فحاشی ، قابل شرم

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھہ نے فرمایا ”جب لوگ زنااور شراب نوشی بے باکی سے کرتے ہیں اور گانے بجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو آسمان پر غیرت آتی ہے اور زمین کو حکم فرماتے ہیں کہ ان کو ہلاڈال یعنی زلزلہ آتاہے (ابن ماجہ)”اگر اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زنا،شراب نوشی اور گانا بجانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کس قدر نا پسندیدہ ا عمال ہیں اور اگر اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں یہ تینوں خرابیاں کثرت سے پائی جاتیں ہیں ۔ نتیجہ تن زلزلے اور طوفان بھی آتے رہتے ہیں۔

لیکن مجھے قوی یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ پھر بھی اپنے بندوں پر رحم فرماتا ہے اور جتنے گناہ ہم سے سرزد ہوتے رہتے ہیں اُس قدر عذاب نازل نہیں ہوتے۔ جس کا اندازہ آپ بھی آسانی سے لگا سکتے ہیں کیونکہ آج بے حیائی و بے غیرتی کا دائرہ صرف شہروں تک محدود نہیں رہا بلکہ دور دراز کے دیہاتوں اور قصبوں تک پھیل چکا ہے ۔گائوںکے لوگ جو پہلے پہل کیبل اور ناچ گانے کے خلاف تھے آج ان کے گھروں میں صرف کیبل ہی نہیں بلکہ موبائل ،mp4,mp3 پلئیرزکے ذریعے فحش گانے اور فلمیں تقریباگھر کے ہر فرد کی جیب میں موجود ہیں۔آج سے 4 سال پہلے کی بات ہے کہ میرے ایک عزیز نے مجھے فون کرکے فورا اپنے گائوں اس لیے بلایا کہ وہاں کچھ لوگ کیبل نیٹ ورک چلانا چاہتے تھے۔

جبکہ گاؤں والوں کی اکثریت کیبل کے خلاف تھی۔وہ چاہتے تھے کہ ان کے گاؤں میں کیبل نیٹ ورک نہ چلے جس کے لیے انہیں میری مدد درکار تھی ۔میں ان کے گاؤں پہنچا تو وہاں تمام گائوں والے ایک بڑی حویلی میں جمع تھے اور ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات جاری تھے جو گاؤں میں کیبل نیٹ ورک چلانے کے لیے حکومت سے باقائدہ لائسنس لے چکے تھے ۔کوئی 10گھنٹے تک مذاکرات جاری رہنے کے بعد بھی جھگڑا ختم ہوا اور بات تھانے کچری تک پہنچ گی ۔قصہ مختصر کہ آخرکار گائوں والوں نے اس شرط پر کیبل نیٹ ورک چلانے کی اجازت دے دی کہ اس پر انڈین ،انگلش فلمیں ،سٹار پلس سمیت تمام انڈین چینل اور سٹیج ڈانس جسے آج کل مجرے کے نام سے جانا جاتا ہے نہیں چلیں گے اور زیادہ سے زیادہ اسلامی چینل چلائے جائیں گے مزید شرط یہ عائد کی گئی کہ جب تک کسی گھر کا بڑا اجازت نہ دے دے تب تک کسی چھوٹے کے کہنے پر کیبل کنکشن نہیں دیا جائے گا۔کیبل نیٹ ورک والوں نے یہ ساری شراط قبول کر لیں اور چند دنوں میں کیبل نیٹ ورک چلا کر کنکشن دینا شروع کردیے ۔کوئی 4 سال بعدمیں اس عزیز کے گھر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے چار بیٹوں کے چاروں کمروں میں علیحدہ ، علیحدہ ٹیلی ویژن ہیں اور اس کے کمرے میں علیحدہ سے چل رہا ہے ۔

جبکہ ان میں سے کسی ایک پربھی اسلامی چینل نہیں چل رہا تھا ۔کسی نے سٹار پلس چلا رکھا تھا ،کسی نے انڈین فلم اور زیادہ میں سٹیج ڈانس یعنی مجرے چل رہے تھے۔ جب میں نے حیران ہو کر اسے یہ پوچھا کہ بھائی آپ تو ان ساری چیزوں کے خلاف تھے تو کہنے لگے یار اب تو ہر طرف چل رہا ہے یہ سب کچھ ۔ قارئین محترم یہ حالت تو ایک گائوں کی ہے لیکن شہروں کی حالت اس سے بدتر ہے۔ ہماری نوجوان نسل میوزک کی اس قدر دلدادہ ہو چکی ہے کہ دن ہویارات ،سوتے جا گتے ، دروانِ سفر ،گھر میں ،سکول و کالج میں کام ہو یا فرصت ہروقت میوزک چلتا رہنا چاہئے یہاں تک کہ نوجوان نسل کو باتھ روم کے اندر بھی میوزک کی ضرورت پڑتی ہے ، سنا ہے کہ پرانے وقتوں میں ڈانس یعنی مجرہ کرنے والی عورتوں کو طوائف کہا جاتا تھا اور وہ اپنے گھروں یعنی خاص مقامات پر ہی مجرہ کیا کرتی تھیں اور جو لوگ ان کا مجرہ دیکھنے سننے کی خواہش رکھتے وہ اپنے گھر والوں سے چوری اور جھوٹ بول کر ایسے مقامات پر جایا کرتے اور آتے جاتے راستے میں کسی کپڑے سے اپنا منہ چھپائے رکھتے کہ کوئی انہیں پہچان نہ پائے۔

مطلب کہ بے حیائی کا کام کرتے وقت لوگ شرم محسوس کیا کرتے تھے ۔لیکن بدقسمتی سے آج مجرہ کرنے والی عورتوں کو اداکار کہا جاتا ہے اوروہ کسی بھی مقام پر مجرہ کرنے چلی جاتیں ہیں۔ معاشرے میں شرم وحیا کا حال یہ ہے کہ لوگ اپنے گھروں میںشادی بیاہ ،سالگرہ اور دیگر تقریبات کے موقعوں پر خصوصی طور پر ناچ گانے یعنی ناچنے والے مرد وعورتوں کو بلوا کر مجرے کا اہتمام کرتے ہیں۔اور مائوں بہنوں کی موجودگی میں مجرہ کرواتے ہیں۔اس طرح ہماری نئی نسل کو اس بات کاعلم ہی نہیں رہاکہ بے حیائی کرنے والے تمام اعمال قابل فخرنہیں بلکہ قابل شرم ہیں ۔

کتنے بے قوف ہیں ہم جو اپنے بچوں کو دینی تعلیم و تربیت اور تہذیب و تمدن سکھا کر شرم و حیا کا پیکر بنانے کی بجائے بے شرمی وبے حیائی اور شراب نوشی پر فخر کرنے کا عادی بنا رہے ہیں۔ یہی ماحول ہے جونہ صرف ہماری دنیاوی زندگیوں میں تباہی و بربادی کا سبب بن رہا ہے بلکہ ہمارے لیے روز آخرت بھی قابل شرم وسزا ثابت ہو گا۔ قارئین محترم آپ کو نہیں لگتا کہ ہم اپنے بچوں کو بے حیائی والا ماحول اور سا زوسامان فراہم کرکے اُن کو زلزلوں اور طوفانوں کی وراثت دے رہے۔
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 514442 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.