مہمان نوازی اور غریب پروری تو
پاکستانیوں میں کوٹ کوٹ کر بھری (گئی) ہے۔ خوشیاں اور آسانیاں تو خیر ہیں
ہی گلے لگائے جانے کے قابل، اگر کوئی غم یا مشکل بھی آئے تو ہم بخوشی گلے
سے لگا لیتے ہیں۔ اور اگر نہ آسکے تو ہم خود اُس تک پہنچ جاتے ہیں! ذرا اِس
تصویر کو غور سے دیکھیے کہ خاتون کھلے نالے پر کِس قدر انہماک مچھلیوں کو
مسالا لگاکر سُکھانے میں مصروف ہیں۔ آپ سوچیں گے وہ مچھلیاں سُکھانے کے لیے
نالے کی مُنڈیر تک کیوں گئیں؟ سیدھی سی بات ہے، نالا تو چل کر اُن تک نہیں
پہنچ سکتا تھا نا! آلودگی اِتنی بڑھ گئی ہے کہ اب کیڑے مکوڑوں اور جراثیم
میں اِتنا دم نہیں رہا کہ کہیں آ، جاسکیں۔ ایسے میں غریب پروری کا تقاضا ہے
کہ ہم ”بقلم خود“ اُن تک پہنچیں! یعنی
تیرے در پر صنم چلے آئے
تو نہ آیا تو ہم چلے آئے!
|
|
دُنیا والے یہ سمجھتے ہیں کہ صفائی کے بہتر انتظام سے صحت بنی رہتی ہے اور
زندگی بہتر گزرتی ہے۔ سچ پوچھیے تو ایسی ایسی سوچ پر ہمیں تو ہنسی آتی ہے۔
اب کوئی ذرا اہل جہاں سے پوچھے کہ کھلے نالوں اور غلاظتوں کے انبار کے ساتھ
ہم جو زندہ ہیں تو یہ کیا کِسی معجزے سے کم ہے! کیا ہم کِسی اور دُنیا کی
مخلوق ہیں؟
آپ سوچیں گے غلاظت سے بھرے کھلے نالے پر مچھلیاں سُکھانے کی کیا منطق ہے؟
ارے صاحب! لوہا لوہے کو کاٹتا ہے! شاید آپ نے ریاضی نہیں پڑھی۔ منفی کو
منفی میں جمع کیجیے تو مثبت میں ہو جاتا ہے۔ انتہائی مُتعفّن نالے کی
مُنڈیر پر انتہائی بدبو دار مچھلیاں سُکھائی جائیں تو نتیجہ انتہائی
خوشبودار منافع کی صورت میں برآمد ہوتا ہے!
نالوں کو صاف کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اُنہیں کھلا رکھا جائے تاکہ
بدبو خود ہی اُڑ جائے اور گندا پانی عمل تبخیر کی نذر ہو! کچھ ہی دنوں میں
نالے میں پڑا ہوا سب کچھ اُسی طرح سُوکھ جاتا ہے جس طرح ہم اچھے دِنوں کے
انتظار میں سُوکھ گئے ہیں! سُوکھنے سے انکار کرنے والی ڈھیٹ غلاظت کو نکال
کر نالے کی دیوار کے ساتھ ہی سجا دیا جاتا ہے تاکہ سورج کی مہربانی سے دم
توڑے۔ اور پھر کچھ ہی دنوں میں سُوکھ ساکھ کر غلاظت کا بس نام و نشان رہ
جاتا ہے۔ یعنی
اب کہاں اُن کی وفا، یادِ وفا باقی ہے!
آپ سوچیں گے نالے کے کنارے سُکھائی ہوئی مچھلی لوگ ہضم کیسے کرتے ہوں گے؟
آپ سوچتے رہیے۔ نہ کھانے والے سوچتے ہیں نہ مچھلی سوچتی ہے! ہمارا ہاضمے کا
نظام گڑبڑ اور خرابی کی منزل کو بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے! اور صاحب!
کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو؟
مری میں ایک صاحب کی حالت اچانک بگڑ گئی۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کیا۔ معلوم ہوا
موصوف کراچی سے آئے ہیں۔ ڈاکٹر نے فوراً ”بہتر آب و ہوا“ کے لیے کراچی واپس
جانے کا مشورہ دیا۔ اُن کے پھیپھڑے کاربن ڈایوکسائڈ والی ہوا سے مانوس تھے،
مری کی صاف سُتھری ہوا کا بوجھ برداشت نہ کرسکے! موصوف کراچی پہنچے اور رش
آورز میں تبت سینٹر کے سگنل پر کھڑے ہوکر دس پندرہ لمبے لمبے سانس لیے تو
طبیعت ہشّاش بشّاش ہوگئی! کھانے پینے کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ نالے
پر سُکھائی ہوئی مچھلی اور کچرا کنڈی سے متصل مشین سے نکالا ہوا گنّے کا
رَس ہمارے معدے کو راس آچکا ہے! اور حفظان صحت کے اُصول؟ ہا ہا ہا! اُن پر
پھر کبھی بات ہوگی۔ |