قرآن کریم․․․․․․․․ایک معجزہ

مستشرقین کایہ خیال ہے کہ قرآن مجیدکے اسلوب میں تکلف اورتصنع ہے اورجس اسلوب میں بات کی گئی ہے وہ قرآن سے پہلے ہی زمانۂ جاہلیت میں مروج تھا۔حال آں کہ علماء امت کاخیال ہے کہ قرآن مجیدکااسلوب بیان قرآن کااعجازہے۔

یہ بات کہ قرآن کریم کے اسلوب میں تصنع اورتکلف ہے یانہیں؟اس کی حقیقت جاننے کے لئے چندباتوں کاسمجھ لیناضروری ہے۔جودرج ذیل ہیں۔

(۱)اعتراض کی حقیقت ۔(۲)اسلوب واعجازکاثبوت قرآن سے۔(۳)اسلوب قرآنی اور اعجازقرآنی مستشرقین کی نظرمیں۔(۴)خلاصۂ بحث۔

مستشرقین کاخیال ہے کہ قرآن کے اسلوب میں تصنع اورتکلف ہے اورایسااسلوب زمانۂ جاہلیت میں مروج تھا۔حال آں کہ ان کی یہ بات سرے سے ہی باطل اوربالکل بے بنیادہے۔

﴿۱﴾اعتراض کی حقیقت:۔مستشرقین کے اس اعتراض کی بنیادزمانۂ جاہلیت کے اشعاراوران کے شعراء کی فصاحت لسانی اوربلاغت کلامی ہے۔اورمستشرقین کایہ دعویٰ ہے کہ قرآن کاطرزواسلوب زمانۂ جاہلیت کے طرزواسلوب کی نقل ہے ۔لہٰذااس میں اعجازکہاں؟حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین کی ایک عام عادت یہ ہے کہ وہ رائی کو پہاڑ اور پہاڑکورائی بنادیتے ہیں۔یابالفاظ دیگرانہیں اپنی آنکھ کاشہتیربھی نہیں نظرآتا اور دوسروں کی آنکھ کاتنکہ بھی شہتیردیکھائی دیتاہے۔لیکن یہاں توحقیقت اوربھی عجیب وغریب ہے کیوں کہ اسلوب قرآنی میں تصنع و تکلف کاوہ تنکہ بھی نہیں ہے جسے انہوں نے شہتیربنادیاہے۔حقیقت میں اس اعتراض کی بنیادیہودونصاریٰ کی ازلی دشمنی ہے جوتھوڑے تھوڑے وقفہ سے اسلام اورصاحب اسلام کے خلاف ہمیشہ سے ظاہرہوتی رہتی ہے۔

﴿۲﴾اسلوب واعجازکاثبوت قرآن سے:۔قرآن کریم میں ڈھیرسارے مقامات ایسے ہیں جہاں فصاحت وبلاغت اوراسلوب بیان ایسااختیارکیاگیاہے کہ پوری عرب دنیاکی شاعری اوران کے ادباء ، فصحاء اوربلغاء انگشت بدنداں رہ گئے۔درحقیقت پوراقرآن کریم ہی ان خوبیوں کاحامل ہے اوریہی اسلوب بیان ہے جواصل میں قرآن کریم کااعجازہے۔قرآن کریم کااسلوب بیان ایساہے کہ اس کامخاطب ایک دیہاتی بھی ہے،پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں اوراعلیٰ درجہ کے علماء اورماہرین فنون بھی،لیکن اس کاایک اسلوب بیک وقت ان تینوں طبقوں کومتأ ثرکرتاہے۔اسی طرح ہر شاعر اورادیب کی فصاحت وبلاغت کا ایک مخصوص میدان ہوتاہے کہ جہاں اس سے ہٹا،اس کاکلام پھیکا پڑجاتاہے۔لیکن یہ قرآن کاہی اسلوب بیان ہے کہ اس میں اس قدرمختلف الانواع مضامین بیان کئے گئے ہیں کہ اس کااحاطہ دشوارہے۔لیکن قرآن نے ان تمام کواس اندازسے بیان کیاہے کہ اس کابیان مقتضائے احوال کی مطابقت کے ساتھ ساتھ بلاغت کے اعلیٰ معیارکو پہونچا ہواہے ۔ قرآن کریم نے بعض ان مضامین میں بھی بلاغت کواوج کمال تک پہونچادیاہے۔جنہیں بڑے بڑے ادباء وفصحاء کے حکم مطابقت احوال کی رعایت کئے بغیراصل مرادکے ساتھ اداکرنے میں قاصرہوگئے۔مثلاًقانون وراثت کو لیجئے! یہ ایک ایساسنگلاخ اورخشک موضوع ہے کہ دنیاکے تمام ادبا،فصحا اورشعرا مل کربھی ادبیت اورعبارت کاحسن پیدانہیں کرسکے ،لیکن قرآن کریم نے بہت ہی آسان پیرایہ میں اسے سمجھادیاہے کہ ہرتلاوت کرنے والاسورۂ نساء کی یہ آیت تلاوت کرتے ہی بے ساختہ پکاراٹھے گاکہ یہ کسی غیراﷲ کاکلام نہیں ہے،بلکہ اس قادرمطلق کاکلام ہے جس کے برابرکسی کاکلام ہوہی نہیں سکتا:یوصیکم اﷲ فی اولادکم للذکرمثل حظ الانثیین‘‘(النساء:۱۱)اسی طرح اختصار وایجازقرآن کاامتیازی وصف ہے،اوراس وصف میں اس کااعجازبہت نمایاں ہے۔(۱)

اعجازقرآنی اوراسلوب وبیان کے تکلف وتصنع سے پاک ہونے کااس سے بڑاثبوت اور کیا ہو سکتاہے کہ روزاول ہی سے ان فصاحت وبلاغت کے امام جن کواپنی زبان دانی پرنازاوراپنے اسلوب بیان پر فخر تھا، کو چیلنج کیاکہ ’’اگرتم سمجھتے ہوکہ قرآن کریم خداکاکلام نہیں اورمحمدؐ کاکلام ہے تواس جیسی ایک سورۃ یاایک آیت ہی بناکرلے آؤ‘‘آسمان دنیانے دیکھاکہ وہ تمام ترکوشش کے باوجودایسانہ کرسکے چناں چہ علامہ سیوطیؒ نے ان آیات کوجمع کیاہے،جس میں ان اعیان ائمۂ فن کوچیلنج کیاگیا۔اوروہ یہ ہیں۔
۱۔
وان کنتم فی ریب ممانزلناعلیٰ عبدنافاتوابسورۃ من مثلہ۔(البقرۃ:۲۳)
۲۔
uقل فاتوابسورۃ مثلہ وادعوامن استطعتم من دون اﷲ۔ (یونس:۳۸)
۳۔
[فلیأ توابحدیث مثلہ ان کانواصٰدقین۔(الطور:۳۴)
۴۔
Ãام یقولون افتراہ قل فاتوابعشرسورمثلہ مفتریات وادعوامن استطعتم من دون اﷲ ان کنتم صٰدقین۔(ھود:۱۳)
۵۔
Ýقل لئن اجتمعت الانس والجن علیٰ ان یأتوابمثل ھٰذالقرآن لایاتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعض ظھیرا۔(بنی اسرائیل:۸۸)
۶۔
sاولم یکفھم اناانزلناعلیک الکتاب یتلیٰ علیھم۔(العنکبوت:۵۱)
۷۔
Çقال الذین لایرجون لقاء ناائت بقرآن غیرھٰذااوربدلہ‘ قل مایکون لی ان ابدلہ‘ من تلقائی نفسی۔(یونس:۱۵)

–مذکورہ تمام آیات کے اندراﷲ تبارک وتعالیٰ نے مشرکین مکہ اوران کے شعراء وبلغاء کوایک چیلنج کیاہے کہ اگریہ کلام اﷲ کانہیں ہے تواس جیسی ایک سورۃ بھی پیش کردولیکن ظاہرہے کہ وہ افصح اللسان اور تمام دنیامیں زبان کے اعتبارسے فائق تھے وہ یہ جانتے تھے کہ یہ محمدؐ کاکلام نہیں ہوسکتااورنہ ہی کسی انسان کا کلام ہوسکتاہے؛بلکہ یہ کسی مافوق البشرکاکلام ہے ۔یہی نہیں بلکہ ان کے شعروسخن کے سرداراورعرب کے فصیح وبلیغ شاعروں نے اقرارکیاہے کہ یہ کلام سوائے خداکے اورکسی کانہیں ہوسکتاہے،خودولیدبن مغیرہ کے یہ الفاظ ہیں کہ ان کے کلام میں حلاوت ہے،ایک خاص رونق ہے جومیں کسی شاعریافصیح وبلیغ کے کلام میں نہیں پاتا۔
قال الولیدبن مغیرۃ:فواﷲ مافیکم رجل اعلم بالشعرمنی ولابرجزہ ولاتقصیدہ ولا باشعارالجن و واﷲ ان لقولہ الذی یقول حلاوۃ،وان علیہ لحلاوۃ(۲)

oولیدبن مغیرہ نے فرمایا:تمہاری جماعت میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ شعر، رجز، قصیدہ اور’ جن ‘کے اشعار نہیں جانتا ہے خداکی قسم ان کے کلام میں حلاوت ہے،ان کے کلام میں ایک خاص رونق ہے۔

اسی طرح متعددسرداران عرب کاقول منقول ہے جس میں مشترکہ طورپریہ کہاگیاہے کہ قرآن کے اسلوب بیان اوراس کے اندازسے صاف ظاہرہے کہ وہ کسی انسان کاکلام نہیں ہوسکتا؛بل کہ وہ کسی ما فوق البشر(خدا)ہی کاکلام ہے،کیوں کہ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی چالیس سالہ زندگی ان کے سامنے تھی ،انہیں معلوم تھاکہ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کی علمی حیثیت کیاہے ۔خودقرآن کریم نے اس کا اقرار کیا ہے۔(وماکنت تتلومن قبلہ من کتٰب ولاتخطہ بیمینک۔العنکبوت:۴۸)

سرداران عرب اورائمۂ لغت وزبان میں سے ولیدبن مغیرہ،نضربن حارث،اسعدبن زرارہ اورقیس بن نسیبہ نے قرآن کے کلام اﷲ ہونے کااقرارکیاہے۔(۳)

یہی وجہ ہے کہ امام فخرالدین رازی ؒ نے فصاحت اورغرابت اسلوب اورتمام عیوب کی سلامتی سے محفوظ ہونے کوہی ’’اعجازقرآن‘‘ماناہے۔(۴)

قاضی ابوبکرباقلانیؒ نے قرآن کے اعجازکی تین وجوہ بیان کی ہیں:(۱)غیب کی خبروں کوبیان کیا گیاہے۔(۲)حضوراقدس صلی اﷲ علیہ وسلم امی تھے ۔یہ بات عام تھی کہ آپؐ نہ پڑھ سکتے تھے اورنہ ہی اچھی طرح لکھ سکتے تھے،اورنہ ہی متقدمین کی کتابوں کے قصص اوراحوال کی واقفیت تھی۔(۳)انوکھی لڑی ہے،اورعجیب تالیف ہے اوربلاغت کے انتہادرجہ کوپہونچی ہوئی ہے۔جہاں پرمخلوق کا عجز ظاہر ہوجاتا ہے۔
قال الباقلانی:اول: یتضمن الاخبارعن العیوب،والثانی:انہ کان معلوماًمن حال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم انہ‘کان امیالایکتب ولایحسن ان یقرأوکذٰلک کان معروفاًعن حالہ انہ‘ لم یکن شئیاًمن کتب المتقدمین واقاصصھم وانبائھم وسیرھم،والثالث:انہ‘ بدیع النظم عجیب التالیف متناہ فی البلاغۃ الیٰ الحدالذی یعلم عجزالخلق عنہ‘۔

قاضی ابوبکرباقلانیؒ نے فرمایا:(۱)قرآن کریم میں غیب کی خبروں کوبیان کیا گیا ہے۔ (۲)یہ بات عام تھی کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم امی تھے،نہ پڑھناجانتے تھے اورنہ لکھنا۔اسی طرح یہ بات بھی عام تھی کہ آپ متقدمین کی کتابوں کے قصوں،خبروں اوران کے احوال سے واقف نہ تھے۔(۳)قرآن کریم انوکھی لڑی ہے،عجیب تالیف ہے اوربلاغت کے اس درجہ کوپہونچی ہوتی ہے جہاں پرمخلوق کا عاجزہوناظاہرہوجاتاہے۔(۵)

اب تک جودلائل پیش کئے گئے ہیں وہ قرآن کریم اورمفسرین کرام کی عبارتوں کے حوالے سے ہیں، ساتھ ہی کفارومشرکین کے اقوال بھی نقل کردئے گئے ہیں تاکہ مزیدسمجھنے میں آسانی ہو۔آگے مستشرقین کے اقوال سے ثابت کیاجائے گاکہ قرآن کااسلوب بیان ہی قرآن کااصل اعجازہے۔

﴿۳﴾مستشرقین کے اقوال سے ثبوت:۔فرانس کامشہورمستشرق ڈاکٹرمارڈریس جوحکومت کی جانب سے ترجمہ قرآن پرمامورتھا،اس نے قرآن کریم کی صداقت وحقانیت،اس کے اﷲ تعالیٰ کاکلام اورمعجزہ ہونے کااس طرح اعتراف کیاہے۔

’’بے شک قرآن کاطرزبیان خالق جل وعلاکاطرزبیان ہے،بلاشبہ جن حقائق ومعارف پریہ کلام حاوی ہے وہ ایک کلام الٰہی ہی ہوسکتاہے مسلمانوں میں قرآن کی خاص تاثیرکودیکھ کرمسیحی مشن میں کام کرنے والے بالاجماع اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایک واقعہ بھی ایساپیش نہیں کیا جا سکتاکہ جس مسلمان نے اسلام اورقرآن کوسمجھ لیاوہ کبھی مرتدیاقرآن کامنکرہوگیاہو‘‘۔

ڈاکٹرگستاولی بان نے اپنی کتاب ’’تمدن عرب‘‘میں صفائی سے اس حیرت انگیزی کااعتراف کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’اس پیغمبراسلام اورنبی امیؐ کی بھی ایک حیرت انگیزسرگذشت ہے جس کی آوازنے ایک قوم ناہنجارکورا م کیا۔اوراس مرتبہ پرپہونچادیا کہ دنیاکی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر وزبرکرڈالا۔اوراس وقت بھی وہی نبی ؐ امی اپنی قبرکے اندرسے لاکھوں بندگان خدا کو کلمۂ اسلام پرقائم رکھے ہوئے ہے‘‘۔

مسٹروڈول، جس نے قرآن کاترجمہ اپنی زبان میں کیاہے، لکھتاہے کہ:
’’جتنابھی ہم اس کتاب(قرآن)کوالٹ پلٹ کردیکھیں اسی قدرپہلے مطالعہ میں اس کی نا مرغوبی نئے نئے پہلوؤں سے اپنارنگ جماتی ہے۔لیکن ہمیں فوراً مسخر کر لیتی ہےاورہم سے تعظیم کراکرچھوڑتی ہے غرض یہ کتاب ہرزمانہ میں اپنا پر زور اثردکھائے گی‘‘۔

مسٹرکونٹ نے قرآن کے متعلق اپنے تأثرات ان الفاظ میں ظاہرکئے ہیں:
’’عقل حیران ہے کہ اس قسم کاکلام ایسے شخص کی زبان سے کیوں کراداہواجوبالکل امی تھا،تمام مشرق نے اقرارکرلیاہے کہ نوع انسانی اس کی نظیرپیش کرنے سے عاجز و قاصر ہے

یہ وہی کلام ہے کہ جب حضرت یحیٰ علیہ السلام کی ولادت کے تعلق سے اس کے جملے جعفربن ابی طالب نے حبشہ کے بادشاہ کے دربارمیں پڑھے تواس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسوجاری ہوگئے، اور بشپ چلااٹھاکہ یہ کلام اسی سرچشمہ سے نکلاہے جس سے عیسیٰ علیہ السلام کاکلام نکلاتھا‘‘۔

انسائیکلوپیڈیابرٹانیکاجلد۱۶،صفحہ ۵۹۹ میں ہے:
’’قرآن کے مختلف حصوں کے مطالب ایک دوسرے سے بالکل متفاوت ہیں،بالخصوص حضرت محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم )کے واسطہ سے خداکو واحد اور قادر مطلق ظاہر کیاگیا ہے قرآن کی نسبت یہ بالکل بجاکہاجاتاہے کہ وہ دنیابھر کی موجودہ کتابوں میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے‘‘۔

انگلستان کے نامورمؤرخ ڈاکٹرگبن اپنی مشہورتصنیف (سلطنت روماکاانحطاط وزوال)کی جلد۵باب ۵۰میں لکھتے ہیں:
’’قرآن کی نسبت بحراٹلانٹک سے لے کردریائے گنگاتک نے مان لیاہے کہ یہ پارلیمنٹ کی روح ہے، قانون اساسی ہے․حقیقت یہ ہے کہ حضرت محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم)کی شریعت سب پر حاوی ہے۔یہ شریعت ایسے دانشمندانہ اصول اوراس قسم کے قانونی انداز پر مرتب ہوئی ہے کہ سارے جہان میں اس کی نظیرنہیں مل سکتی‘‘۔(۶)

﴿۴﴾خلاصۂ بحث:۔مذکورہ دلائل وشواہدسے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ قرآن مجیدکااسلوب بیان بالکل واضح ہے،تکلفات وتصنعات کے جھمیلوں سے پاک وصاف ہے اورقرآن کااسلوب بیان ہی حقیقت میں قرآن کااعجازہے جس پرتمام عالم کااتفاق ہے۔اس میں نہ توکوئی شک کی گنجائش ہے اورنہ ہی کسی شبہ کوراہ ملتی ہے۔ ٭٭٭

حواشی:(۱)علوم القرآن:۲۶۵،ملخصابلفظہ۔(۲)الاتقان فی علوم القرآن:۲؍۱۵۰۔(۳)معارف القرآن:۱؍۹۴۔۹۶۔(۴)الاتقان:۲؍۱۵۱۔(۵)اعجازالقرآن علیٰ حاشیۃ الاتقان:۱؍۵۸،۶۱،۶۳۔ (۶)معارف القرآن:۱؍۱۰۱،۱۰۷،۱۰۸۔
Ghufran Sajid
About the Author: Ghufran Sajid Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.