مردم شماری ، ایک اُصول ایک جائزہ

اس سے پہلے بھی مردم شماری کے متعلق مختصر لکھ چکا ہوں مگر لکھنے کے بعد سوچا کہ بہت مختصر تفصیل لکھا گیا ہے اس لئے اسی دن سے اس کی مکمل تحقیق کے لئے سرگرداں ہو گیا اور اس قابل ہوگیا ہوں کہ تفصیلاً لکھ سکوں، اخباری دوستوں اور احباب سے امید کے ساتھ کہ اسے شائع کر دیں گے ، یہ تمہید اس لئے کہ مضمون شاید طویل ہو جائے اور شاید جگہ کی تنگی آڑے نہ جائے خیر میں تو لکھ رہا ہوں اب میرے احباب پر منحصر ہے کہ وہ اس کا کس طرح استعمال کرتے ہیں۔

یوں تو مردم شماری سے مراد معاشی، سماجی ، حیاتیاتی مواد اکٹھا کرنا، اسے مرتب کرنا اور آخر میں اس کا تجزیہ کرنا ہے۔ اس عمل میں ملک کے تمام افراد شامل ہوتے ہیں، مردم شماری میں جو عموماً دس سال کے بعد کی جاتی ہے معاشی و سماجی حالات کا ایک جائزہ ہے اور اس میں ملک کے تمام افراد شامل ہوتے ہیں۔(مگر پتہ نہیں کیوں ہمارے یہاں یہ عمل ہر دس سال بعد نہیں کیا جاتا، واللہ علم)مردم شماری میں ایک گھر میں رہنے والے کنبے یا گھرانے کے افراد، ان کے معاشی و سماجی حالات مثلاً جنس ، عمر، تعلیم ، ازدواجی حیثیت اور مذہب کے متعلق معلومات اکھٹی کی جاتی ہیں۔ یہ معلومات ملک کے ہر فرد کے بارے میں اکھٹی کی جاتی ہیں چاہے وہ گاﺅں کا رہائشی ہو یا شہر کا رہائشی۔

انگلش ڈ کشنری کے لحاظ سے:" Official counting of all the people in a country. "،اس گروپ کے ہر فرد کے مطابق Data Collection ضروری ہے۔ گروپ چھوٹا ہو یا بڑا ، گاﺅں ہو یا دیہات ، قصبہ، شہر ، کمیونٹی کو شمار کرنا، گنتی کرنا جاننا آبادی کے بارے میں ہو، مکانات ہو، مصنوعات ، تجارت، ادارے ، ٹرانسپورٹ کے ذرائع یا کوئی بھی چیز مادی ہو یا زندہ، اگر اسے گنا جا سکتا ہے تو اسے شماری کہتے ہیں اور اگر کچھ دن بعد شماری فوائد کو خاص ترتیب سے شائع کیا جائے یا کسی دستاویزی صورت میں اکٹھا کیا جائے تو اسےCensus کہتے ہیں۔اگر Census انسانوں کے بارے میں ہو تو اسے مردم شماری کہتے ہیں۔

مردم شماری کی تاریخ :History of Sensus: مردم شماری کے بارے میں اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل حقائق سامنے آتے ہیں۔سب سے پہلے 2ھ میں مدینہ شہر میں مردم شماری کرائی گئی۔عہدِ رسالتﷺ میں وسائل کی تقسیم کا منصفانہ نظام قائم کیاگیا جسکے تحت صاحبِ حیثیت افراد سے زکوة، خیرات و صدقہ لے کر معاشرے کے ضرورت مند افراد میں منصفانہ طورپر تقسیم کی جاتی ہے اس کے لیے سبھی افراد مقرر کیے گئے جنھوں نے باقائدہ مردم شماری کرکے ان وسائل کو منصفانہ طور پر تقسیم کیا تاکہ کوئی محروم نہ رہے۔اس کے بعد 640ءبمطابق 15ھ میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے باقاعدہ مردم شماری کروائی تھی۔قبل مسیح رومن سلطنت نے فوجی و سیاسی مقاصد اور جائیداد کی رجسٹریشن کے لیے پہلی مرتبہ رومن تہذیب میں باقاعدہ مردم شماری کروائی۔پھربابل ایران ، مصر، چین اور جنوبی امریکہ میں مختلف مقاصدکے حصول کے لیے مردم شماری کروائی گئی۔مسلم ممالک میں شہر کوفہ میں مردم شماری کے کوائف ملتے ہیں۔جرمنی میں 14ویںصدی عیسویں میں بہت منظم طریقہ سے مردم شماری ہونے کا ریکارڈ ملتاہے۔15ویں صدی عیسویں میں اسپین میں باقاعدہ مردم شماری کا ریکارڈ ملتاہے۔کینڈا، امریکہ اور سوئیڈن اس مردم شماری کے موجد ہیں جو آجکل ہوتی ہے۔ یعنی ہر دس سال بعد یہ ضروری قرار دیاگیاکہ کروائی جائے۔امریکہ میں اس سلسلے میں 790ءمیں پہلی مردم شماری ہوئی جبکہ برطانیہ1801ء، فرانس 1836ئ، روس 1897ءاور چین میں1982ءپہلی مردم شماری ہوئی،1983ءتک دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ایک بارمردم شماری ہوگئی۔پاکستان میں اس کی ابتدا 1970ءمیں ہوئی۔مردم شماری کی اقسام کچھ اس طرح ہے کہ پہلے حقیقی مردم شماری ، اس کے بعد دوسرے نمبر پر قانونی مردم شماری کیا جاتا ہے۔ توآیئے پہلے حقیقی مردم شماری پر نظر ڈالتے ہیں۔مردم شماری کے وقت اُس علاقے میں جو بھی افراد موجود ہوں گے ان کی گنتی کر لی جائے گی خواہ وہ کسی دوسرے صوبے، ملک یا علاقے سے وقتی طور پر اس علاقے میں قیام پذیر ہوں جہاں مردم شماری کی جا رہی ہو۔پھر قانونی مردم شماری کی باری آتی ہے اس میں صرف اُن افراد کی گنتی کی جاتی ہے جو اس صوبے علاقے میں مستقل رہائش پذیر ہوں جہاں کی مردم شماری کی جا رہی ہو۔مردم شماری سماجی و معاشرتی لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتی ہے اس لئے کہ ” انسان معاشرتی حیوان ہے“ جو تنہا نہیں رہ سکتا بلکہ مل جل کر رہتا ہے اور اپنے گھر، ماحول اور فطرت سے بہت کچھ سیکھتا ہے اس کا اُٹھنا ، بیٹھنا، چلنا پھِرنا ، خطرات جان کر تحفظ چاہنا سب انسانوں سے وابستہ ہے۔

ہرفرد معاشرے کا حصہ ہے اس لیے وہ دوسروں سے مل جل کر رہنا چاہتا ہے، مراسم تعلقات قائم کرتا ہے، معاشرتی زندگی کی تقسیم اور بہتر زندگی کا انتظام کرتا ہے، اس طرح وہ خود بھی خوش رہتا ہے اور معاشرے کو بھی سکُھی رکھتا ہے اور یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب ہر کام میں ایک تنظیم اور ضبط ہو۔ مردم شماری کے ذریعہ معاشرے میں نظم و ضبط پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے ذریعہ نظم و ضبط برقرار رہتا ہے تمام منصوبوں پر عمل اعداد شمار کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔ مردم شماری کی اہمیت معاشرے میں اس لیے ہے کہ معاشرے کا نظم و ضبط اس صورت میں برقرار رہے گا جب شماریاتی اعداد و شمار موجود ہوں۔ اور شماریاتی اعداد و شمار یا بہترین پلاننگ کےلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہترین، موثر اور بروقت منصوبہ بندی ہو یعنی مردم شماری ہو، اعداد شمار کو اَپ ڈیٹ رکھا جائے اسی اہمیت کے پیشِ نظر پاکستان میں ہر دس سال بعد مردم شماری کا انعقادکرایا جانا چاہیئے۔کسی بھی ملک کو اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے اور منصوبہ بندی کے لیے اعداد و شمار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اعداد و شمار میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی آبادی کیا ہے؟ کتنے گھرانے ہیں؟ کتنے افراد ہیں ؟ ملک میں کتنے ادارے ہیں؟ تعلیم کے اداروں کی تعداد کیا ہے؟ صحت کے اداروں کی تعداد کیا ہے؟ سماجی بہبود کے کون کون سے ادارے ہیں؟ خوراک ، زراعت، صنعتی ترقی افرادی قوت کیا ہے؟ غرضیکہ ہر شعبے کی تنظیم و تشکیل کے لئے آبادی اور مردم شماری پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ جس سے ملک کا مستقبل تحفظ میں آجاتا ہے۔

ملک کی ترقی و تعمیر کا انحصار بھی مردم شماری پر ہے کیونکہ کوئی ملک سیاسی، سماجی ، معاشرتی اور معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا جب تک اپنے اندر بسنے والوں کی تعداد،تعلیم، سماجی حیثیت معاشی کیفیت کے بارے میں بنیادی معلومات نہ ہوں اس لیے مردم شماری کرنی پڑتی ہے اور جب صحیح اعداد و شمار حکومت کے متعلقہ اداروں کے پاس آ جاتے ہیں تو حکومت اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے بہترین پلاننگ کرتی ہے مثلاً اگر مجھے یہ معلوم کرنا ہو کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں کیا ہو رہا ہے تو میں تعلیمی شعبے کے تعلیمی پلاننگ کے شعبے میں جاﺅں گا۔ وہاں سے آبادی کے بارے میں معلومات اکٹھا کروں گا۔ مجھے معلوم ہوگا کتنے خواندہ افراد ہیں؟ کتنے ناخواندہ افراد، خواتین جو تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور کتنی ہیں؟ مرد کتنے تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ تعلیمی اداروں کی تعداد کیا ہے؟ سہولیات جو تعلیمی اداروں میں ہیں ان کے اعداد و شمارالگ ملے گی اس طرح ملک کی ترقی کا اندازہ مردم شمار کے اعداد و شمار دیکھ کر بخوبی ہو سکتا ہے ۔مردم شماری کے ذریعے ہنر اور فنی مہارتوں کے بارے میں رجحان کا اندازہ لگا کر ملک میں ایسی صنعتوں کو فروغ دیا جاتا ہے جن کے لیے مستقبل میں ارزاں قیمت پر افرادی قوت دستیاب ہو سکے۔ مردم شماری کے ذریعے آئندہ کے لیے مہارتوں اور کارکنوں کی ضرورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس ذرائع آمد و رفت کی تعمیر کے منصوبے بنانے کے لیے حکومت مردم شماری کے ذریعے حاصل کئے گئے اعداد و شمار کو استعمال کرتی ہے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت کے مطابق ذرائع نقل و حمل کو ترقی کا پروگرام وضع کرکے معاشی و معاشرتی ترقی کو فروغ دیا جاتا ہے۔

مردم شماری کے ذریعے آبادی اور شرح افزائش کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہے جن کی بنیاد پر زرعی پیداوار کی طلب کا اندازہ لگا کر تحقیق کے ذریعے معلومات حاصل ہوتی ہیں، تحقیق کے ذریعے پیداوار میں بروقت اضافہ کی کوشش کرکے نہ صرف ملکی غذائی قلت اور گرانی کو دور کیا جا سکتا ہے بلکہ جدید طریقہ ہائے پیدائش کو فروغ دے کر ملک و غذائی پیداوار میں خود کفیل بنایا جا سکتا ہے اس لیے معاشی لحاظ سے مردم شماری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔افرادی قوت کسی ملک کی آبادی اس کا اثاثہ ہوتی ہیں افرادی قوت ہی کس ملک ی ترقی اور تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آبادی میں اچانک کمی بعض اوقات مختلف حادثات کی شکل میں رونما ہوتی ہے مثال کے طور پر دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرایا اور لاکھوں افراد فوت ہوگئے۔ اور اس طرح جاپان افرادی قوت سے محروم رہ گیا۔ زندہ افراد میں مفلوج اور کام کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔ لیکن جاپان کے محنتی لوگوں نے اپنے ملک کی تعمیر نوع کا کام شروع کیا اور بہت جلد اس بڑے نقصان کا ازالہ کر لیا۔ ہمارے ملک میں مردم شماری اس مقصد کے لیے کی جاتی ہے کہ اندازہ کیا جا سکے کہ آئندہ دس سالوں میں آبادی میں کس قدر اضافہ ہوگا مثال کے طور پر ہمارے ملک میں ہر سال تقریباً ایک کڑور ٹن گندم کی پیداوار ہوتی ہے جو کہ ہمارے ٓابادی کیلئے ضرورت سے زیادہ ہے اور ہر سال بہتر کاشت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں میں آبادی کے تناسب میں توازن پیدا کیا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی تمام آمادی کو تعلیمی سہولتیں فراہم کی جائیں اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہے کہ تعلیمی معیار کو بلند کیا جائے اور یہ دیکھنا ہوگا کہ ایک کلو میٹر پر کتنے لوگ آباد ہیں تمام ترقی پذیر ممالک میں مثلاً بنگلا دیش مین فی کلو میٹر آبادی کا تناسب سے سے زیادہ ہے۔ وہاں ڈیرھ سو 150 افراد فی کلو میٹر رہتے ہیں۔ مردم شماری کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس کے ذریعے معلوم ہو جاتا ہے کہ شہری آبادی میں اضافہ کتنا ہوا؟ کتنی اموات ہوئیں آئندہ شہری آبادی میں اضافہ کے لیے اس شہر کو کتنی وسعت دینے کی ضرورت ہوگی آبادی میں اضافہ کی وجہ سے دیگر سہولتوں میں مثلاً سڑکوں کی تعمیر، پانی کی نکاسی، پینے کے پانی کا انتظام، ذرائع آمد و رفت کی سہولتیں بہتر کرنا ہو غرضیکہ مردم شماری کے ذریعے اموات و افزائش کا اندازہ کرکے شہری کی وسیع منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔صحت کی سہولیات فراہم کرنا، رفاہ عام کے اداروں میں سہولیات کی فراہمی مردم شماری سے ممکن ہے۔ رفائے عامہ کے ادارے، صحت کے مراکز حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ یہ جو سہولیات عوام کو فراہم کرتے ہیں ان کے لیے مردم شماری کے اعداد و شمار کی ضرورت پڑتی ہے۔بچوں کی پیدائش و اموات، افراد کی پیدائش اور اموات یہ سب مردم شماری سے معلوم ہوتا ہے پاکستان میں مردم شماری کی مدد سے پولیو، چیچک ، خسرہ کے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں، بچوں اور خواتین میں صحت برقرار رکھنے کے لیے ہیلتھ ورکرز مہیا کی جا رہی ہیں اور کشش کی جا رہی ہے کہ حفظان صحت کو اصولوں پر عمل کریں تو شرح اموات کو روکا جا سکے۔کسی زمانے میں شرح پیدائش کے ساتھ شرح اموات بھی زیادہ تھیں اکثر مائیں پیدائش کے وقت مر جاتی تھیں آنے والے بچے معاشرے کے لیے بوجھ بن جاتے تھے چنانچہ مردم شماری کے ذریعے صحیح معلومات کا اندازہ کرکے خواتین کو دوائیں فراہم کرنا ، مشورے دینا، معلومات فراہم کرنا یہ سب مردم شماری کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔

کسی ملک کی ترقی و تعمیر مردم شماری کے صحیح اعداد و شمار پر انحصار کرتی ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے جو منصوبہ بندی کی جاتی ہے خواہ وہ زراعت کے شعبے میں ہو، یا صحت، تعلیم یا صنعت و حرفت یا ٹیکنالوجی کے میدان میں ہو مردم شماری ترقی کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے اس کے ذریعے آئندہ پانچ سالوں کے لیے بہترین منصوبہ بندی کر سکتے ہیں کیونکہ ہر شعبے کا تعلق مردم شماری سے ہے مردم شماری کے زریعے شعبے کے بارے میں صحیح اعداد و شمار ملیں گے تو بہترین منصوبہ بندی عمل میں آئے گی اور ملک کی تعمیر و ترقی بہتر انداز میں ہو سکے گی۔

پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ترقی پذیر ملک بھی ہے پچھلے کچھ سالوں سے خواتین کی ایک بڑی تعداد مردوں کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی میں حصہ لے رہی ہے ۔ خواتین کی فلاح و بہبود ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے مردم شماری کے ذریعے وہ اعداد و شمار سامنے آتے ہیں جن سے آسانی سے پتہ چل جاتا ہے ملک میں کام کرنے والی کتنی خواتین ہیں؟ سرکاری محکموں میں خواتین کی تعداد کیا ہے؟ غیر سرکاری میں کیا ہے؟ ملازمت کرنے والی خواتین کی تعداد کیا ہے؟ شہری خواتین اور دیہی خواتین کی عمر، تعداد، تعلیمی معیار یہ سب مردم شماری کے ذریعے آسانی سے جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے مردم شماری کی ضرورت خواتین کے اعداد و شمار کا اندازہ لگانے کے لیے بہت اہم ضرورت ہے۔

سیاسی نقطہ نظر سے بھی مردم شماری کی ضرورت قدم قدم پر ہوتی ہے ۔ پاکستان کے آئین کا یہ حصہ ہے کہ صوبوں کو 90 فیصد اخراجات آبادی کے لحاظ سے دیے جاتے ہیں۔ یہ ترقیاتی فنڈ دینے کے لیے آبادی کی گنتی ضروری ہے۔ چنانچہ الیکشن کے لیے نششتوں کی حلقہ بندی کی جاتی ہے جو کہ مردم شماری کے بغیر ناممکن ہے۔ اس لیے بہترین الیکشن جب ہی ممکن ہوں گے جب اعداد و شمار کا اندازہ کرکے حلقے بندی کی جائے گی۔ اس لیے حلقہ بندی کے لحاظ سے مردم شماری کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔کسی بھی ملک میں مردم شماری کرنے کے کئی مقاصد ہوتے ہیں۔ تاکہ مردم شماری کے بعد اس ملک کی زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کا اندازہ کیا جا سکے۔

عام طور پر ہمارے ملک میں مردم شماری 10 سال کے بعد کی جاتی ہے جیسے ہمارے ملک میں سب سے پہلے 1951 میں کی گئی تھی۔پھر اس کے بعد 1981 میں کی گئی پھر 2001 میں کی گئی۔ جس سے یہ اندازہ کیا گیا کہ آبادی کی شرح میں کس قدر اضافہ ہو رہا ہے آبادی کا اندازہ مختلف سطحوں پر کیا جاتا ہے مثلاً دیہات، قصبہ، گاﺅں، شہر، ڈویژن اور صوبے کی سطح پر کیا جاتا ہے۔ اور یہ کام محکمہ مردم شماری انجام دیتی ہے۔اس کے تحت سب سے پہلے مرد اور خواتین کی ٹیمیں مقرر کی جاتی ہیں خواتین اور مرد پہلے مرحلے میں مردم شماری سے متعلق فارم مہیا کرتے ہیں۔ اور اس کو پُر کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔شناختی کارڈ کا نمبر خاص طور پر نوٹ کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ہر ملک میں آبادی کا ریکارڈ کئی طرح سے رکھا جاتا ہے۔بلحاظِ جنس۔شہری اور دیہی لحاظ سے۔خواندہ و ناخواندہ کے لحاظ سے۔شرح اموات و شرح پیدائش کے لحاظ سے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی مدینہ منورہ کی طرح اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی واحد مملکت ہے اس لیے لقد کان فی رسول اللّٰہ اُسوة حسنہ پر عمل کرتے ہوئے کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی تمہارے لئے بہترین اخلاق کا نمونہ ہے پر عمل کرتے ہوئے مردم شماری کا آغاز پاکستان میں 1951میں ہوا ۔تعلیم کی رفتا معیار اور مقدار کا اندازہ مردم شماری سے ہوا۔

موومنٹ یا نقل مکانی سے مراد ہے متحرک ہونا یا منتقل ہونا۔ اگر کبھی کسی ایک جگہ سے آبادی دوسری جگہ منتقل ہو جائے تو اس عمل کو نقل مکانی یا انتقال آبادی کہتے ہیں۔ یہ ہر سطح پر ہوتی ہے علاقے، شہر یا ملک کی سطح پر نقل مکانی ہوتی ہے۔نقل مکانی ایک ایس اسظلاح ہے جس کے بہت سے معنی ہیں ۔ عام طور پر اس سے مراد جغرافیائی حرکت ہے۔ جس میں رہائشی تبدیلی ایک خاص شماریاتی علاقے میں واقع ہوتی ہے۔ مختلف قسم کے رہائشی علاقوں میں ہونے والی تبدیلیاں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں۔کنسائز آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق، ” نقل مکانی (Migration) سے مراد ایک جگہ، ملک یا قصبے سے دوسری جگہ جانا ہے۔“پس نقل مکانی یا انتقال آبادی سے مراد ملک کے اندر یا باہر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہے۔(Unesco) نے نقل مکانی کو یوں بیان کیا ہے کہ ” اس سے مراد ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں رہائشی مقصد کیلئے حرکت کرنا ہے۔“ اس کی تعریف اس طرح بھی کی جا سکتی ہے کہ اس سے مراد نقل مکانی ایک ایسی حرکت ہے جو جغرافیائی اکائیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں رہائش کی مستقل تبدیلی شامل ہے۔جو لوگ گاﺅں یا شہر میں رہائش پزیر ہونے کے لئے آتے ہیں۔ وہ اس جگہ پر اندرونی مہاجرین کہلاتے ہیں اور ایسے لوگ جو ایک گاﺅں یا شہر سے کسی دوسری جگہ پر جاکر رہتے ہیں وہ بیرونی مہاجرین کہلاتے ہیں۔ تاہم اندرونی اور بیرونی نقل مکانی سے مراد ایک ہی ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہے۔ اندرونی نقل مکانی اور بیرونی نقل مکانی میں فرق ہوتا ہے جو کہ اس طرح ہے۔

نقل مکانی کی ابتدا کب اور کہاں سے ہوئی اسکا علم تو ہمیں نہیں ہے۔ لیکن انٹرنیٹ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق اِنڈو یورپیئن فیملی کا ایک بڑا گروپ تین ہزار سال قبل مسیح میں مشرقی وسطیٰ یورپ میں نقل مکانی کر گیا اوردو ہزار قبل مسیح میں اِنڈو یورپیئن نے پنجاب (بھارت) کی طرف نقلِ مکانی کی اور بعد ازاں گنگا اور سندھ دریا کے کناروں پر آباد ہوئے۔دوسری اور تیسری صدی میںچائنیز نے کئی خطوں پر اپنی حکومت قائم کی اس طرح وہ زمین کے مختلف حصّوں پر آباد ہوئے۔ تیرھویں صدی میں منگولوں نے چائنا کے علاوہ مشرق وسطیٰ، ایشیا کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا اس طرح منگولوں نے اپنی آرمی (فوج) کو ان علاقوں میں آباد کیا جو کہ تاریخ کی سب سے بڑی عسکری نقل مکانی تھی۔پیلی جنگ عظیم (1914 - 1918) کے بعد 50 سالوں مین جدید نقل مکانی کا conceptاپنے عروج پر پہنچ گیا۔تاریخ دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ غیر خانہ بدوش لوگ ان جگہوں کو چھوڑنے کا رجحان نہیں رکھتے جنکے وہ عادی ہو جاتے ہیں اور یہ کہ زیادہ تر تاریخی اور تاریخ سے پہلے کی ہجرتیں علاقائی حالات کی تباہی کی وجہ سے ہوئیں۔ اس عقیدے کی بنیاد زیادہ تر بڑی ہجرتوں یا نقل مکانی سے پہلے رونما ہونے والے واقعات پر مبنی ہے۔ہر فرد اپنی زندگی کو بہتر طور سے گزارنا چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ اس کو تمام سہولتیں میسر ہوں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس کا ذریعہ معاش بہتر ہو تاکہ وہ تمام سہولیات تک رسائی کر سکے۔ بہتر معاش کی تلاش اس کو کسی دوسرے علاقے، شہر یا ملک نقل مکانی کر جاتا ہے تاکہ وہ ایک اچھی اور پر سکون زندگی گزار سکے۔دینا میں اکثر افراد ایسے ہیں کہ جو مذہب کے تحت زندگی گزارنے کو اولین فریضہ قرار دیتے ہیں اس سبب سے نقل مکانی کی کئی ، یہ تمام وجوہات ہیں جیسے قیامِ پاکستان کے وقت مسلمانوں کی پاکستان ہجرت ہوئی۔ سیاسی اسباب و محرکات اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یہ نقل مکانی محلہ کی سطح سے بین الاقوامی سطح تک ہو سکتی ہے۔ جیسے قیام پاکستان کے وقت کی نقل مکانی ۔

منصوبہ بندی کوئی بھی ہو اس کے لیے اعداد و شمار بہت ضروری ہیں خصوصاً آبادی کی منصوبہ بندی کے لیے وسائل کے استعمال میں بھی منصوبہ بندی اس طرح کی جاتی ہے کہ جہاں جتنے وسائل میسر ہیں اس حساب سے انتظام کیا جائے اور جہاں وسائل کم دستیاب ہوں تو بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے انہیں استعمال کیا جائے یعنی خاص انتظامات کے تحت ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک صوبے سے دوسرے صوبے اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی جانب نقل مکانی کے باعث حکومت کو منصوبہ بندی میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور تمام انتظامات ادھورے رہ جاتے ہیں کیونکہ حکومت موجود وسائل کے تحت انتظام اور منصوبہ بندی کر تی ہے جو آبادی کی منتقلی کے باعث جو محکمے تعاون کرتے ہیں وہ مزید تعاون پر تیار نہیں ہوتے اسی طرح دوسری طرف جہاں آبادی منتقل ہوتی ہے وہاں کی پلاننگ بھی متاثر ہوتی ہے۔اگر انتقال آبادی کو روک دیا جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے اس کے لیے مناسب منصوبہ بندی اعداد و شمار کا کھیل ختم کرنے اور انصاف کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے ہمارے ہاں خوشحال پاکستان کے منصوبے کاغذوں پر تو بنتے ہیں مگر عمل کم ہوتا ہے جس کا نتیجہ غربت میں اضافہ شرح خواندگی میں کمی، معاشرتی مسائل، تعلیمی پستی اور شخصیت میں منفی رجحان کا پیدا ہونا جیسی خصوصیات پیدا ہوتی جاتی ہیں۔

قدیم یونانی مفکر ارسطونے کہا تھاکہ : ” کثیر آباد ریاستوں میں افلاس، انقلابات اور جائم کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔“اس قول کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آبادی میں اضافہ کسی بھی سبب ہو، چاہے وہ اضافہ سالانہ قومی شرح پیدائش میں ہو یا باعث نقل مکانی، ملک کی تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی میں رخنہ انداز ہوتا ہے۔

نقل مکانی کے باعث ایک ملک جن مسائل کا شکار ہو سکتا ہے ۔ ہمارا وطن پاکستان بھی ان ہی مسائل سے دوچار ہے کیونکہ ایک زراعتی ملک ہونے کے سبب ہمارا اسّی فیصدآبادی دیہات میں رہتی ہے اوربیس فیصد شہروں میں، آبادی میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ غیر زراعت پیشہ لوگ دیہات چھوڑ کر شہروں میں آباد ہو رہے ہیں دراصل شہروں میں موقع روزگار زیادہ اور بہتر انداز میں ہوتے ہیں اس کے علاوہ تقسیم کل1947ءکے بعد مہاجرین نے زیادہ تر شہروں کا رخ کیا نقل مکانی کے بعد آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

دنیا کی موجودہ آبادی اور خاص طور پر ہمارے ملک کی موجودہ آبادی کے لیے یہ بات خاص طور پر توجہ طلب ہے کہ دنیا کی آبادی کا زیادہ تر حصّہ ترقی پذیر ممالک پر مشتمل ہے جہاں وسائل کم اور آبادی زیادہ ہے اور اس کے سبب بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں جو انتہائی توجہ طلب ہے ان تمام مسائل پر قابو پانے کے لیے علم آبادیات کو فروغ دینا چاہیئے تاکہ تعلیم آبادیات کے ذریعے یا تعلیم آبادیات کے مطالعہ سے ہم اپنی نئی نسل کو آبادی کے اضافے سے پیدا ہونے والے مسائل سے متعارف کرائیں گے۔اور ان کو حل کرنے کے لیے کوئی مناسب اور متوازن لائحہ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دے سکیں ۔یہ تھی مکمل مردم شماری اور اس پر اثر انداز ہونے والے تمام پہلو جس کا ذکر بہت ہی مفصل طریقے سے درج کر دیا گیا ہے ۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 338851 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.