25 دسمبر کا دن ہم پورے اہتمام
سے مناتے ہیں ۔اس روز بیشمار تقاریب بھی ہوتی ہیں اور ہم بھی بڑے ردھم سے
گاتے ہیں
یوں دی ہمیں آزادی کہ دُنیا ہوئی حیران
اے قائدِ اعظم ! تیرا احسان ہے ، تیرا احسان
لیکن شاید کسی کو بھی پاکستان کی فضاؤں میں پُکارتی روحِ قائد کی سسکیاں
سُنائی نہیں دیتیںجو یہ کہتی ہیں کہ کہاں ہے وہ پاکستان جس کے حصول کی خاطر
میں نے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کی ۔محترمہ فاطمہ جناح کے مطابق قائدِ اعظم
بخوبی جان چُکے تھے کہ وہ سفرِ زندگی کی آخری گزر گاہ پر قدم رکھ چُکے ہیں
لیکن اُس مردِ آہن کو تو کچھ بھی یاد نہیں تھا سوائے حصولِ مقصد کے اور
مقصد ہندوستان میں پھیلے منتشر اور مایوس مسلمانوں کے لیے ایک ایسا قطعہ
زمین حاصل کرنا جہاں وہ بِنا کسی روک ٹوک اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی
بسر کر سکیں ۔اپنی جدو جہد کے آخری دنوں میں اُن کی حالت یہ تھی کہ وہ
کئیءکئی دن تک صاحبِ فراش رہتے لیکن جہاں کہیں اُن کی ضرورت محسوس ہوتی وہ
اِس عالم میں پہنچتے کہ کسی کو اُن کے دمکتے چہرے پر بیماری کا شائبہ تک
محسوس نہ ہوتا ۔وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے لیکن ہم اُن کی کامیابی کا
بھرم بھی نہ رکھ سکے ۔
شاید اسی لیے یہ دِن مجھے بُری طرح اُداس کر دیتا ہے اور میں چاہتے ہوئے
بھی اُن کے یومِ پیدائش کی خوشیوں میں شریک نہیں ہو سکتی ۔ میری آنکھوں کے
میں 16 دسمبر 71 ءکی وہ ٹھنڈی دھوپ جھلملانے لگتی ہے جب ڈھاکہ کے پلٹن
میدان میں جنرل جگجیت سنگھ اروڑا نے ہماری عظمتوں کے تمغے نوچے، ہمارے
”ٹائیگر “ کو پنجرے میں بند کیا اور میرے قائد کے پاکستان کو دو لخت کر دیا
۔وہ قیامت کی گھڑی ہی تو تھی جب اُدھرہمارے نوّے ہزار فوجی اور شہری پا بہ
زنجیر ہوئے اور اِدھر ”اِک شرابی“ قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ”جنگ
ابھی ختم نہیں ہوئی، وقتی طور پر پیچھے ہٹ جانے کا نام شکست نہیں۔۔۔ آزادی
کی شمع بچے بچے کے ہاتھ میں روشن ہے ۔۔۔ “لیکن اُس کی اِن خرافات پر تب
دھیان دینے والا کوئی نہ تھا کہ گھر گھر میں تو صفِ ماتم بچھی تھی اور در
در پہ نوحہ خوانی۔
پتہ نہیں بابائے قوم نے یہ کہا تھا یا نہیں کہ اُن کی جیب کے سکّے کھوٹے
ہیں لیکن سچ اُگلنے والے وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ سکّے تو کھوٹے ہی تھے
اور تا حال کھوٹے ہیں ۔افرا تفری ، ہنگامے ، دہشت گردی ، فرقہ واریت ،
لسانی جھگڑے ، مسالک کی جنگ ، لوٹ مار ، کرپشن ، ٹارگٹ کلنگ اور اداروں کی
تباہی انہی کھوٹے سکّوں کی دین ہے جس میں یہ قوم عشروں سے مبتلا ہے ۔سیاست
میرا کبھی بھی موضوع نہیں رہا لیکن میں پاکستانی شہری تو ہوں اور ہر روز
اُسی کَرب سے گزرتی ہوں جس سے ساری قوم گزرتی ہے ۔اِس لیے نہ چاہتے ہوئے
بھی میرے کالموں میں سیاست در آتی ہے ۔میں جب چلچلاتی دھوپ اور ٹھٹھرتی
سردی میں ننّھے مُنّے معصوموں کو کام کرتے اور ہلکان ہوتے دیکھتی ہوں تو
اکثر میری سوچوں میں حاکمانِ وقت کے بچے آ جاتے ہیں جو یورپ اور امریکہ کی
فضاؤں میں ہمارے خون پسینے کی کمائی سے پروان چڑھ رہے ہیں اور ہم ، غُلامانِ
وقت اِس انتظار میں ہیں کہ کب ہماری گردنیں نئے طوقِ غُلامی سے آراستہ کی
جائیں گی۔ پھر میں اِس گرداب سے نکل نہیں پاتی ۔پھر مجھے امیر المومنین
حضرت عمرؓ یاد جاتے ہیں جنہیں اپنا جسم ڈھانپنے کے لیے بیت المال سے صرف
ایک چادرملی ۔آپؒ طویل قامت تھے ، ایک چادر پورا جسم ڈھانپ نہیں سکتی تھی ۔دوسرے
دن جب امیر المومنین صحابہؓ سے مشاورت کے لیے باہر تشریف لائے تو پورا جسم
ڈھانپا ہوا تھا ۔ایک عام صحابیؓ نے کھڑے ہو کر پوچھا ”عمرؓ تمہارے حصّے میں
تو صرف ایک چادر آئی تھی اس سے تم نے پورا جسم کیسے ڈھانپ لیا؟۔“آپ کے بیٹے
نے فوراََ کھڑے ہو کر کہا ” میرے بابا کا قد لمبا ہے اور مجھے اچھا نہیں
لگتا تھا کہ امیرالمومنین اپنا پورا جسم بھی ڈھانپنے سے قاصر ہوں ۔اس لیے
میں نے اپنے حصّے کی چادر بھی اُنہیں دے دی“۔لیکن ہمارے حکمرانوں کا یہ
عالم ہے کہ اُنہیں عوام کا خون چوس چوس کر اپنے ذاتی خزانے بھرنے کے سوا
کوئی کام ہی نہیں۔بابائے قوم نے تو کہا تھا ”کام ، کام اور صرف کام“ لیکن
ہمارے حکمرانوں نے کام کے لیے صرف مجبوروں اور مقہوروں کا انتخاب کر لیا ۔اُن
کے دسترخوان وسیع ہوتے چلے گئے اور مقہوروں سے نانِ جویں بھی چھِن گئی ۔
یوں توہم یومِ قائد بڑے جوش و جذبے سے مناتے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ نسلِ
نَو کو حصوولِ پاکستان کے لیے کی گئی لازوال قُربانیوں کا سرے سے علم ہی
نہیں ۔ انتہائی محترم عمران خاں صاحب نوجوانوں پہ اپنا حق جتاتے اور اُن کے
ذریعے سونامی لانے کی باتیں کرتے ہیں لیکن وہ کبھی کسی بھی نوجوان کو کھڑا
کرکے یہ پوچھنے کی زحمت بھی گوارہ کر لیں کہ قائدِ اعظم کون تھے اور اُنہوں
نے یہ قطعہ ارضی کیسے حاصل کیا ؟۔وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ سوائے شرمندگی کے
اُن کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا کیونکہ یہ نو نہالانِ وطن فقط اتنا ہی جانتے
ہیں کہ کراچی میں محوِ خواب ایک شخص کا نام قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ تھا
جنہوںنے ”غالباََ “ پاکستان بنایا ۔وجہ صرف یہ ہے کہ ہمیں یا ہمارے قائدین
کو اسلاف سے کوئی غرض ہے نہ اُن کی تاریخ سے ۔خادمِ پنجاب میاں شہباز شریف
بھی تعلیم کے نام پر اربوں صرف کر رہے ہیں لیکن کیا اساسِ پاکستان کی طرف
کبھی اُن کا دھیان گیا؟ ۔وہ چند سو ، یا چند ہزار کو ایچی سن جیسے اداروں
کے فارغ التحصیل طلباءکے مقابلے میں کھڑا کرنے کے لیے تو کمر بستہ ہیں لیکن
اُن کروڑوں بچوں سے بے خبر جو ہر روز روٹی کے چند ٹکڑوں کی خاطر سڑکوں کی
دھول چاٹتے نظر آتے ہیں ۔رہی پیپلز پارٹی تو اُسے دوسرے کاموں سے فُرصت
کہاں کہ وہ ایسی بیکار باتوں پہ توجہ دے۔ البتہ اُس کے حواری دانشور قائدِ
اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے ہمہ وقت لنگوٹ کَس کر تیار رہتے ہیں ۔
اُنہیں شاید دو قومی نظریہ کا مطلب دوبارہ سمجھانا پڑے گا جس کی بنیاد پر
پاکستان معرضِ وجود میں آیا ۔اُنہیں یہ بتلانے کی ضرورت ہے کہ دُنیا کی
تمام اقوام جغرافیائی سرحدوں کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آتی ہے لیکن قومِ
مسلم نظریہ کی بنیاد پر ۔ اگر قائدِ اعظم سیکولر سٹیٹ ہی چاہتے تھے تو پھر
ہندوستان کی تقسیم کا کوئی جواز ہی نہیں باقی بچتا کیونکہ ہندوستان تو آج
بھی ایک سیکولر سٹیٹ ہی ہے ۔اُس سیکولر سٹیٹ میں ہندو جو حشر دوسرے مذاہب
کے پیروکاروں کا کر رہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔حضرتِ قائدِ اعظمؓ نے
اِس کا ادراک بہت پہلے کر لیا اور وہ جو ”امن کا سفیر “ کہلاتے تھے ،
اُنہوں نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ”ہمیں زمین کا ایک ایساٹکڑا چاہیے
جسے ہم اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کر سکیں “۔آج کا سیکولر
دانشور خواہ کچھ بھی کہے لیکن یہ تاریخ ہے کہ قائد نے جس بنیاد پر یہ ٹکڑا
حاصل کیا وہ بنیاد لا الہ الاا للہ تھی ، ہے اور انشااللہ ہمیشہ رہے گی۔ |