محمد زاہد عزیز
کراچی سے خیبر تک جس طرف بھی نگاہ اٹھا کو دیکھو انسانیت کا خون بہتا نظر
آتا ہے۔لاشے گر رہے ہیں عزتیں لٹ رہی ہیں، بچے یتیم ہو رہے ہیں، مائیں بے
سہارا ہو رہی ہیں قتل و غارت اپنے عروج پر ہے انسان کے لئے سانس لینا مشکل
ہو تاجارہا ہے ۔قانون پامال کیا جا رہا ہے ۔امیر طبقہ امیر تر اور غریب
غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔
کسی کی جان تک محفوظ نہیں سیاست دان قتل کیے جا رہے ہیں علما کا ناحق خون
بہایا جا رہا ہے۔بے گناہ بچے ، بوڑھے اورجوان ٹارگٹ کلنگ کی ضد میں ہیں ۔مرد
و زن کا گلا کاٹا جا رہا ہے۔۔ملک کے اندر سے امن وسکون ناپید ہوتا جا رہا
ہے ۔گھروں میںسکون و چین اور خیروبرکت نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔
ایک عام انسان کے لیے یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر ایسا کیوںہو رہا ہے
اس کا حل کیا ہو گا ؟نہیں ایسی بات ہر گز نہیں ہے کائنات میں رب ا لعزت نے
کوئی ایسی چیز پیدا نہیں کی جس کا حل موجود نہ ہو انسان کو پیدا کیا تو اس
کی رہنمائی کے لیے انبیاءکرام کا انتخاب کیا ۔
جب عالم انسانیت جہالت کے اندھیرے میں ڈوب رہی تھی اس وقت اللہ تعالی نے
عبدا للہ کے گھر میں سرکاردو جہاںتاجدارمدینہ خاتم الانبیا حضرت محمد ﷺکو
پیدا فرما کر دنیا کو نورکی روشنی سے منور کیا اور قرآن کا وہ عظیم تحفہ
عطا فرمایا جس میں تمام مصائب کا حل موجود ہے ۔
جس میں امت محمدیہ کو بہترین امت کہا گیا۔ مومنوں کو آپس میں بھائی بھائی
قرار دیا اور اللہ کی رسی کو مضبو طی سے پکڑے رکھنے اور تفرقہ بازی سے بچنے
کا واضح درس دیا۔افسوس صد افسوس آج ہم نے اللہ کے فرامین اور نبی کریم ﷺ کے
ارشادات کو پس پشت ڈال دیا جس وجہ سے رسوائی ہمارا مقدر بن گئی ۔
آخر وہ کیا جادوئی طاقت تھی جس نے ہواپانی ،چرندپرنداور زمین کو صحابہ کرامؓ
کے تابع کر دیا تھا ۔دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنے گھوڑے سمندروں میں
دوڑا لیتے تھے۔دریاﺅں کے نام خط لکھتے تھے تو ان میں فراوانی آ جاتی تھی ۔بھیڑاور
بھیڑیا ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے وہ بھی کلمہ گو مسلمان تھے اور آج کا
مسلمان بھی کلمہ گو ہے فرق صرف اتنا ہے ۔
اے لا الہ کے وارث باقی نہیںہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ، کردار قاہرانہ
اس وقت کے حکمران اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے فرمان روا تھے اور آج کا
مسلمانِ حکمران اللہ اور رسول کے حکموں کا نا فرمان ہے ۔ان کے سپاہیوںں کی
تلواریں دشمن کی طرف اٹھا کرتی تھیں اور آج کے سپاہی کی بندوق اپنے ہی
مسلمان بھائی کی طرف اٹھ رہی ہے۔وہ حاکم وقت ہونے کے ساتھ ساتھ حکم خداوندی
پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے بائیس لاکھ اور چونسٹھ لاکھ مربع میل تک اپنی
حکمرانی کا سکہ جمائے ہوئے تھے اور دشمن ان کا نام سن کر کانپ جاتا تھا اور
آج کا مسلمان حاکم وقت حکومت کے ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا
ہے ۔
اگر ہم دنیامیں اپنے آپ کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اللہ اور رسول کی
غلامی میں آنا پڑے گا اور یہی ہمارا مقصد اصلی بھی ہے۔اللہ رب العزت تمام
مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور آپس میں محبت اور ہمدردی سے رہنے کی توفیق
عطا فرمائے۔آمین
اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو
وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے |