پاکستان میں میڈیا کو فحاشی
پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے پچھلے کالم میں کچھ
عرض کیا تھا، لیکن امریکا میں پچھلے ہفتے ہونے والے سانحہ سے یہ خیال ہوا
کہ میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے بھیانک اثرات اس سے زیادہ ہمہ گیر
ہیں، جتنا ہم سوچتے ہیں۔امریکا جس نے تمام اقسام کے میڈیا کو نہ صرف بے حد
ترقی دیبلکہ اس کے دور رس اثرات کو سمجھتے ہوئے گویا اس کو ایک قسم کے
انتہائی پر اثر ہتھیار میں تبدیل کر دیا۔وہ ہتھیار جس کے ذریعے کروڑوں بلکہ
اربوں انسانوں کی مخصوص ذہن سازی کر کے اپنا مطلب بخوبی نکال لیا جاتا ہے،
اور وہ اربوں انسان اس ذہنی افیون کے اثرات اس طرح قبول کرتے ہیں کہ بے
انتہاظلم دیکھتے ہوئے بھی خاموش تو کیا رہتے ، اس کے برعکس مظلوم کو ظالم
سمجھ لیتے ہیں،یوںاس میڈیا نے بلامبالغہ بموں اور میزائلوں سے زیادہ ہلاکت
پھیلائی ۔ عراق میں مبینہ ہتھیاروں کا جھوٹا دعویٰ ہو یا افغانستان میں
طالبان کے عوام پر فرضی ظلم کے قصے، پاکستانی ایٹم بم کا دہشت گردوں کے
ہاتھوں میں جانے کا واویلا ہو یا سوات میں لڑکی پر کوڑے مارنے کی جھوٹی
ویڈیو.... یہ سب اسی میڈیا کی کارستانی ہے جس نے صبح شام جھوٹ کی کاشت کی
اور اپنے مذموم مقاصد میںاسحد تک کامیاب ہو گئے کہ سچ ، سچ ہوتے ہوئے بھی
دفاعی پوزیشن پر آگیا۔
معاشرہ پر اثر انگیزی کے حوالے سے فلم سب سے پراثرمیڈیا ہے ۔فلم کا اثر
ناظرین پر بہت جلد اور گہرا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے سیاسی مقاصد کے
حصول کے لیے حکومتوں نے فلمکےمیڈیا کوبھی بھرپور استعمال کیا۔ خصوصاً
امریکانے ہالی ووڈ کے ذریعے اپنے نظریات مثلاً نیوورلڈ آرڈراور اپنی ثقافت
کو پوری دنیا پر مسلط کیا۔مثال کے طور پرروسیوں کے خلاف جہادِ افغانستان سے
چونکہ امریکیوں کا مفاد بھی وابستہ تھا، اس لیے اس نے اس وقتکی مقبول ترین
فلم سیریز کے کردار”ریمبو“ کو ایک فلم میں جہاد افغانستان کا ہیرو بنا کر
پوری دنیا کو اپنے مقصد سے ہم آہنگ کر لیا۔اسی طرح یہودیوں نے بھیہٹلر کو
دنیاکا ظالم ترین آدمی باور کرانے اور اپنے اوپر ڈھائے جانے والے فرضی ظلم
کی داستان ’ہولوکاسٹ‘ کو عالمگیر طور پر منوانے کے لیے پرنٹ میڈیا کو
استعمال کیا اور اس میں جان ڈالی فلم کے ذریعے سے۔ جب یورپ میں ناظرین ہولو
کاسٹ پر بننے والی فلموں کو دیکھ کر سینما سے باہر آتے تو ان کے چہرے
آنسوؤں سے بھیگے ہوئے ہوتے اور ان کے د ل میں یہود کی مظلومیت کا نقشہ اچھی
طرح جم چکا ہوتا۔
اس کے علاوہ بھی سنیما نے گزشتہ چار دہائیوں میں نفرت ،بدلہ ،طاقت کے زور
پر کچھ بھی کر لینے کا تصور ،اسمگلنگ اورمنشیات مافیا کی طاقت، عریانیت،
فحاشی، ذو معنی جملے،گالی گلوچ اور بیہودہ مکالموں تک کا سفرطے کرکے پوری
دنیا کی تین نسلوں کو متاثر کیا اور ان کی اخلاقیات کو تباہ کر دیا۔جرائم
پربننے والی فلمیں جرائم کی بیخ کنی کی بجائے جرائم کی نرسری بن گئیں۔
نوجوانوںنے ان فلموں سے عصمت دری ،قتل ،تاوان اور اغوا کے نت نئے طریقے
سیکھے۔ انہوں نے ان فلموں سے انسپائر ہو کر جلد دولت مند بننے کے لیے ڈکیتی
،چوری ،دن دہاڑے قتل اور لوٹ مار کو اپنا مقصد زندگی بنایا ۔اسی طرح عشق
محبت کے نام پر بننے والی ہوسناک فلموں نے جوان لڑکیوں اور لڑکوں کو آوارگی
،عیاشی ،عیش کوشی ،عصمت فروخت کرنے اورعزت لوٹنے کی جانب راغب کیا ، جس کے
نتیجہ میں آج صرف امریکا میں ہر منٹ میں اوسطاً تینخواتین عصمت فروخت کرتی
ہیں جبکہ اس سے زائد کے ساتھ زنا بالجبر کیا جاتا ہے ۔
سینما کی شرانگیزی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سینمادماغ پر افیون جیسا اثر
کرتا ہے۔اور اس کے اسی غیر معمولی تاثر کی وجہ سے تشدد ، ڈکیتی ، عصمت
دری،خودکشی اور قتل وغارت یہ سب جرائم اتنے پرکشش ہو جاتے ہیں کہ پھر
کچےذہن کے نوجوان حقیقی زندگی میں اس کی نقل کرنے لگتے ہیں، یوں
جیمزبانڈجیسے قاتل اور عیش پرست کردار کو اپنا ہیرو سمجھنے والے نوجوان
المیوں کو جنم دیتے ہیں۔
ایسے ہی المیے پچھلے دو سالوں سے تواتر کے ساتھ امریکا میں جنم لے رہے ہیں۔
دوسروں کے آشیانوں کو پھونک کر تماشا دیکھنے والے خود اپنے ہی ہتھیار کا
شکار ہو گئے ہیں۔جی ہاںامریکا میںکسی عام شہری کی طرف سے فلمی تشدد و قتل
وغارت سے متاثر ہو کر عوامی مقامات پر فائرنگ کرکے معصوم لوگوں کی جان لینے
کے گزشتہ دو سال میں دس بڑے واقعات ہوئے ہیں۔قابلعبرت بات یہ ہے کہ اس طرح
کے سب سے زیادہ واقعات تعلیمی اداروں میں ہوئے اوراس قتل و غارت کے ذمہ دار
قاتل تقریباً سب ہی نوجوان اورطالب علم تھے۔ سب سے بڑا واقعہ 2007ءمیں ہوا،
جب ورجینیا ٹیک یونیورسٹی میں ایک ۳۲ سالہ طالب علم نے اندھا دھند فائرنگ
کر کے بتیس طلبا وا ساتذہ کی جان لے لی تھی۔اس واقعہ کے بعدتو لائن لگ گئی۔
امریکی نوجوانوں کو قتل وغارت کا یہ طریقہ کارایسا بھایاکہ پانچ سالوں میں
بارہ ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں تعلیمی اداروں میں معصوم بچوں کو بے
دریغ گولیوں سے بھون دیا گیا۔
تازہ سانحہ ۴۱دسمبر بروزجمعہ کو امریکی ریاست کنیٹی کٹ میں ایک پرائمری
سینڈی ہک سکول میں پیش آیا،جہاں زیر تعلیم بچوں کی عمریں پانچ اور دس برس
کے درمیان تھیں۔ اس دن اسی اسکول کے سابقہ طالب علم بیس سالہ ایڈم لانزا کی
وحشیانہ فائرنگ کے نتیجے میں بیس بچوں سمیت چھبیس افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ
کسی بھی امریکی ا سکول یا یونیورسٹی میں ورجینیا سانحہ کے بعد دوسری بدترین
ہلاکت ہے۔درندگی کے اس واقعے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی پوسٹ مارٹم کی
رپورٹ سے یہ معلوم ہوا کہ یہ بچے جنگی اسلحے کا نشانہ بنے ہیں۔
جمعے کوہونے والے واقعہ سے پہلے ماہ جولائی میں امریکی ریاست کولوراڈو کے
شہر ڈینور میں ایک سینما کے باہربھی کچھ منظر فلموں جیسا ہی بن گیاتھا ، جب
فلم بیٹ مین کے پریمیئر شو سے پہلے چوبیس سالہ نوجوان نے(جس نے فلم بیٹ مین
کے ولن کا ماسک پہن رکھا تھا)فلم بینوں پر اندھا دھند گولیاں برسا کر بارہ
افراد کو ہلاک اور پچاس کو زخمی کردیاتھا۔
ماہرین کے مطابق ان سارے واقعات میں ہونے والی قتل وغارت کا مقصد صرف اپنی
وحشی ذہنیت کو تسکین پہنچانا تھا۔ فلم کے ہیرو اور ولن کی طرح اسلحے کے زور
پر طاقت کا مظاہرہ اور بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی مہمیز انہیں
ایکشن فلموں سے ہی ملی تھی۔ کولوریڈو والا واقعہ تو خاص طور پر اس کی
نشاندہی کرتا ہے کہ اس میں قاتل نے ولن کا ماسک پہن رکھا تھا۔
سانحہ سینڈی ہک اسکول کے بعد امریکا میں وائٹ ہاؤس سمیت تمام سرکاری عمارات
پر قومی پرچم سرنگوں کر دیا گیا۔ اور باراک اوباما نے آنسو بہاتے ہوئے کہا
کہ ان کا دل اتنا ہی دکھی ہے کہ جتنا متاثرہ بچوں کے والدین ہوں گے۔
اے کاش! وہ اور ان کے پیش روان لاکھوں بچوں کے والدین کا دکھ بھی محسوس کر
لیتے جو ان کی میڈیا وار کے نتیجے میں عراق میں اور پھر بعد ازاں افغانستان
میں ہلاک ہوئے۔ اے کاش! وہ ان فلسطینیوں بچوں کا بھی غم کھا لیتے جو انہی
کے سرپرستی میں وحشی اسرائیل کی درندگی کا شکار ہوتے ہیں....
مکافات عمل کا عالمگیر قانون ِ قدرت حرکت میں آ گیاہے اورشاید اپنے ہی
میڈیا گزیدہ نوجوانوں کے ہاتھوں اپنے معصوم بچوں کا قتل عام ہی اُن کواس
بات کا احساس دلا دے کہ دوسروں کے گھروں کو آگ لگانے والے کا اپنا گھر بھی
جلتے دیر نہیں لگتی۔ |