انسانوں کی ہدایت و رہ نمائی کے لیے اپنے منتخب اولوالعزم بندوں کو مامور
کرنا سنتِ الٰہیہ رہی ہے۔معاشرے سے لادینیت،بد مذہبیت،ناخداپرستی،بے
رحمی،مکاری و عیاری،غرور و کبر،ظلم و جبر،نخوت و بغاوت غرض ہر قسم کی فکری
و عملی،سماجی واخلاقی،تمدنی ومعاشی اورسیاسی برائیوں کے سدِ باب کے لیے اﷲ
رحمٰن و رحیم نے اپنے مخصوص بندوں کو مبعوث فرمایا،جنہوں نے اپنے کردار و
عمل اور خلوص و وفا کے ذریعے انسانی اقدار کے احیا کا فریضہ انجام دیا،جن
کے نالۂ نیم شبی اور سوزِ دروں نے بڑے بڑے عالمی روحانی انقلاب برپا
کیے،جنہوں نے شعورِ بندگی بخشا،وقارِ آدمیت سے روشناس کرایا، سجدوں کو
آوارگی سے،پیشانیوں کو رُسوائی سے بچایا،دلوں کو آلودگی سے پاک کیااور ایسا
چمکایاکہ روشن ضمیر کردیا۔افکارکو مہکایا اور کردار کو چمکایا……اس سلسلۂ
رشد و ہدایت کی سب سے منور و مقدس کڑی انبیاے کرام کی مبارک جماعت ہے۔حضور
خاتم النبیین مصطفی جانِ رحمت صلی اﷲ تبارک و تعالیٰ علیہ وسلم کی بعثتِ
مقدسہ کے ساتھ انبیا کی آمد کا سلسلہ بند ہوگیا ۔
نہ رکھی گل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جا باقی
چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا
(حضرت رضاؔ بریلوی)
اب یہ اہم فریضہ نائبینِ انبیا (صحابہ،تابعین،تبع تابعین،اولیا،صوفیا،علما
و صلحا)من جانب اﷲ انجام دیتے ہیں۔ان ہی نائبینِ انبیا میں ایک چمکتا،
دمکتااور مہکتا نام سلطان المشایخ،محبوبِ الٰہی، ملک الفقراوالمساکین ،نظام
الحق والدین، احمد بن محمد بن دانیال بدایونی المعروف خواجہ نظام الدین
اولیا رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ کا ہے۔
مختصر حالاتِ زندگی: حضرت نظام الدین اولیاکی ولادت شہر بدایوں میں ماہ صفر
۶۳۱ ھ میں ہوئی۔آپ کا نام محمد بن احمد بن علی بخاری ہے۔ا آپ کی کم سِنی
ہی میں والد ماجد وصال فرماگئے۔تعلیم و تربیت کے لیے والدہ ماجدہ نے مدرسہ
میں داخل کیاجہاں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔مزید تحصیلِ علم کے لیے دہلی میں
شمس الملک خواجہ شمس الدین خوارزمی کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔علوم ظاہری
میں مہارتِ تامہ حاصل کی اور علمی استعدادکی بنا پر ’’نظام الدین منطقی‘‘تو
کبھی ’’نظام الدین اصولی‘‘اور کبھی ’’مقررِ محفل شکن‘‘ کے القاب سے پکارے
جاتے۔ابتدائی زمانۂ طالبِ علمی ہی میں حریق المحبت برہان العاشقین فریدالحق
و الدین سیدنا خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمہ کے روحانی فضائل
وکمالات نے کشورِ دل کو فتح کرلیا تھا چناں چہ دہلی میں حصولِ تعلیم سے
فراغت کے بعد تقریباً۲۰سال کی عمر میں اجودھن(پاک پٹن شریف)میں فریدِ وقت
کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔اور اسی محفل میں شیخ فریدالدین نے یہ شعر پڑھا
اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ
(تیری فرقت اور جدائی کی آگ نے کئی دلوں کو کباب کردیا اور تیرے شوق کی آگ
نے کئی جانیں خراب کردیں)۲
اپنی حاضری کا ذکر خود حضور محبوب الٰہی نے کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’۶۵۵ھ رجب کی پندرہ تاریخ چہار شنبے کے دن مسلمانوں کے دعاگو اور سلطان
الطریقت (حضرت فریدالدین گنج شکر)کے ایک مرید بندہ نظام الدین احمد
بدایونی(یعنی حضرت سلطان المشایخ خواجہ نظام الدین اولیا)کو دولت پاے بوسی
حضرت سیدالعابدین(بابافرید)حاصل ہوئی۔حضرت بابافرید نے کلاہ چار ترکی جو اس
وقت ان کے سرِ مبارک پر تھی اتار کر اپنے ہاتھ میں لی اور دعاگو(حضرت نظام
الدین )کے سر پر رکھ دی اور خرقہ خاص اور چوبی نعلین(یعنی کھڑاویں)عطا
فرمائیں۔الحمدﷲ علیٰ ذالک!
نیز ارشاد فرمایا کہ مَیں ہندستان کی ولایت کسی دوسرے کو دینی چاہتا تھا
مگر تم راستے میں تھے اور دل میں ندا ہوئی کہ صبر سے کام لیا جائے نظام
الدین احمد بدایونی پہنچتا ہے، یہ ولایت اس کی ہے۔اس کو دینا۔یہ دعاگو یہ
کلمات سن کر کھڑا ہوگیا اور اشتیاق زیارت کی بابت کچھ کہنا چاہتا تھا ، مگر
حضور شیخ الاسلام کی اتنی دہشت طاری ہوئی کہ کچھ کہہ نہ سکا۔حضرت شیخ
الاسلام نے حالت معلوم کر لی اور فوراً یہ الفاظ ان کی زبانِ مبارک پر آئے
کہ بے شک تمہارے دل میں اشتیاق تھا اور یہ بھی فرمایاکہ ’’ہر داخل ہونے
والے کے لیے دہشت ہوتی ہے۔‘‘۳
حضرت محبوب الٰہی نے شیخ فرید الدین مسعود علیہ الرحمہ کی بارگاہ سے علمی و
روحانی فیض حاصل کیا اور خلافت سے سرفراز ہوکر ۶۵۹ ھ میں دہلی لوٹے،۴دہلی
کے قریب بستی غیاث پور میں نظامِ خانقاہی قایم کیااور مسند رشد و ہدایت کو
زینت بخشی۔آپ صاحبِ کشف و کرامات تھے۔متعدد کرامات کا آپ سے ظہور ہوا جو
زبان زد ِہر خاص و عام ہے۔غیاث پور میں قیام کے ابتدائی دور میں کافی تنگ
دستی اور فاقوں سے گزر اوقات ہوتی ۔اسی دور میں سلطانِ وقت نے گاؤں کی پیش
کش کی تو صوفیانہ شانِ استغنا کا مظاہرہ کیا اور فرمایا کہ: ’’مجھے اور
میرے خدمت گاروں کو تمہارے گاؤں کی چنداں ضرورت نہیں،میرا اور ان کا خدا
کارساز اور سیر سامان ہے۔‘‘۵……پھر دستِ غیب سے آپ کی امداد ہوئی،آپ کی
مقبولیت کا ستارہ چمکا،عوام و خواص،شاہ و گدا،عالم و جاہل سب آپ کی طرف
رجوع کرنے لگے،اب خانقاہِ نظامی سے دست گیری ،غریب نوازی اور انسان سازی
کاکارنامہ انجام دیاجانے لگا۔روزانہ آپ کے لنگر کھانے سے ہزاروں لوگ فیض
یاب ہونے لگے مگر آپ کا حال یہ تھا کہ قائم اللیل اور صائم النہار
تھے،مسلسل روزے رکھتے اور سحری میں خادم کھانا پیش کرتے تو اس خیال سے نہیں
کھاتے کہ نا جانے اس وقت کتنے لوگ بھوکے پیاسے سورہے ہوں گے۔۶ خلق کی درد
مندی کی ایسی انوکھی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے یقینا یہ ایک صاحبِ دل اور
مردِ حق آگاہ ہی کی صفت ہوسکتی ہے۔
اس دور میں آپ نے جو’’ انسان سازی‘‘ کاسب سے اہم کارنامہ کا انجام دیا،
مریدین کی باطنی اصلاح فرماکر انہیں کشورِ ولایت کی حکم رانی عطا کی۔آپ کے
مریدین و خلفا کی ایک طویل فہرست ہے جو زہد و تقویٰ،علمیت و روحانیت اور
ولایت غرض ہراعتبار سے اپنے عہد میں یکتاے روزگار شمار کیے جاتے ہیں۔ان
مریدین و خلفا نے بھی بزرگانِ چشت کے مشن کو آگے بڑھایا،گلشن اسلام کی آب
یاری کی،انسانی اقدار کے احیاکا فریضہ انجام دیا۔ان میں حضرت خواجہ
نصیرالدین محمود اودھی چراغ دہلوی،حضرت امیر خسرؔو،حضرت برہان الدین
غریب،حضرت امیر حسن علا سجزی،حضرت مولانا شمس الدین یحییٰ،حضرت مولانا
فخرالدین زرادی،شیخ کمال الدین یعقوب گجراتی علیہم الرحمۃورضوان وغیرہم کی
دینی و علمی و ادبی اور صوفیانہ خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
خدمات و اثرات: بلا شبہہ شریعت کے زینے کے بغیر منزلِ ولایت تک رسائی
تقریباً ناممکن ہے۔اس لیے کہ شریعت زینہ ہے اور طریقت جلوۂ بالاے بام
ہے۔دین پر استقامت، سنتِ مصطفی علیہ التحیۃ و الثناء پر عمل آوری کے بغیر
ولایت کا خواب سجانا ریت کا محل بنانے کے مترادف ہے۔جو خود ہدایت یافتہ
نہیں وہ بھلا لوگوں کی رہ نمائی کیسے کرسکتا ہے؟اسی لیے جاہل صوفی کو
’’شیطان کا مسخرہ‘‘ کہا گیا ہے،۷ جو خود بھی گم راہ ہوتا ہے اور اپنے
پیچھے ایک قوم کو بھی گم راہ کرتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنے کردار و
عمل کو موافقِ دینِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کیا جائے تاکہ آگے رسائی
ممکن ہوسکے……اس ضمن میں جب ہم حضرت نظام الدین اولیا کی کتابِ حیات کا
مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ہر ہر ورق سے اطاعت و شرعی پابندی کے ساتھ ساتھ
تصلب فی الدین کے ناقابلِ فراموش واقعہ اور نصیحت آمیز ارشادات ملتے ہیں جو
سالکینِ راہ کے لیے بہترین زادِ راہ ہے۔بادشاہوں کے درباروں سے پرہیز، ان
کی بے جاخوشامد سے بچنا،خلوت و گوشہ نشینی کے باجود خلقِ خدا کی امداد و
دست گیری،حاجت روائی،ذہنی و فکری رہ نمائی و تربیت،روحانی اقدار اور انسانی
اوصاف کی تعمیر و تصحیح، آسودگی و تنگ دستی ہر دو حالتوں میں صبر و شکر اور
ہمہ وقت یاد و ذکر الٰہی وغیرہ ہر دور میں اولیا و صوفیا کے اہم اوصاف رہے
ہیں،مذکورہ تربیتی عناصر نے ہر دور میں اولیا و صوفیا کو مخلوق کے دلوں کا
فرماں روا بنائے رکھا،بغیر کسی دنیاوی عہدوں اور مادی طاقتوں کے اولیاے
کرام نے ہر دور میں دلوں کی تسخیر کی اور یادِ مولیٰ عزوجل کی شرابِ طہور
کا متوالا بنایا،لوگ زنگ آلود دل لے کر حاضر ہوتے یہ اپنی ضربِ ھوٗ سے دل
کے زنگ کو دھوتے،صیقل کرتے،Heart Washingکرتے ،تزکیۂ نفس فرماتے،قلوب کی
تطہیر کرتے،اتنا چمکاتے کہ دل میں اچھائی کی محبت برائی سے نفرت پیدا
ہوجاتی ۔اپنی کیمیا اثر نگاہوں کی نشترزنی سے بدبختی اور گم راہی کے ناسور
کو نکال پھینکتے۔ملفوظات کے ذریعے بھی صالح روحانی معاشرے کی تشکیل کا
فریضہ بڑے احسن انداز میں بزرگانِ دین نے انجام دیا ہے…… حضرت محبوبِ الٰہی
مذکورہ تمام اوصاف و روایاتِ صوفیا کے محافظ و امین اور مبلغ و معلم تھے۔آپ
نے مختلف سلاطین کے عہد کو دیکھا،سلاطین نے آپ کو مال و زر،زمین و جائیداد
اور اعلیٰ مناصب کی پیش کش بھی کی مگر آپ نے خدمتِ خلق،عبادت و ریاضت اور
تربیت کومنتخب کیا،غیاث پور کی خانقاہِ چشتیہ نظامیہ کا دربار کسی بادشاہ
کے دربار سے کم نہ تھا بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ بادشاہوں
کے دربار سے بھی اعلیٰ و ارفع شان تھی آپ کی خانقاہ کی۔ہر وقت حاجت مندوں
کا ہجوم ہوتا، ان کی حاجت روائی ،دردمندوں کے درد کا مداوا کیا جاتا، مصیبت
زدوں کی دست گیری کی جاتی،بھوکے پیاسوں کی سیرابی کا ایسا انتظام تھا کہ اس
دور میں روزانہ ہزاروں افراد کے لیے آپ کی خانقاہ میں لنگر کا انتظام کیا
جاتا تھا۔معاشرتی اقدار اور اسلامی کردار کی تعمیر میں آپ نے جو کارنامہ
انجام دیا ہے اس سے متاثر ہوکر دانش وروں نے آپ کو ہندستان کا سب سے بڑا
مسلمان بزرگ بتایاہے۔ ۸
تبلیغ و اشاعتِ دینِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے بزرگانِ چشت نے
جو خدمات انجام دیں وہ اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں۔سلطان الہند خواجہ غریب
نوازکے بعدان کے خلفاخصوصاً حضرت خواجہ قطب الدین اوشی کاکی،خواجہ
حمیدالدین ناگوری پھرحضرت سید محمد صاحب دعوۃالصغریٰ، حضرت فریدالحق والدین
سیدنا مسعود گنج شکرپھر حضرت نظام الدین اولیا محبوب الٰہی ( رضوان اﷲ
تعالیٰ علیہم اجمعین )کا دور آیا۔محبوب الٰہی نے اپنے اسلاف کی پیروی اور
اپنی منصبی ذمہ داری کو بہ حسن وخوبی نبھایا۔خود بھی تبلیغ اسلام
فرمائی،مسلمانوں کی اصلاح و تزکیہ کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں میں دعوتِ دین
کا کام کیا اور اپنے خلفا و مریدین کو تبلیغِ اسلام کی خاطر مختلف بلاد و
امصارِ ہند میں بڑی تعداد میں متعین کیا اس طرح اسلام کی جڑیں دورِ نظامی
میں جس طرح ہند میں مضبوط ہوئیں وہ ہماری دعوتی تاریخ کا روشن باب ہے۔جب آپ
کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت مولانا خواجہ برہان الدین غریب
ہانسوی کو خلافت و اجازت عطا فرمائی اور انہیں سات سو(۷۰۰)مریدوں کے ہم راہ
جنوبی ہندستان کے علاقۂ دکن میں دعوت و ارشاد کے لیے روانہ کیا۔اسی طرح بعض
مؤرخین کے مطابق سلطان المشایخ نے (حضرت برہان الدین غریب )سے پہلے حضرت
غریب کے سگے بھائی حضرت شاہ منتجب الدین زرزری زر بخش علیہ الرحمہ کو سات
سو (۷۰۰)مریدین کے ساتھ علاقۂ دکن کی روحانی تسخیر کے لیے روانہ کیا تھا
اور حضرت زرزری زر بخش کے وصال کے بعد ان کے بھائی حضرت غریب کو اسی علاقہ
کو تعلیماتِ اسلامی کے نور سے منور کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ ۹نیز پروفیسر
خلیق احمد نظامی نے بھی ’’گلزار ابرار‘‘کے حوالے سے اس طرف اشارہ کیا ہے
کہ’’ان ایام میں زمینِ ہند کو عجیب زمانہ حاصل تھا۔کیوں کہ آپ (محبوب
الٰہی) کی بارگاہِ خلافت سے وقتاً فوقتاً جو نئے نئے خلیفہ روانہ ہوتے
تھے،ان کی فیض پاشی سے ہند کا ہر مکاں اور ہر قطعہ زمیں ہدایت آباد تھا۔ایک
روایت ہے کہ آپ نے بڑے بڑے شہروں میں بڑے بڑے مرتبے اور بڑی کرامتوں والے
سات سو خلیفہ ایسے روانہ کیے تھے کہ ہر شخص کے سینے میں گویا عرفان کا
آفتاب طلوع کرتا تھا۔ ۱۰ اسی طرح شیخ کمال الدین یعقوب کو خرقۂ خلافت عطا
کرکے گجرات کی سمت روانہ کیا……بہر حال خطۂ دکن میں آج جو اسلام کی فصلِ
بہار لہلہا رہی ہے اس میں حضرت نظام الدین اولیا اور ان کے خلفا و مریدین
کا خونِ جگر ضرور شامل ہے۔
یہاں ایک سوال سطح ذہن پر نمودار ہوسکتا ہے کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں اپنے
خلفا و مریدین کو خطۂ دکن کی طرف روانہ کیوں کیا گیا؟اس علاقہ کا انتخاب کس
طرف اشارہ دیتا ہے؟……جب ہم ان سوالات کے جواب تاریخ کے آئینے میں تلاش کرتے
ہیں تو معلوم ہوتا ہے حضرت محبوب الٰہی کے وصال کے چند ہی دنوں بعد اپنی
سیاسی حکمتِ عملی اور پالیسی سے سلطان محمد تغلق سلطنتِ ہند کے صدر مقام
کوشمال( دہلی) سے دکن کی طرف منتقل کرنے والاتھا اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے
کہ حضرت محبوب الٰہی نے اﷲ کریم کی دی ہوئی نگاہِ بصیرت، فراستِ مومنانہ
اور کشف و کرامت سے مشاہدہ کرکے پہلے ہی سے دکن میں اسلامی تعلیم اور تزکیۂ
نفس کے مراکز کا انتظام کرلیاتھا……اسی طرح حضرت محبوب الٰہی نے لوگوں کو
مرکز سے مربوط رکھنے کے لیے دہلی میں حضرت نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کو
مسند رشد و ہدایت کی زینت بنایااور اپنا جانشین بھی۔
محبتِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم: محبتِ رسولِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم ایمان کی جان ہے،مومن کی شان اور پہچان ہے۔اس محبت کے بغیر ایمان کامل
نہیں ہوسکتا،یہ مقصودِ غلامی بھی ہے اورتمغۂ ایمانی بھی۔اس محبت کا تقاضا
ہے کہ محبوب کی اطاعت وفرماں برداری کے ساتھ اُس کے فضائل و
کمالات،اختیارات و خصوصیات کو صدقِ دل سے تسلیم بھی کیا جائے اور ان کا
چرچہ بھی کیا جائے۔ حضرت محبوبِ الٰہی کے ملفوظات میں جگہ جگہ اس ایمانی
جوہرکی تابانی قلب و نظر کو خیرہ کرتی ہے۔احادیث و حکایات سے عشقِ رسول و
اولیا کی خوش بو پھوٹتی ہے اور مشامِ جاں معطر و معنبر ہوجاتی ہے۔’’افضل
الفوائد‘‘ میں ایک مجلس کے ملفوظات ماہِ رجب کی فضیلت پر مشتمل ہیں جس میں
ضمناً معجزات ومعراجِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر شروع ہواتو شوق
و وارفتگی میں آقاے دوعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فضل و شرف،کمال و
انعام کا والہانہ ذکر کیا آخر میں فرماتے ہیں:’’اگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم کے معجزے لکھنے لگوں تو ایک سو بیس سال تک ایک صفت نہیں لکھی
جاسکتی،اس لیے اتنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔‘‘۱۱
زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے
پر، تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا
شریعت کی پاس داری اورنماز کی محبت:نماز افضل العبادات ہے،معراج المؤمنین
ہے،افتخارِ عبدیت ہے،روح کی غذا ہے،راحتِ دل و راحتِ جاں ہے،نماز میں کأنک
تراہٗ کا احساسِ شدید ہوتا ہے جوتصوف کا مقصود ہے،نمازخدا سے ہم کلامی ہے
اور اُس ذات گرامی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے جس سے
محبت عینِ ایمان ہے۔اولیا و صوفیا نے ہر حالت میں نماز کی پابندی کی۔حضرت
محبوبِ الٰہی بھی ان بندگانِ خاص میں تھے جنہیں نماز سے بے پناہ محبت اور
رغبت تھی اور شریعت کی پاس داری کا خیال اس قدر رہتا کہ جب بھی لوگ ملنے
آتے اور رمضان مبارک کا مہینہ ہوتا تو صدقۂ فطر اور تراویح کا ضرور
پوچھتے،نمازوں کی پابندی ور احکامِ شرع پر عمل آوری کی تلقین کرتے،آپ کی
مجالسِ ذکراور ملفوظات کے مجموعوں میں اس کی متعددمثالیں ملتی ہیں۔ ۱۲آپ
کے معمولات میں اوابین،ایامِ بیض کے روزے،نمازِ چاشت،صلوٰاۃ السعادت(چار
رکعت)،تلاوتِ قرآن تھی۔ زندگی بھر شریعت پر تصلب کی برکت سے آخری وقت بھی
نماز کی پابندی کا ثمرہ ملا کہ وصال شریف سے چالیس روز پہلے جب آپ نے کھانا
ترک کردیا تھا اور سکر (جو اہلُ اﷲ کا وصف ہے)کا عالم تھا اس میں بھی نماز
کی پابندی کرتے تھے۔لوگوں سے پوچھتے کہ کیا مَیں نے نماز ادا کرلی؟جواب
ملتا کہ ،جی ہاں !آپ نماز ادا فرماچکے تو ارشاد فرماتے مَیں دوبارہ پڑھتا
ہوں،غرض آخری ایام میں ہر نماز کو تکرار سے پڑھتے۔۱۳
اس واقعہ سے وہ لوگ سبق سیکھیں جن کے دامنِ عمل نمازوں کی قضا کے بھار سے
بوجھل ہیں مگر بڑے بڑے دعوائے ولایت کرتے پھرتے ہیں۔اسی طرح وہ حضرات جو
محض کسی کی ظاہری شان وشوکت اور جعلی کرامات کا چرچا سُن ایسے بے
نمازی،مخالفِ شرع اور جوگی نما ’’ خام صوفیا ‘‘کو اﷲ کا ولی سمجھ بیٹھتے
ہیں،یاد رہے ایسے بے عمل اور بے تکے افراد ہی کے افعال و کردارکو بنیاد
بناکر آج ایک طبقہ اصل صوفیا ،ان کے مشن اور تعلیمات کو نشانہ بنارہا
ہے۔حضرت محبوبِ الٰہی کی کتاب حیات کا یہباب ہر مخالف و موافق کے لیے درسِ
عبرت بھی ہے اور دعوتِ عمل بھی۔
وصال: ۱۸ربیع الآخر ۷۲۵ھ کو بعد نمازِ ظہر حضرت محبوب الٰہی نے حضرت شیخ
نصیرالدین چراغ دہلوی کو طلب کیا اور خرقہ،عصا،مصلا،تسبیح اور کاسہ،چوبیں
وغیرہ تبرکات جو حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر سے پہنچے تھے،انہیں
عنایت فرمائے اوردہلی میں رہ کر رشدو ہدایت کرنے اور اہلیانِ دہلی کی قضا و
جفا اٹھانے کی تلقین کی۔انہیں اپنا نائب اور جانشین مقررکیا۔پھر نماز عصر
ادا کی۔اور۱۸ربیع الآخر کے آفتاب غروب ہونے سے قبل ہی علم و عرفان،رشد و
ہدایت اور شریعت و طریقت کا یہ نیرِ تاباں اپنی جلوہ سامانی بکھیر کردہلی
میں غروب ہوگیا،یہیں دفن کیے گئے ۱۴ اور آج بھی آپ کا مزارِ پر انوار
لاکھوں دلوں کو چین اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہاہے۔
ملفوظات و ارشادات: حضرت محبوب ِ الٰہی علیہ الرحمۃ کی کسی مستقل تصنیف کا
علم نہ ہوسکا البتہ آپ نے اپنے پیر و مرشدحضرت فرید الدین مسعود گنج شکرکے
ملفوظات کو ’’راحت القلوب‘‘کے نام سے مرتب کیا تھاجس کے متعدد اردو ترجمے
شایع ہوکر مقبول ہوچکے ہیں اسی طرح آپ کے دو خلفا طوطیِ ہند حضرت امیر
خسرؔو اور سعدیِ ہند حضرت امیر حسنؔ علا سجزی علیہماالرحمۃ نے بالترتیب
’’افضل الفوائد‘‘ اور ’’فوائدالفواد‘‘ کے نام سے آپ کے ملفوظات مرتب کیے
ہیں جو ’’ہشت بہشت‘‘(ملفوظات بزرگانِ چشت)میں شامل ہے۔ذیل میں ان
دومؤخرالذکر کتب سے بالترتیب حضرت محبوبِ الٰہی کے چند ملفوظات پیش کرکے
مضمون ختم کیا جاتاہے:
٭پوچھا گیاکہ محبت کی اصلیت کیا ہے تو فرمایا:’’دوستی کی صفائی ہے۔اس واسطے
کہ محبانِ حق دنیا او رآخرت حاصل کرنے کواپنا شرف نہیں سمجھتے تھے۔بلکہ وہ
حق کو پالینے میں اپنا شرف جانتے تھے۔المرء مع من احبہٖ‘‘ پھر پوچھا گیاکہ
محبت میں مصیبت کیوں ہوتی ہے؟،فرمایا:’’ہر ایک کمینہ اس کا دعویٰ نہ
کرے۔اور جب اس پر مصیبت پڑے تو پیٹھ دکھاجائے۔‘‘۱۵
٭دانا اور عقل مند وہی شخص ہے جو پیش آنے والے سفر یعنی موت کے لیے تیاری
کرے اور اپنے ساتھ کچھ توشہ لے۔۱۶
٭خوف (خوفِ الٰہی)بے ادب بندوں کے لیے تازیانہ ہے۔جس سے ان کی درستی کی
جاتی ہے۔۱۷
٭جسے اﷲ تعالیٰ محفوظ رکھے ، خواہ لاکھوں ابلیس در پے کارہوں ،اسے ذرہ بھر
ضرر نہیں پہنچتا۔۱۸
٭جب انسان کو کوئی شخص تکلیف دے یا کوئی چیز چھین لے ،اسے بد دعا نہیں کرنی
چاہیے بلکہ دانت پیس کر رہ جانا چاہیے تاکہ اس کا مقصد حاصل ہوجائے اور اﷲ
تعالیٰ اپنے بندوں کے اقبال کو بڑی اچھی طرح جانتا ہے۔۱۹
٭شریعت میں خواہ دل حاضر ہو یا نہ ہو،نمازدرست ہوتی ہے۔مگر طریقت میں
اصحابِ سلوک کہتے ہیں کہ جب دل حاضر نہ ہواور حق تعالیٰ کے سوا کسی اور کا
خیا ل دل میں آئے،نماز جائز نہیں ہوتی،اسے پھر پڑھنا چاہیے کیوں کہ خیالات
کا آنانمازکا فاسد ہے۔۲۰
٭عارف کی علامت یہ ہے کہ وہ خاموش رہتا ہے۔اگر بات کرتا بھی ہے تو حسبِ
ضرورت۔۲۱
٭مَیں نے ایک بزرگ سے سنا ہے کہ جو شخص اپنے نفس کا عاشق بنتا اس پر خود
پسندی ،حسد اور خواری عاشق ہو جاتے ہیں۔۲۲
٭اولیا کا ذکرکرنے سے راحت نازل ہوتی ہے۔۲۳
٭جو شخص تین باتوں کو عزیز جانے گادوزخ اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک
ہوگا۔اوّل: اچھا کھانا۔دوم: اچھا کپڑا پہننا۔سوم: دولت مندوں کے ساتھ مل کر
بیٹھنا۔۲۴
٭اطاعت لازمی اور متعدی ہے۔لازمی وہ ہے جس کا نفع صرف کرنے والے کی ذات کو
پہنچے۔اور یہ نماز،روزہ،حج،وِرد اورتسبیح ہے۔متعدی وہ ہے جس سے اَوروں کو
فایدہ پہنچے،التفات،شفقت،غیر کے حق میں مہربانی کرنا وغیرہ اسے متعدی کہتے
ہیں،اس کا ثواب بے شمار ہے۔لازمی طاعت میں اخلاق کا ہونا ضروری ہے۔تاکہ
قبول ہو لیکن متعدی طاعت کا خواہ کس طرح کی جائے ثواب مل جاتا ہے۔۲۵
٭صدقے میں پانچ شرطیں ہوں توبے شک صدقہ قبول ہوتا ہے۔ان میں سے دو عطا سے
پہلے،دو عطا کے وقت اور ایک(عطا کے) بعد میں ہوتی ہے۔عطا سے پہلے کی دو
شرطیں (یہ)ہیں:
اول:جو کچھ دے وہ حلال کی کمائی ہو۔دوم:دوسرے کسی نیک مرد کو دے جو اسے
بُرے کام میں خرچ نہ کرے۔
عطا کے وقت کی دو شرطیں یہ ہیں:
اول: تواضع اور ہنسی خوشی سے دے۔دوم:پوشیدہ دے۔
بعد کی شرط یہ ہے کہ جو کچھ دے اس کا نام نہ لے بلکہ بھول جائے۔۲۶
حوالہ جات:
(۱)اخبارالاخیار،از:شیخ عبدالحق محدث دہلوی،ص۱۲۹،مطبوعہ لاہور۔……نوٹ:شہزادہ
محمد دارا شکوہ قادری نے ’’سفینۃالاولیا‘‘میں آپ کا نام محمد بن احمد بن
دانیال بدایونی لکھاہے۔(ص۱۳۳مطبوعہ دہلی)……نیز خواجہ عابد نظامی(مدیر ماہ
نامہ ضیائے حرم لاہور)لکھتے ہیں:’’آپ کے والدبزرگوار حضرت سید احمد بن
دانیال غزنی (افغانستان)سے ہندوستان آئے اور شہر بدایوں (بھارت)میں متوطن
ہوئے۔‘‘(حالاتِ زندگی حضرت نظام الدین اولیا،مشمولہ راحت القلوب،ص۳۷،مطبوعہ
لاہور)
(۲)ملخصاً،اخبارالاخیار،ص۱۲۹،۱۳۰۔ملخصاً، راحت القلوب،ص۳۷،۳۸۔
(۳)راحت القلوب (ملفوظات حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر)مرتبہ: حضرت سلطان
نظام الدین اولیا،ص۵۶،مطبوعہ لاہور
(۴)راحت القلوب،ص۴۲۔
(۵)تاریخ مشایخ چشت،از:خلیق احمد نظامی،ص۱۹۲،مبطوعہ لاہور،بحوالہ
سیرالاولیا،ص۱۳۰۔
(۶)ملخصاً، تاریخ مشایخ چشت،ص۱۹۲۔
(۷)مطالعہ کیجیے :مقال عرفاء،از امام اہل سنت امام احمد رضا محدث بریلوی
(۸)تاریخ مشایخ چشت،ص۱۹۵۔
(۹)ملخصاً،روضۃالاولیا،از علامہ غلام علی آزاد بلگرامی،ص۵۶مطبوعہ مالیگاؤں
(۱۰)تاریخ مشایخ چشت،ص۱۹۵
(۱۱)افضل الفوائد،(مرتبہ: امیر خسرؔو)مشمولہ ہشت بہشت،ص۴۵۶مطبوعہ دہلی
(۱۲)مطالعہ کیجیے:فوائدالفواد،مرتبہ: حضرت امیر حسن علا سجزی
(۱۳)اخبارالاخیار،ص۱۳۷
(۱۴)ملخصاً،حالاتِ زندگی حضرت نظام الدین اولیا،مشمولہ راحت القلوب،ص۵۴
(۱۵)افضل الفوائد،ص۴۴۲
(۱۶)ایضاً،ص۴۴۴ (۱۷)ایضاً،ص۴۴۴ (۱۸)ایضاً،ص۴۶۸
(۱۹)ایضاً،ص۴۷۵ (۲۰)ایضاً۴۱۹ (۲۱)ایضاً،ص۴۸۳
(۲۲)ایضاً،ص۴۸۳ (۲۳)ایضاً،ص۵۰۱ (۲۴)ایضاً،ص۵۰۷
(۲۵)فوائدالفواد،مشمولہ ہشت بہشت،ص۶۱۷ (۲۶)ایضاً،ص۶۴۲ |