ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مقصد
ضرور ہوتا ہے۔ قدرت کے کارخانے میں تیار ہونے والی کوئی بھی چیز بے مصرف
نہیں ہوتی۔ بند گھڑی بھی دن میں دو بار وقت کی درست نشاندہی کرتی ہے۔ حد یہ
ہے کہ فُضلہ بھی کام آتا ہے مگر ہم اب تک، اپنی نام نہاد ”ذہانت“ بروئے کار
لانے کے باوجود، یہ سمجھ نہیں پائے کہ ماہرین کا مصرف کیا ہے! کوئی مائی کا
لعل ہمیں اب تک یہ نہیں بتا سکا کہ ماہرین کِس مرض کی دوا ہیں۔ ہاں، وہ
ہمیں مرض جیسے ضرور دکھائی دیتے ہیں!
جو لوگ اخبارات میں سیاسی خبریں اور حکومتی اعلانات پڑھ پڑھ کر اُوب چکے
ہیں اُنہیں ہم مشورہ دیتے ہیں کہ ماہرین کے مشوروں پر مبنی خبریں آزماکر
دیکھیں! ماہرین کو یہ صفت تو اللہ نے خوب بخشی ہے کہ جب بھی منہ کھولتے ہیں،
لطائف کا دریا بہاتے ہیں! کسی بھی معاملے میں دی جانے والی ماہرانہ رائے
ایسی ”حقیقت پسندانہ“ ہوتی ہے کہ حقیقت دُم دباکر گوشہ نشینی اختیار کرنے
پر مجبور ہو جاتی ہے!
ہم نے مرزا تنقید بیگ سے پوچھا کہ جب ماہرین کے مشوروں میں کوئی کام کی بات
پائی ہی نہیں جاتی تو اخبارات اُن سے متعلق خبریں شائع کرکے جگہ کیوں ضائع
کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگے۔ ”اخبارات میں سب کچھ تو سیاسی نہیں ہوسکتا۔ قتل و
غارت، بم دھماکوں اور دہشت گردی کی خبریں اِتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ لوگ
اُنہیں پڑھ کر ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہوتے جاتے ہیں۔ ایسے میں ماہرین کے
مشوروں پر مبنی چند خبریں شائع کرکے قارئین کا بلڈ پریشر نیچے لانے میں
اخبارات کا کیا جاتا ہے! اِسے ہم پروفیشنلزم اور خدمتِ خلق کے جذبے کا حسین
سنگم بھی قرار دے سکتے ہیں! بیشتر اخبارات کے ادارتی صفحات لایعنی سیاسی
تجزیوں اور چمچہ گیری پر مبنی کالموں سے بوجھل ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں
ماہرین کے مشورے بیلینسنگ ایکٹ کا کردار بخوبی ادا کرتے ہیں یعنی فکاہیہ
کالموں کی کمی پوری کی جارہی ہے!“
ہمارا خیال یہ ہے کہ اخبارات میں شائع ہونے والی بیشتر سیاسی خبریں اور
سرکاری اعلانات اب بہت حد تک مزاح نگاری ہی کے زمرے میں آتے ہیں اِس لیے
ماہرین کو بیچ میں لاکر الگ سے مزاح کا اہتمام کرنے کی چنداں ضرورت نہیں!
ہوسکتا ہے آپ یہ کہیں کہ سیاسی خبروں اور خوشامد آمیز کالموں میں وہ مزاح
کہاں جو ماہرین کے مشوروں میں پایا جاتا ہے!
ماہرین کا ایک پیدائشی وصف یہ ہے کہ ہمیشہ اُن حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں
جن سے کسی بھی صورت انکار ممکن ہی نہیں ہوتا۔ تحقیق کے نام پر چند رضا
کاروں کو خوب جی بھر کے تختہ مشق بنانے کے بعد ماہرین جب بھی مُنہ کھولتے
ہیں تو کوئی نہ کوئی ایسی بات کہتے ہیں جس کے درست اور مبنی بر حقیقت ہونے
میں کسی کو ذرّہ بھر شبہ نہیں ہوتا۔ چند نمونے ملاحظہ فرمائیے۔
٭ غیر معمولی تن و توش رکھنے والے (موٹے) خاصے سُست ہوتے ہیں۔ (آپ سوچیں گے
اِس میں حیرت کی بات کیا ہے۔ جو اپنا وزن برداشت نہ کر پاتا ہو وہ کام کا
بوجھ کیسے اُٹھا پائے گا؟)
٭ کمزور جسم والے (یعنی دُبلے) افراد تیزی سے کسی بھی بیماری یا وبا کا
شکار ہو جاتے ہیں۔ (لو کرلو بات۔ مضبوط جسم کے حامل لوگوں کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر بیماریوں کو مرنا ہے کیا!)
٭ شدید پریشانی میں اِنسان کوئی بھی کام صحیح ڈھنگ سے نہیں کرسکتا۔ (اب
بتائیے ذرا کہ اِنسان پریشانی میں کام سے بیزاری محسوس نہیں کرے گا تو پھر
کب کرے گا! لے دے کر ایک پریشانی ہی تو رہ گئی ہے جو بیزار ہونے کا موقع
دیتی ہے۔ اب کیا اِنسان اُسے بھی استثنٰی دے دے؟ کبھی آپ نے کسی کو خاصے
اچھے موڈ میں بھی برے ڈھنگ سے کام کرتے دیکھا ہے؟)
٭ جہاں بے روزگاری عام ہو وہاں جرائم تیزی سے پنپتے ہیں۔ (اِسے کہتے ہیں
”دانش وری“ کی انتہا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کبھی کسی ایسے معاشرے میں بھی
جرائم تیزی سے پروان چڑھتے ہیں جہاں لوگوں کو تمام بنیادی سہولتیں آسانی سے
اور کافی حد تک میسر ہوں؟ ہمارا خیال ہے ماہرین کے بتانے ہی پر بے روزگاری
کی کوکھ سے جرائم جنم لیتے ہیں۔ اگر وہ خاموش رہیں یعنی کلیہ بیان کرنے سے
گریز کریں تو عین ممکن ہے کہ بے روزگاری اپنی کوکھ میں جرائم کو پروان
چڑھانے سے انکار کردے یا اگر پروان چڑھا بھی لے تو جنم نہ دے!)
٭ شدید صدمے کی حالت میں دل پر خاصا منفی اثر مرتب ہوتا ہے۔ (آپ پھر سوچیں
گے کہ بھئی یہ کون سی ماہرانہ رائے ہوئی۔ کسی بھی الم ناک کیفیت کے رُونما
ہونے پر دُکھ ہوتا ہی ہے اور دِل پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اب کیا
ایسی کھلی حقیقت جاننے کے لیے بھی ماہرین کی رائے کا انتظار کرنا پڑے گا؟)
٭ شدید گرمی میں وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔ (کسی بھی شخص کو موسم بدلنے پر
پیدا ہونے والی بیماری کا اندازہ لگانے کے لیے ماہرین کی چنداں ضرورت نہیں۔
شدید گرمی پڑتی ہے تو کئی امراض وبا کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اب ایسا تو
ہو نہیں سکتا کہ سڑا دینے والی گرمی پڑ رہی ہو اور ہمارے پس ماندہ دیہی
علاقوں میں گیسٹرو کی وبا اس بات کا انتظار کرے کہ ماہرین اس کی آمد کا
”مژدہ“ سُنائیں تو وہ پھوٹ پڑے!)
٭ کساد بازاری سے عمومی معیار زندگی کا گراف گر جاتا ہے۔ (عام آدمی بھی
جانتا ہے کہ جب معیشت پر مندی چھائی ہوئی ہو تو سبھی کے گھر متاثر ہوتے ہیں۔
جب آمدنی کی سطح گرتی ہے تو زندگی کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے یعنی اس کا
گراف بھی گرتا ہے۔ اِتنی روشن اور واضح معاشی حقیقت جاننے کے لیے کسی کو
کسی بھی ماہر سے کچھ پوچھنے یا مشورہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔)
٭ ورزش کرنے سے جسم متوازن رہتا ہے اور توانائی بحال ہوتی رہتی ہے۔ (دیکھا
آپ نے۔ جو بات بچوں کو بھی معلوم ہے وہ ہمیں ماہرین بتا رہے ہیں!)
٭ دیر سے بیدار ہونے والے صحیح ڈھنگ سے کام نہیں کر پاتے اور جلد اٹھنے
والے دن بھر چاق و چوبند رہتے ہیں۔ (کیا بات ہے! یعنی اگر ماہرین نہ بتائیں
تو ہمیں معلوم ہی نہ ہو پائے کہ زیادہ سونے کا کیا نقصان ہے اور دن چڑھے تک
سوئے رہنے والے کس طرح مشکلات کا شکار ہوتے رہتے ہیں!)
٭ بڑھاپے میں بینائی کمزور ہو جاتی ہے۔ (عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بینائی کا
کمزور ہونا فطری امر ہے۔ جو اِتنی بات بھی نہ جانتا ہوں اُسے عقل کا اندھا
سمجھنا چاہیے!)
اِن چند مثالوں سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ ماہرین جب کچھ ”ثابت“ کرنے
پر تُل جاتے ہیں تو کِس سادگی و پرکاری سے مزاح فرماتے ہیں!
برطانیہ کے معروف اخبار دی ٹیلی گراف نے بتایا ہے کہ ماہرین کی ایک ٹیم نے
جدید تاریخ کے عمیق مطالعے اور تحقیق کی روشنی میں ”انکشاف“ کیا ہے کہ
جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم کا گرایا جانا جدید تاریخ کا سب سے بڑا ٹرننگ
پوائنٹ تھا! بہت خوب۔ جس بات کو پوری دنیا چھ عشروں سے جانتی ہے وہ اب
ماہرین کے مُنہ سے نکل کر مُستند ہونے کا اعزاز پارہی ہے!
برطانوی ماہرین نے ”انکشاف“ فرمایا ہے کہ روزانہ پنیر کھانے سے کینسر کا
خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ہے کوئی جو ماہرین کی معلومات میں اضافہ کرے کہ پنیر سے
کینسر کا خطرہ تو اب کم ہوگیا ہے کیونکہ پنیر کھانے کی استطاعت کسی کسی میں
رہ گئی ہے! اب تو خیر سے انڈے بھی اتنے مہنگے ہوگئے ہیں کہ ناشتے میں انہیں
شامل کرنے سے بجٹ کو کینسر ہو جاتا ہے! ماہرین نے پنیر کو تو یاد رکھا،
انڈوں کو کیوں ”استثنٰی“ دے دیا؟ شاید انڈے پڑنے کا خوف تھا!
ماہرین خود کو ہر مرض کی دوا سمجھتے ہیں اور ہم سمیت بہت سے لوگ اُنہیں
لادوا مرض گردانتے ہیں! ماہرین نہ ہوں تو بہت سی بیماریاں، نظر انداز کئے
جانے پر دل برداشتہ ہوکر، خود ہی دم توڑ دیں! ماہرین ہیں تو وسوسوں، خوف،
بے چینی، بے یقینی، بدگمانی اور خوش گمانی کا بازار گرم ہے۔ سوال یہ ہے کہ
اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ماہرین جو کچھ کہتے ہیں اُس
کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدہضمی دور کرنے والا چورن کہاں ملے گا؟
ماہرین اِس سلسلے میں ہماری راہ نُمائی فرمائیں گے؟ |