامتی کے خلاف بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں اور دوسری طرف
حکومتی،سرکاری اور اور سیاسی بد اعمالیوں نے رشوت،اقرباءپروری ،بد
انتظامی،نااہلی اور مفاد پرستی کی بدولت عوام کی زندگی کو جہنم بنا رکھا
ہے۔ملک کی سلامتی کے تحفظ پر مامور افراد اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی
بنانے کی فکر میں ہیں۔پاکستان کو قبیلوں اور علاقوں میں تقسیم کرنے والے
قبیلائی و علاقائی مفادات کی دوڑ میں ملک کی سلامتی کو داﺅ پر لگائے بیٹھے
ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا پاکستان تو اسی دن ختم ہو گیا تھا جب جنرل
ایوب نے پاکستان میں مارشل لاءلگایا اور اس کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد
میں قائد اعظم کے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے والی نظریاتی اور اصولی شخصیت
محترمہ فاطمہ جناحؒ کے خلاف دھونس،دھاندلی اور ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے
پاکستان کے لئے اس راستے کا انتخاب کیا جس کے ایک ’فیز ‘میں مشرقی پاکستان
بنگلہ دیش بن گیا اور دوسرے ’ فیز‘ میں یہ صورتحال درپیش ہے کہ جہاں بد سے
بد ترین نتائج بھی بعد از توقع نہیں ہیں۔ملک کی سلامتی داﺅ پہ ہے اور ارباب
اختیار اپنے اپنے مفادات کے بچاﺅ کو ملک بچاﺅ قرار دے رہے ہیں۔ملک کے
سدھرنے کا وقت وہ ہو گا جب ملک میں تمام پالیسیاں سول حکومت کی بنائی ہوں
گی،اس راہ میں حائل ہونے والوں کو ملک و عوام کا خیر خواہ قرار دینا اب بہت
مشکل ہو گیا ہے۔ملک کی بقاءسولین نظام حکومت کے چلتے رہنے میں ہی ہے اور
اسی کا تسلسل ملک میں بہتری کی کوئی مبہم امید پیدا کرتا ہے۔پاکستان میں
بہتری کا وقت وہ ہو گا جب عام شہری کے امور مقدم قرار پائیں گے،عام شہری کو
ڈلیل و خوار اور عاجز و مظلوم رکھتے ہوئے مضبوط ،مستحکم پاکستان کا خواب
بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ |