طاہر القادری نے پورے زور شور سے
14جنوری کو اسلام آباد میں تحریر سکوائر سجانے کی بات کر رہے ہیں ،روز شام
کو ٹی وی ٹاک شوز اس موضوع پر بات کر رہے ہیں،طاہرالقادری صاحب قرآن اور
رسول کے واسطے دے کر کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی بیرونی یا اندرونی ایجنڈے پر
نہیں ہیں،ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس کے بعد میرا خیال ہے کہ شک کرنے کی
گنجائش نہیں، رہی بات سیاسی جماعتوں اور ٹی ٹاک شوز کی تو وہ چینل چلانے کے
لیے وہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے ،کیونکہ ٹی وی ٹاک شوز کو پیٹ اس طرح ہی
بھرا جاسکتا ہے، اور سیاسی جما عتیں کیوں چاہیں کہ انکی آجاراداری ختم ہو ،اخبارت
میں بھی کافی کچھ لکھا جا رہا ہے ، قصہ مختصر، طاہر القادری صاحب نے تحریر
سکوائر کا نام لے کر اسلام آباد اور پنجاب کے حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا
ہے ، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے حالات پچھلے پانچ سال میں بہت خراب
ہوئے ، میرا خیال ہے کہ انقلاب کی بنیاد پاکستان میں اس دن رکھ دی گئی تھی
جس دن بڑے میاں صاحب نے زرداری صاحب کو قصر صدارت جانے پر کوئی مزاحمت نہ
کرنے کا فیصلہ کیا تھا ، وہ دن اور آج کا دن حالات خراب سے خراب تر ہوتے
جارہے ہیں ،سب سے پہلے بجلی کے بحران کو طویل کرنے کے لیے مخصوص حالات پیدا
کیے گے ، پھر گیس کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا ، پیٹرول جب چاہو غائب جب
چاہو حاضر، فیصل آباد اور کراچی سے انڈسٹری کو غائب کرنے کے لیے پتہ نہیں
کیا کیا پاپڑ اس حکومت نے پیلے ہیں ،بلوچستان میں ایک مسخراٹائپ حکومت کر
رہا ہے اور سندھ والے موصوف بھنگ بڑے شوق سے پیتے ہیں،رہی بات خیبر پختون
خواہ کی تو حد سے زیادہ نالائق، اور پنجاب کے حاکم اللہ کی پناہ ، اسکے بعد
بھی اگر کسی کو انقلاب نظر نہیں آتا تو ، ملک میں بہت بڑے بڑے آئی سپشلسٹ
کس دن کام آئیں گے ، ایک عام پاکستانی شہری ہونے کے ناطے جب میں طاہر
القادری صاحب کی باتیں غور سے سنتا ہوں تو باتیں تو بلکل ٹھیک کر رہے ہیں
پاکستان کا آئین ہر پاکستانی کو کچھ یقین دہانیاں کرواتا ہے ، اس میں ہر
طبقہ شامل ہے ، ایک عام شہری ہونے کا ناطے آئین پاکستان مجھ کو یہ گارنٹی
دیتا ہے کہ میں پاکستان کا شہری ہونے کے ناطے ان ان چیزوں کا حقدار ہوں ،
اسی طرح آئین میں جب درج ہے کہ رکن اسمبلی بننے کے لیے ان ان شرائط کو پورا
کرنا ہو گا ، اگر ان شرائط کو پورا کیے بغیر کوئی بندہ اسمبلی میں جاے گا ،
تو کیسا آئین اور کیسا ملک ، لہذا آئین میں رکن اسمبلی بننے کے لیے جو
معیار درج ہے اسکو سامنے رکھنا ہو گا ، مگر افسوس کی بات ہے کہ ماضی میں اس
معیار کو کبھی کسوٹی سمجھا ہی نہیں گیا ۔ جسکا نتیجہ آج پاکستان اور اسکی
عوام بھگت رہے ہیں ، مگر ان حکمرانوں کو پھر بھی سمجھ نہیں آرہی ، اور یہ
اپنے سمدھیوں کو آگے کر کے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ، مگر یہ عقل کے
اندھے ، یہ حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ پاکستان کے عوام اب نوے کی
دہائی میں نہیں رہ رہے یہ 2013 ہے -
پاکستان میں انقلاب پانچ سال سے دیواروں کو ٹکریں مار رہا ہے مگر اسکا ہاتھ
پکڑنے کو کوئی تیار نہیں ، حالات نے پانچ سال لوگوں کے ذہنوں میں انقلاب کا
لاوا پکا دیا ہے ، بس کسی مناسب شخصیت کا انتظار ہے ، دیکھیں وہ خوش نصیب
کو ن ہوتا ہے ۔رہی بات طاہر القا دری صاحب کی کہ وہ اسلام آباد میں کوئی
انقلاب برپا کس سکتے ہیں کہ نہیں، تو یہ وقت بتاے گا، مگر ایک بات طے ہے کہ
اگر قادری صاحب لاکھ دو لاکھ لوگ لے کر اسلام آباد چلے گے ، اور شاہرہ
دستور تک پہنچ گے ، تو ہوسکتا ہے ، فیصلے عوام کی پارلیمنٹ کرنے لگ جاے
کیونکہ اس نام نہاد جمہوریت نے پانچ سال وہ وہ کام کر دیئے جو کوئی ساٹھ
سال میں نہیں کر سکا ، اسکی چھوٹی سی جھلک یہ ہے ، اس جمہوری حکومت نے آٹا
تیرہ روپے سے بیالیس روپے تک اور پیٹرول پچاس سے ایک سو روپے ، ڈالر ساٹھ
سے سو تک پہنچا دیا ہے ، اب اسکو جو جمہوری حکومت کہے اسکی عقل پر ماتم نہ
کیا جائے تو اور کیا کیا جائے ، بہر حال اگر چودہ جنوری کو قادری صاحب ایک
بار عوام کی پارلیمنٹ لگانے میں کامیاب ہو گے ، تو پاکستان کے عوام کا غصہ
عروج پکڑ سکتا ہے ، پانچ سال سے بجلی کی فراہمی کو ، پٹرول کی بوند بوند کو
، گیس کے ایک ایک کیوبک فٹ کو ،کو ترسی عوام ،اگر باہر نکل آئی ، تو وہ ان
چینی چوروں ، سیاسی مافیا وں ،کارٹلز کے سرکوپوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے
یہ وقت ثابت کرے گا۔کیونکہ ایک بار عوام کی عدالت لگ گئی ، تو یہ عدالت کسی
سے جرم کا ثبوت نہیں مانگے گی، بلکہ یہ عدالت اپنے فیصلہ صادر کرے گی اور
فیصلہ میں کس کس کو مجرم ڈکلیئر کرتی ہے اور کس کس کو تہران کے چوکوں کی
طرح عوام کا غصہ کم کرنے کے لیے سجاوٹ کے طور پر لٹکایا جاتا ہے ، اسکے لیے
صرف بارہ دن کا انتظار ، ہوسکتا ہے کہ ہم فیض احمد فیض سے زیادہ خوش نصیب
ہوں ، اور اپنی زندگی میں انقلاب کی جھلک دیکھ لیں ، آخر خواب دیکھنے پر
کوئی ٹیکس ابھی تک لاگو نہیں ہے- |