پروفیسر اور پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری

ایک آدھ اطلاع ہو تو خبر اور اگر بہت سی اطلاعات ہوں تو خبریں۔ دنیا کی تیز رفتاری نے خبروں کی ترسیل بھی بہت تیز کر دی ہے۔ لمحہ لمحہ کوئی نہ کوئی خبر آتی رہتی ہے۔ مجھے مغرب سے کبھی مشرق سے کبھی شمال سے اور کبھی جنوب سے۔ خبر ہو یا خبریں۔ انگریزی میں ان کے لیے News کا لفظ ہے۔ ایک بھی Newsاور بہت سی بھی نیوز۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ New کی جمع ہے مگر ایسا نہیں خبریں چونکہ ہر جانب سے آتی ہیں اس لیے نارتھ ، ایسٹ ، ویسٹ اورساﺅتھ کے ابتدائی لفظوں کو جوڑ کر آنے والی اطلاعات کو نیوز کا نام دیا گیا ہے۔

اس ہفتے کی تمام خبروں میں چاہے وہ کسی سمت سے آئی ہوں۔ مفکر اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر طاہر القادری چھائے رہے۔ بلکہ خبریں کیا ۔ سیاسی محفلوں میں بھی فقط ان ہی کا تذکرہ رہا۔ پانچ سال کینیڈا جیسے ٹھنڈے ملک میں رہنے کے بعد اُمید تھی کہ اُن کے مزاج میں ٹھنڈ سما گئی ہو گی مگر انہوں نے آتے ہی گرما گرم تقریر سے ماحول کو بھی گرما دیا ہے۔ وہ سیاست نہیں ریاست بچانے آئے ہیں۔ میں ریاست اور سیاست دونوں بچانے کا متمنی ہوں۔ اس لیے ہر شکاری کے دام میں آجاتا ہوں۔ جناب عمران خان اور محترم طاہر القادری صاحب کے بعد کسی اور کی بھی آنکھ کھل گئی تو لبیک۔ آج مگر فکر صرف اور صرف 14جنوری کی ہے۔ خواہش ہے کہ انقلاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں بلکہ فخر سے کہہ سکوں کہ اُس انقلاب کی راہ میں جو لوگ شریک سفر تھے میں بھی اُن میں سے ایک ہوں۔ اللہ کرے لیڈروں کی آنکھ کھلتی رہے۔ عوام کا شعور بیدار ہوتا رہے تو امید ہے اس ملک کا مقدر بھی جلد سنور جائے گا۔

جناب شہباز شریف میڑو بس پر کام کر رہے ہیں۔ کام زور و شور سے جاری ہے۔ سنا ہے جلد بس چل پڑے گی۔ ویسے اس ملک میں بہت سی چیزوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ یہاں رکی ہوئی چیزوں کی بہتات ہے۔ ویسے جہاں بس رکتی ہے وہ بس سٹیشن ہوتا ہے۔ جہاں ٹرین رکتی ہے وہ ٹرین سٹیشن ہوتا ہے۔ ہمارے دفتروں میں جدت آگئی ہے۔ ہم نے ورک سٹیشن (Work Station) بنا دیئے ہیں۔ یقینا کام کو رکنا تھا۔ گلا کس بات کا ۔ ویسے یہ بھی نہیں کہ ہر کام رک گیا ہے کچھ کام چلتے رہتے ہیں اس لیے کہ اُن کاموں کو پہیے لگے ہوتے ہیں اور پہیے لگانا بھی ایک فن ہے۔ جو ہر بندہ نہیں جانتا اور جو جانتا ہے اُس کا کام ہو جاتا ہے۔

چین میں سٹیشن کو زن کہتے ہیں۔ فیوجی زن۔ جہاز کا سٹیشن۔ ہوچے زن۔ ریل کا سٹیشن۔ پاسے زن۔ بس کا سٹیشن۔ وہاں زن کا کام روکنا ہے۔ ہمارے ہاں زن درمیان میں آجائے تو کام تیز ہو جاتا ہے۔ کام کیا جھگڑے بھی تیز ہوجاتے ہیں۔ بلکہ ہرچیز میں تیزی آجاتی ہے کہتے ہیں کہ مرد کی کامیابی میں اُس کی اپنی زن کا ہاتھ ہوتا ہے اور ناکامی میں کسی ہمسائے کی زن کا۔

ایک نوجوان کی شادی ہوئی تو بمعہ زن دعا کے لیے کسی راہب کے پاس گیا۔ راہب نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔ اُس کی بیگم کو گلے لگایا۔کچھ دعائیں کی پھر اُس کی بیگم کو گلے لگایا۔ چند باتیں کرنے کے بعد پھر یہی عمل دھرایا اور ہدایت کی کہ بیٹا تمہاری بیگم کو ایسے ہی پیار کی روزانہ ضرورت ہے۔ اس کا خیال رکھنا نوجوان نے جواب دیا۔ معذرت خواہ ہوں روز کا وعدہ نہیں کر سکتا مجھے چھٹی صرف اتوار کو ہوتی ہے۔

جناب طاہر القادری اس ملک کے نظام کو بدلنا چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ نظام ایسا ہو کہ غریب آدمی جو درحقیقت مسائل کا شکار ہے ، بھی اسمبلی تک پہنچ پائے اُس کی آواز بھی سنی جائے۔مگر اپنی آواز سنانے کے لیے انہوں نے کڑوروں خرچ دیئے ہیں۔ وہ کہاں سے آئے کچھ پتہ نہیں۔ البتہ انہوں نے بتایا کہ اُن کے ورکروں نے اپنی موٹر سائیکلیں ، اپنی گاڑیاں اور اپنے گھر بیچ کر اس جلسے کا سامان کیا ہے۔ میرے دو تین شاگرد اُن کے شیدائی ہیں۔ بیچارے ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکلوں پر یونیورسٹی آتے تھے۔ انہوں نے بھی اگر قربانی دے دی ہو تو میں اُن سے ہمدردی ہی کر سکتا ہوں۔ قادری صاحب تو کینیڈا واپس چلے جائیں گے۔ جہاں بہترین گاڑیاں اُن کی منتظر ہوں گی مگر یہ بیچارے۔۔۔ لیکن قربانی اسی کو کہتے ہیں اور جذبہ سچ ہو تو پھر کچھ سوچنا غلط ہوتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری ڈاکٹر بھی ہیں اور پروفیسر بھی۔ یہ دونوں کام بہت مشکل ہیں۔ مگر آج سے ایک دہائی پہلے تک ڈاکٹری کرنا بہت آسان، کہیں سے مقالہ مل گیا اپنے نام سے چھپوا لیا۔ ڈاکٹر ہو گئے۔ جب سے کمپیوٹر نے سارے راز اگلنے شروع کیے اب یہ کام مشکل ہو گیا ہے۔ یونیورسٹیاں بھی محتاط ہو گئی ہیں۔ پروفیسری کل تک بہت مشکل عہدہ تھا۔ آج آسان ہو گیا ہے۔ ایک چھوٹے سے کالج جانے کا اتفاق ہوا۔ پرنسپل صاحب نے کمرے کے باہر لکھا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر ۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ بھائی تم نے ایف اے کے بعد یہ کالج کھول لیا تھا۔ پروفیسر اور ڈاکٹر کیسے ہو گئے۔ کہنے لگے۔ ہومیو پیتھی کا کورس کر لیا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر ہوں اور یہاں پڑھاتے پڑھاتے اتنا تجربہ ہو گیا ہے کہ ایم اے اور بی اے کی کلاس بھی بھگتا لیتا ہوں۔ بیسیوں پروفیسر ماتحت کام کرتے ہیں تو میں پروفیسر کیوں نہ لکھوں۔ ویسے بھائی میری حقیقت صرف تمہیں پتہ ہے۔ مہربانی کر کے کسی کو بتانا نہیں ۔ میں کیوں بتاﺅں گا کہ ایسے پروفیسروں سے پڑھ کر پوری قوم کافی بھگت رہی ہے۔

پنجاب کے ایک چیف منسٹر کو ایک عالم ملے تو جو فخر سے خود کو پروفیسر کہتے ہیں تو چیف منسٹر صاحب نے پوچھا کہ جناب آپ پروفیسر کب سے ہو گئے۔ کہنے لگے کچھ دن یونیورسٹی میں پڑھایا ہے اس لیے پروفیسر لکھتا ہوں ۔ چیف منسٹر صاحب نے جواب دیا کہ یونیورسٹی کا ایک وفد کل مجھے ملا تھا کہ 20, 20سال نوکری کرنے کے باوجود ہم ایسوسی ایٹ پروفیسر نہیں ہو سکے۔ آپ چند سال میں پورے پروفیسر کیسے ہو گئے ۔۔۔۔ پورا پروفیسر ہونے کے لیے تو فقط ایک ہی شارٹ کٹ ہے۔ طوطا پال لیں یا فال نکالنا سیکھ لیں اور پھر ۔۔۔۔ ویسے پورے قوم اب ایسے ہی پروفیسروں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500279 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More