اس میں کوئی شک نہیں ڈرامے اور
فلمیں کسی بھی معاشرے کے اس دور کی عکاسی کر تی ہیں جس میں وہ فلم بندہوتی
ہیں۔جمہوریہ ترکی کا کل رقبے کا صرف تین فی صد براعظم یورپ میں واقع ہے
۔1963ء سے شروع ہونے والی یورپی اتحاد میں شامل ہونے والی درخواستوں کوبار
بار مسترد کرنے کے بعد 2005ء میں یورپی اتحاد نے رکنیت کے لئے موزوں قرار
دیا ہے۔ مگران کے حالیہ ڈراموں کی ڈبنگ شدہ صورت حال دیکھ کر یہ محسوس ہوتا
ہے کہ ان کا یہ تین فی صد سو فی صد پر حاوی ہو چکا ہے۔
پاکستان میں بیرونی ثقافتی یلغار کے وار نئے نہیں پاکستان کو روز اول سے ہی
اس محاذ پر کسی پل چین نہیں آیا۔پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش1954ء تک
آزادی کے ساتھ ہوتی رہی۔اس کے بعد فلم کے بدلے فلم کا معاہدہ ہوا جو کہ
1965 ء کی جنگ تک چلا۔1965ء کی جنگ سے پہلے تک ہمارے شوقین بابے امرتسر اور
ان کے شوقین بابے لاہور کے سنیما میں فلم دیکھنے آتے جاتے رہے۔فلموں کی
بندش کے بعد یہ ثقافتی یلغار ٹی وی کی صوت میں سامنے تھی۔بے قابو لہریں ملک
کے طول عرض میں شتر بے مہار کی طرح لہرا رہی رہی تھیں۔جن کی ’’گچی‘‘مروڑنے
کی کی کوشش کی گئی اور اس میں کافی حدتک کام یابی بھی ہوئی مگر جب بھی موسم
رنگین ہوتا یہ لہریں بے قابو ہو جاتیں۔ٹی وی انٹینا کا اونچاؤ اور پھیلاؤ
ان لہروں کو اپنی طرف راغب کرنے میں ضرور کام یاب ہوتا۔
انڈیا کی فلمیں اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے دونوں جانب مقبول تھے ہمارے
’’وارث‘‘نے ان کے بازار ضرور سنسان کر دیئے۔مگر معاشی طور پر ان سے کوئی
فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ انڈیا کی پرانی نسل شائد کسی پاکستانی فلم یا
فنکار کو پسند کرتی ہو ۔جبکہ پاکستان کی نئی اور پرانی نسل میں دونوں انڈیا
کے گانوں اور فلموں کے دل دادہ ہیں۔اور ان میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آ
رہا ہے۔
جب پاکستان ٹیلی ویژن نے بدیسی ڈرامے کو اپنی سکرین پر متعارف کروایا۔تو یہ
پاکستان کی ثقافت پر ایک بڑا حملہ تھا مگر اس حملے نے کسی قسم کا کوئی
نقصان نہیں کیا۔کاؤ بوائے قسم کے لوگوں کے قسط وار ڈرامے جو کہ پردے کے
مقابلے میں ہم سے بھی شائد کافی قدم آگے تھے۔ہر قسط میں ان بے چاروں کے
حصول رزق کے لئے ان تھک محنت اور کوئی نہ کوئی آفت ان کی منتظر ہوتی۔ان بے
چاروں کو کہاں محبت جیسی عیاشی کے لئے وقت ملتا۔سکس ملین ڈالر مین جیسے
سیریل جو بچوں میں یوں مقبول ہوئے کہ سمجھ نہ آنے کے باوجود ہر لڑکا دوسرے
دن سکول میں سکس ملین ڈالر مین کی کہانی اپنے ہی الفاط میں بیان کرتا جتنے
لڑکے اتنی ہی کہانیاں اور ڈائیلاگ اور سکس ملین ڈالر مین کے انداز میں ہو
بہو پر فارمنس۔اس کے علاوہ بہت سے انگلش ڈرامے پیش کئے جاتے جن کو گھر کی
خواتین کو دیکھنے کی اجازت نہیں تھی ۔البتہ بابے اور زیر تعلیم نوجوان اپنی
ہی انگلش میں اپنے بابے کو اس کا ترجمہ ساتھ ساتھ سناتے رہتے۔اور بابے اس
بات پر خوش رہتے کہ کاکا انگلش پر حاوی ہو رہاہے۔وقت کے ساتھ ساتھ انگلش
فلمیں تھوڑی سی ’’اوور ‘‘ ہوئیں مگر چونکہ وقت کے اعتبار سے گھر کی خواتین
یا بچوں کو ان تک رسائی نہیں تھی اس لئے ذیادہ ’’بھگدڑ‘‘ نہیں مچی۔کسی دور
میں لیٹ نائٹ نشریات کے دوران ایک انگلش فلم میں بوسہ کا سین آن ائیر چلا
گیا جس پر بہت لے دے ہوئی ۔پی ٹی وی حکام کی طرف سے یقین دہانی کروائی گئی
کہ اس میں ’’ملوث‘‘شخص کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔سزا کی تفصیلات تو
سامنے نہیں آ سکیں البتہ ’’باباجی‘‘ کو یقین ہے کہ وہ شخص کسی نجی چینل میں
کم از کم جنرل مینجر ضرور ہو گا۔
انڈیا ہمارے دو قومی نطریئے پر تابڑ توڑ حملہ کرنے سے باز نہیں آتا۔مگر آج
ہمارے گھروں میں انڈیا کی ثقافتی یلغار کچھ اس انداز سے ہوئی ہے کہ ہمارا
’’رحمان بابا‘‘بھی ہاتھ جوڑ کر ان سے بنتی کرتا ہے ۔اور اسے اپنے اللہ پر
وشواس بھی ہے۔دادی کی فوتگی پر بچی پوچھتی ہے پاپا ہم دادی اماں کی چتا کو
آ گ کب لگائیں گے۔اپنی شادی بیاہ کی رسموں میں چھیاسٹھ سال سے الگ ہونے کے
باوجود ان کا اثر زائل نہیں کر سکے۔بلکہ ان کے پھیلاؤ میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
میں عموماً ’’ممنوع‘‘ چیزیں نہیں دیکھتا اس لئے’’عشق ممنوع ‘‘ نہیں دیکھ
سکا۔مگر جب ’’عشق ممنوع نہ رہا ‘‘تو پھراس کو دیکھنا میری مجبوری بن
گیا۔اگر یہ ڈرامہ ڈب نہ ہوا ہوتا تو شائد کوئی اسے ترکی کا ڈرامہ تسلیم ہی
نہ کر تا۔اسے یورپ سے دراآمد شدہ ڈرامہ ہی سمجھا جاتا۔دادی کا کردار ایک
ایسا کردار ہے ۔جس کے سکارف سے اسکے اسلامی ہونے کا تاثر ابھرتا ہے۔کہانی
وہی گھسی پٹی پاکستانی ہی محسوس ہوتی ہے۔خلیل کا کردار ہمارے کسی بھی آوارہ
دیہاتی ’’خیلو ‘‘ کے کردار سے کم نہیں ۔مناہل اور وینا ملک میں کوئی فرق
نہیں۔وہی خاندانی مسائل ،ویسی ہی خاندانی لڑائیاں۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے
کسی پاکستانی کہانی کو یورپین سٹائل میں فلمایا گیا ہو۔اب تک دیکھے جانے
والے اقساط کے حوالے سے میرے خود کے سنسر کئے گئے’’پوز‘‘ کی تعداد سینکڑوں
میں پہنچ چکی ہے۔نہ جانے ان پروگرام کے حوالے سے پیمرا اور سنسر بورڈ کی
پالسی کیوں نرم ہے۔اس ڈرامے کو دن میں پانچ بار دکھایا جا رہا ہے۔اور شائد
شمار میں اس کو ایک گھنٹہ ہی کیا جائے۔
ایران میں’’ مکدونلڈ ‘‘کھلنے کے لئے بات چلی تو ایران کے طرف سے مطالبہ کیا
گیا کہ جتنے ’’مکڈونلڈ‘‘ ایران میں کھلیں گے اسی تعداد میں ایران کے
ریسٹورنٹ امریکہ میں بھی کھولے جائیں گے۔کیا پاکستانی ڈرامہ،پاکستانی فلم
اس قابل نہیں کہ ہم ایک کے بدلے میں ایک کے معاہدے کر سکیں۔بات صرف حب
الوطنی کی ہے ۔کیا باقی سب ڈرامے حلال ہے اور ایک پاکستان کے ڈرامے ہی حرام
ہیں۔کہ جو کسی بھی ملک میں ان کے اپنے چینل پر چلنے کے قابل نہیں۔
ہماری قوت سماعت پر الفاظ اثر نہیں کر سکتے جب تک ہم ان کے مافی ضمیر تک نہ
پہنچ پائیں۔مگر اب شائد بچت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ’’ڈبنگ ‘‘ جو میری
ناقص رائے میں ہنسی مذاق کے لئے فاروق قیصر صاحب کے ’’حشر نشر‘‘ کی صورت
میں سامنے آئی تھی۔اب لمحہ فکریہ بن چکی ہے۔ ہم فلم انڈسڑی تو گنوا ہی چکے
ہیں۔اب یہی ڈبنگ خدا نہ کرئے اس ملک کی ڈرامہ انڈسڑی کے لئے تابوت کی آخری
کیل ثابت ہو۔ |