۲۰۱۲ کی ادبی سرگرمیوں کا ایک جائزہ

’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘

نورین علی حق
دسمبر کے آخری عشرہ کی صبحیں وشامیں دامنی واقعہ سے گرم ہیں۔ پورے ملک میں خواتین کے تحفظ کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔دیگر تمام ایشوز سرد خانے میں چلے گئے ہیں۔یوں اس سال کے آخر ہوتے ہوتے ادب کو کئی اہم موضوعات ملے ہیں ، جن پر آئندہ تخلیقات سامنے آئیں گی۔ سال ۲۰۱۲ اردو ادب کے لیے مبارک ومسعود رہا۔ اس سال ادبی بحث ومباحثہ جاری رہا ، آئندہ کو مزید بہتر بنانے کے لیے لائحہ عمل بھی وقتاً فوقتاً تیار کیا جاتا رہا۔ وہیں اس سال اردو ادب کو کافی خسارہ بھی ہوا کہ اہم ناقد ودانشور پروفیسر وہاب اشرفی، شہریار،مظہرامام، مغنی تبسم، شجاع خاور، دیویندر اسر، حنیف نقوی ،وارث كرمانی، بلراج ورما، پاکستان سے ہاجرہ مسرور، رضیہ بٹ اورشاعرہ وعشق کے ذریعہ زندہ رہنے کا بہانہ تلاش کرتے ہوئے ثمینہ راجہ بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئیں، جن کی علمی وادبی خدمات کا اعتراف جامعات و کالجز اور اردو اداروں کیا۔ان شخصیات پر مختلف رسائل وجرائد میں مضامین کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔

اہم شخصیات کی وفات کے ہنگامہ کے درمیان ہی ایک نوجوان ناقد معید رشیدی کی کتاب تخلیق، تخئیل اور استعارہ نے پوری ادبی دنیا کو چونکا دیا، جس کا اعتراف جدیدیت کے امام شمس الرحمان فاروقی نے بھی کیا۔ گابرئیل گارسیا مارکیز کی علالت کی خبریں مختلف ذرائع سے مل رہی تھیں کہ صدیق عالم کا افسانوی مجموعہ ’بین‘ منظر عام پر آیا ،جس سے یہ احساس ہوا کہ مارکیز کا جسم بیمار ہوسکتا ہے،اس کا فن مؤثر ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ اسی سال سلام بن رزاق کا افسانوی مجموعہ ’زندگی افسانہ نہیں‘ تبسم فاطمہ کا افسانوی مجموعہ ’تاروں کی آخری منزل‘، شائستہ فاخری کی کتاب چوبیس زبانوں کی ہندوستانی کہانیاں، ناصرہ شرما کا ناول ’بہشت زہرا‘ ، حقانی القاسمی کی ترتیب میں تنقیدی اسمبلاژ(صلاح الدین پرویز کی تخلیق سے مکالمہ) شائع هوئی۔ ڈاکٹر ارشاد نیازی نے پنڈت نارائن شرما کی کتاب ہتو پدیش کا اردو ترجمہ اسی نام سے شائع کیا۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ کلیلہ ودمنہ بہت ہی معروف ہے۔ ڈاکٹر احمد امتیاز کی کتاب انشائیہ کے فنی سروکار بھی اسی سال منظر عام پر آئی۔ اس سال ۲۰۱۱ میں شائع ہونے والے ناولوں لے سانس بھی آہستہ، موت کی کتاب، خدا کے سائے میں آنکھ مچولی، پلیتہ اور مانجھی پر گفتگوکا سلسلہ جاری رہا۔ پاکستان سے ایک اہم ناول ’’بالوں کا گچھا‘‘ شائع ہوا۔ جس پر گفتگو کا در اب تک وا نہیں ہوسکا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ اس پر بھی باتیں ہوں گی۔اس سال شاعری بھی اچھی خاصی ہوئی۔ مجموعہ کلام میں راشد انور راشد کا’ کہرے میں ابھرتی پرچھائیں‘خورشید اکرم کا’ پچھلی پیت کے کار نے‘ اہم ہیں۔ ان کتابوں کے علاوہ بھی اہم کتابیں شائع ہوئیں۔ ہر سال اردو کی جتنی کتابیں شائع ہوتی ہیں، ان کا تذکرہ ایک مضمون میں ممکن نہیں ہے۔

رسائل میں آجکل، ایوان اردو،اردودنیا، نیا دور، آمد، فکروتحقیق، نقاط، اسباق، اثبات، بزم سہارا، اجرا، آج ، ذہن جدید پابندی ٔوقت کے ساتھ اہم مضامین وگوشے كے ساتھ شائع ہوتے رہے۔ ماہنامہ آجکل نے منٹو، احتشام حسین، آل احمد سرور اور وہاب اشرفی پر نمبر کے علاوہ غالب اور آزاد، ترقی پسند تحریک، ہاجرہ مسرور اور رضیہ بٹ پر خصوصی گوشے اور مضامین شائع کیے۔آجکل کے مدیر ابرار رحمانی کے اداریے پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھے گئے۔ یوں تو ان کے تمام اداریے اہم اورقابل مطالعہ ہوتے ہیں اور قارئین آجکل کو دیکھتے ہی دیگر رسائل کے برعکس اس کا اداریہ سب سے پہلے پڑھتے ہیں، لیکن اس سال ترقی پسند تحریک پر ان کا اداریہ’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘ خاصے کی چیز اور یادگار بھی ہے۔ ایوان اردو نے پروفیسر احتشام حسین اور پروفیسر وہاب اشرفی پر نمبر نکالے۔

سال ۲۰۱۲ کو منٹو صدی كےطورپر اردو دنیا نے منایا۔ اس سال منٹو پر بے شمار مضامین رسائل وجرائد شائع ہوئے اور کئی رسائل نے منٹو نمبر بھی نکالا، جن میں آج کل کے علاوہ سہ ماہی فکر وتحقیق ، نیا دور، پٹنہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کا ترجمان اردو جرنل(۳) کا ضخیم شمارہ بھی منٹو کے نام ہی منسوب تھا۔ اردو جرنل کی خصوصیت یہ رہی کہ اس میں منٹو پر لکھنے والوںمیںکئی طلبہ وطالبات شامل ہیں۔بزم سهارا نے نئی نسل كو خاصی اهمیت دی ۔نوجوانوں كے افسانے ،مضامین اور شاعری بزم سهارا میں شائع هوتی رهی۔وقفه وقفه سے حقانی القاسمی كے مضامین بھی شائع هوتے رهے ۔

چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ کا بین الاقوامی اردو یوتھ فیسٹول پورا کا پورا منٹو کے نام منسوب رہا، جس میں منٹو کی کہانی سنائی گئی، منٹو کی فلم دکھائی گئی اور منٹو کے افسانہ پر مشتمل ڈرامہ بھی پیش کیا گیا۔ اس اہم پروگرام کے انعقاد پر ڈاکٹر اسلم جمشید پوری یقینا ً قابل مبارکباد ہیں، جنہوں نے درجنوں اسکالرس کو منٹو پر مقالہ پیش کرنے کے لیے مدعو کیا۔ یه یوتھ فیسٹول اس معنی میں بھی اهم رهاكه اس میں نئی نسل كے ناقدومدیر حقانی القاسمی نےیادگار كلیدی خطبه پیش كیا۔ ساہتیہ اکادمی نے بھی منٹو پر سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کا انعقاد کیا۔ ساہتیہ اکادمی نے اکیسویں صدی میں شائع ہونے والے ناولوں اور ادبی تھیوری اور شعریات پر بھی سمینار منعقد کیا۔ اردو اکادمی، دہلی ہندوستان کی سب سے فعال اور متحرک اکادمی ہے، جس کے حصہ میں انیس اعظمی، شمیم الدین اور راغب الدین آئےہیں،جو بڑے بڑے کارنامے اکثر انجام دیا کرتے ہیں اورایوان اردو وامنگ کو بھی بروقت شائقین تک پہنچاتے ہیں۔اس پر مستزاد پروفیسر اخترالواسع کی گونا گوں شخصیت ہے کہ اردو اکادمی کے تمام پروگرام بخیر وخوبی کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ اس سال اکادمی نے مشاعرہ جشن جمہوریت، نئے پرانے چراغ اور اردو وراثت میلہ بھی پورے جوش وخروش کے ساتھ منعقد کیا۔ نئے پرانے چراغ میں کئی نئے چہرے لائے گئے اور پرانے چہرے تو خیر اکادمی میںآتے ہی رہتے ہیں۔اردو اكادمی كا سالانه ایوارڈ بھی دیا گیا۔اردواكادمی نے واقعات دارالحكومت كا نیاایڈیشن شائع كیا۔اردواكادمی كی جانب سے منعقد اس بار كا ڈرامه فیسٹول بھی منٹو كے نام منسوب هوا ،جس میں بلاتفریق مذهب وملت عوام نے دلچسپی لی اور منٹو كے افسانوں پر مشتمل ڈرامے سے محظوظ هوئے ۔اردو اکادمی کے اشتراک سے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں’ ابن صفی: شخصیت اور فن‘ کے موضوع پر سہ روزہ سمینار منعقد هوا۔ ابن صفی پر غالباًپہلی بار اتنا اہم اور سنجیدہ پروگرام کیا گیا۔ اس کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردوشاعری میں ہندوستانی تہذیب وثقافت پر بھی سہ روزہ قومی سمینار کیا گیا۔ جامعہ کی قیادت میںٹیگور پر بھی اہم کام ہورہا ہے۔ ایک کتاب ’ٹیگور: فن اور شخصیت‘ موجودہ صدر شعبۂ اردو پروفیسر خالد محمود اور پروفیسر شہزاد انجم کی ترتیب میں چھپ کر شائع ہوچکی ہے۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تمام مواقع پر اہم پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اس دنیا کے علاوہ دوسری دنیا کے لوگوں کو ان کی سرگرمیاں کم ہی معلوم ہوتی ہیں۔ چونکہ وہاں اساتذہ کے ساتھ ساتھ طلبہ وطالبات بھی قلندرانہ اوصاف سے متصف ہیں۔ اس بار غالب کی فارسی شاعری پر تقی عابدی نے فیض میموریل لکچر دیا۔ کبیر میموریل لکچر میں جسٹس راجندر سچر ، کلدیپ نیر اوربی بی سی لندن اردو سروس سے یاور عباس شریک ہوئے۔ آل انڈیا ریڈیو کی جانب سے میر تقی میر اور غالب کا موازنہ بھی جے این یو میں ہوا، جس میں پروفیسر ابن کنول، پروفیسر انور پاشا اور ڈاکٹر احمد محفوظ شریک تھے۔

دہلی یونیورسٹی ادبا ودانشور ان کی تعزیت تو کرتی ہی رہتی ہے، جتنے ادبا کا انتقال ہوا ان کی تعزیت کے لیے جلسے منعقد ہوئے۔ اقبال ڈے پر یک روزہ سمینار منعقد کیا گیا۔ ڈاکٹر محمد کاظم كے ٹیگور، منٹو اور فیض کے ڈراموں پر اہم مضامین شائع ہوئے۔ ان کی ایک کتاب یوگ راج کی کہانیاں اور داستان گوئی کا ہندی ورژن راج کمل سے شائع ہوا۔

اس بار اردو والوں کو کئی اہم ایوارڈز بھی ملے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کو پاکستان کاستارۂ امتیاز ملا۔ ہندوستان میںانہیں خوب خوب مبارکبادیاں دی گئیں۔ اسی سال پروفیسر نارنگ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس بھی ہوئے۔ شموئل احمد کو قطر میں ایوارڈ ملا۔ ساہتیہ اکادمی نے غرفۂ غیب: کرشن کمار طور، بابر کی اولاد (اردو ترجمہ) اطہر فاروقی، معانی مضمون:غضنفر اقبال اور ساہتیہ کا ادب اطفال ایوارڈ جیسے کو تیسا:مناظر عاشق ہرگانوی کو ملا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ نے پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر آذرمی دخت صفوی، کرشن کمار طور، پروفیسر محمدذاکر، پروفیسر نورالعین علی اور موجودہ عہد کے میر پروفیسر کلیم احمد عاجز ؔکو اپنے بین الاقوامی غالب سمینار میں ایوارڈ پیش کیا۔ غالب سمینار بہت ہی کامیاب رہا۔ اس سمینار کے ایک سیشن کو پروفیسر احتشام حسین کے لیے خاص کیاگیا۔ شعبہ اردو الٰہ آباد یونیورسٹی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون سے پروفیسر احتشام حسین اور ان کا عہد کے موضوع پر سہ روزہ سمینار منعقد ہوا۔ سمینار کا کلیدی خطبہ پدم شری پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی نے پیش کیا۔

قومی کونسل برائےفروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹر خواجہ اکرام ہوئے اور آتے ہی انہوں نے کئی اہم فیصلے کیے ،جن پر کام ہورہا ہے۔ این سی پی یو ایل کی جانب سے ہر سال کی طرح اس سال بھی سمیناروں اور جلسوں کوتعاون کیا گیا ۔ کئی اہم کتابیں بھی اس کے تعاون سے شائع ہوئیں۔ اردو میڈیا ایک اہم کتاب آئی، جس کا مطالعہ اردو والوں کے لیے سودمند ثابت ہوگا۔ اس سے نصابی ضرورت بھی پوری ہوگی۔ممبئی میں ساجد رشید پر دوروزه سمینار كیاگیا۔

اس سال اردوپبلی کیشنز نےبہت اچھے اچھے ٹائٹل اورخوبصورت کتابت وطباعت کے ساتھ کتابیں شائع کیں۔ان میں سب سے زیادہ مبارک باد کےمستحق عرشیہ پبلی کیشنز،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس اورایم آرپبلی کیشنزہیں ۔ سمیناروں اورسمپوزیمس میں نوجوانوں کی تعداد اطمینان بخش رہی ۔حالاں کہ اس میںمزید اضافہ کی ضرورت ہے ۔اردوشعرا،ادبا،ناقدین اورمحققین کی خدمات اورجاں فشانیوں کو سراہا گیا۔ اردو اکادمیز اور دیگر اردواداروں نے اپنی بہتر نمائندگی درج کرائی ۔
noorain ali haque
About the Author: noorain ali haque Read More Articles by noorain ali haque: 6 Articles with 8818 views apne andar ki talkhian bikherna aur kaghaz siyah karne ka shaoq hai.. View More