ایک مہذب سماج کی تشکیل کے لئے
انسانی حقوق کے قوانین کی توضیع و توسیع اور تحفظ کیلئے ضروری ہے کہ اس کی
پاسداری انتہائی ایمانداری اور کھلے دل و ذہن کے ساتھ کی جائے۔ اس کے بغیر
سماجی حیثیت میں خاطر خواہ تبدیلی ممکن نہیں ہو سکتی اور ہمارے یہاں کے
سماج میں تو انسانی حقوق کسی کو حاصل ہی نہیں ہیں تو سچی اور کھری جمہوریت
کیسے مل سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک سادہ مگر تفصیلی دستور بنایا
جائے تاکہ انسانی حقوق کی واضح خد و خال سامنے آسکے۔ موجودہ معاشرے میں ہر
طرف بدعنوانی، دھوکہ دہی، جعل سازی، فرقہ پرستی اور حقوق کی پامالی جیسی
برائیاں عام ہیں ، ایسی حالت میں سماج کا غریب، پسماندہ یا اقلیتی طبقہ
اکثر ظلم و جبر اور استحصال کا شکار رہتا ہے۔لہٰذا ان سماجی لعنتوں سے نجات
پانے کے لئے انسانی حقوق سے متعلق قوانین کا بنانا وہ بھی صاف شفاف بے حد
ضروری ہے۔ایسے میں یہ بھی ضروری ہے کہ انصاف کے ساتھ انصاف کیا جائے، انصاف
کی اس لڑائی سے ہمدردی رکھنے والے سبھی بھائیوں، بہنوں کو چاہیئے کہ اُس
آواز پر لبیک کہے جو ان کی داد رسی کے لئے اٹھایا جائے۔ہمدردی اور پیار و
محبت کی سنامی تو ہمارے یہاں دستیاب ہے ہی نہیں ، حیوانیت اور درندگی جیسے
واقعات سے ہم بھرے پڑے ہیں۔
مسلم قوم کو ترقی پانے کیلئے خود سے کوشش کرنے کی سخت ضرورت ہے مگر یہاں یہ
کوشش عام آدمی کیلئے بہت مہنگی پڑ سکتی ہے اس لئے کوئی بھی از خود اس
معاملے پر کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہے۔ اب جبکہ اپنے ہم وطن لوگوں کیلئے
ایک آواز مولانا طاہر القادری کی صورت میں مل چکا ہے تو ہر طرف ان کی
برائیاں ہو رہی ہیں ، ان کے لئے یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ملٹی نیشنلٹی
والے امپورٹیڈ شخص ہے تو میرے بھائی اس ملک میں جتنے بھی بڑے لوگ ہیں ان
میں سے کم از کم پچاس فیصد تو ایسے لوگ ہی ہیں جو ملٹی نیشنلٹی رکھتے ہیں
تو اس کا کیا مطلب ہے کہ وہ اپنے وطن سے اور اپنے وطن کے لوگوں سے محبت
نہیں رکھتے۔ اس ملک کی نسلوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے ایک آواز آئی ہے
اور لوگ اس آواز پر جوق در جوق اپنی آواز ملا رہے ہیں تو کیوں نہیں اصلاحات
کی جاتیں ہیں، جو کچھ 23دسمبر کو طاہر القادری نے اپنی تقریر میں کہا ، کیا
وہ لفظ بہ لفظ درست نہیں ہے۔ راقم کے خیال میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ
یقینا درست ہے اور ایسا ہو جائے یا کیا جائے وہ بھی ممکن نہیں تو ناممکن
بھی نہیں ہے ، بس ضرورت ہے تو لگن کی، سچی لگن ہو تو سب کچھ ممکن ہو سکتا
ہے۔
قرآنِ کریم کہتا ہے کہ جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں، احسان کرتے ہیں، معاف کر
دیتے ہیں اور ان کی بھلائی کیلئے کام کرتے ہیں ، تو اگر کسی طرح بھی اس ملک
کیلئے اور اس ملک کے عوام کیلئے کوئی بھلائی کا کام کرنے جا رہا ہے تو اس
پر سب کو خوش ہونا چاہیئے اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالنا چاہیئے تاکہ یکجہتی کے
ساتھ بات آگے بڑھ سکے۔ اور اگر کسی کو کوئی خطرہ محسوس ہو رہا ہے تو دیر
کئے بغیر مذاکرات کا راستہ اختیار کرے تاکہ فیصلہ خوش اسلوبی سے ہو سکے۔
انسانی حقوق ، انسان کے وہ بنیادی حقوق ہیں جن سے انسان کو نسل ، ذات،
قومیت، مذہب، جنس، زبان، ثقافت کی بنیاد پر محروم نہیں کیا جا سکتا۔ مشہور
شخصیت ڈی ڈی بسو کے مطابق انسانی حقوق ایسے کم از کم حقوق ہیں جو کسی شخص
کو انسانی کنبے کی حیثیت سے مملکت یا کسی عوامی اقتدار کے مساوی حاصل
ہوں۔ویسے تو ان کا تصور بہت وسیع ہے ان کو کسی خاص دائرے میں محدود نہیں
کیا جا سکتا اور ان کے تحفظ کی ذمہ داری بھی سبھی پر عائد ہوتی ہے۔
آج کے اس پُر فتن اور بھیانک دور میں اسلامی ممالک کے حالات بد سے بد تر
ہوتے جا رہے ہیں ، کہیں ملک کے عوام آمرانہ و جابرانہ حکومت سے تنگ آکر
احتجاج و بغاوت کر رہے ہیں تو کہیں کی حکومت اور وہاں کے عوام اپنے کھوئے
ہوئے حقوق کو پھر سے حاصل کرنے کیلئے ظلم و ستم کرنے والے اقتدار کے
متوالوں کے سامنے جد و جہد کرتی نظر آرہے ہیں ، اقتدار کی ہوس کے متوالے
اپنی زندگی کے آخری لمحات تک حکومت کرنے کی ہوس لئے ہوئے ہے تو کچھ لوگ
حکومت سے دستبردار نہ ہونے کیلئے ملک کے عوام پر ظلم و تشدد کو جاری رکھے
ہوئے ہیں تو کچھ لوگ اپنی حکومت کو چھوڑنے کیلئے کسی طور تیار نہیں۔ کتنے
ہی گھمبیرعوامی مسائل ہیں جو حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ہمارے آج کے
حکمرانوں کو نگاہوں میں رکھیے اور کل کے حکمرانوں کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے
تو واضح طور پر آپ سب کو علم ہو جائے گا کہ آپ کے ووٹ کا صحیح حقدار کون ہو
سکتا ہے ، کون آپ سے مخلص ہے اور کون آپ کے جذبات کے ساتھ کھیلنا چاہتا
ہے،ایک زمانہ تھا کہ ہمارے حکمران اپنی رعایہ کی تکلیفوں کو اپنی تکلیف
سمجھتے تھے، رعایہ پر ظلم کرنا اپنے آپ پر ظلم کرنا سمجھتے تھے، رعایہ کے
ہر دکھ درد میں شامل ہونا ان کا اولین فریضہ سمجھتے تھے، عوام کے ساتھ اتنے
سلوک سے پیش آتے تھے کہ جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ، کیا آج کے
حکمرانوں کو ماضی کے حکمرانوں کا کردار یاد نہیں آتا ؟ کیا آج کے حکمرانوں
کو ماضی کے حکمرانوں کی تاریخ یاد نہیں ؟ کیا آج کے حکمرانوں نے قطعی طور
پر ماضی کے حکمرانوں کی تاریخ کو فراموش کر دیا ہے؟کیا آج کے حکمرانوں نے
خلافتِ راشدہ کی تاریخ کو بالکل ہی بھلا دیا ہے؟ کیا آج کے حکمرانوں کے
دلوں میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے دورِ خلافت کی صادق حکمرانی کا خیال نہیں
آتا؟ ایسی بے شمار تاریخ ہے جسے دیکھا اور پڑھا جائے تو دل و دماغ چست ہونے
لگتا ہے مگر آج کل نہ جانے ملکی معاملات چلانے والے کس ڈگر پر چل رہے ہیں
کہ کوئی مسئلہ بھی حل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
اس میں کوئی شق نہیں کہ طاہر القادری کا جلسہ ملک کے تمام طبقوں کے بڑوں کی
نیندیں حرام کر چکا ہے اور آنے والے دنوں میں لانگ مارچ کا پروگرام ان کے
دلوں کو چبھ رہا ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے، ہر کوئی شش و پنج کے عالم میں
مبتلا ہے ، کہانی کی واضح صورت تو 14جنوری کو ہی نظر آئے گا۔ ان سب باتوں
سے قطع نظر یہاں میڈیا کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جنہوں نے مثبت پہلوﺅں کو
منفی پہلو بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے ،یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے آخر
ہم سب کسی ایک معاملے کو بھی مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھانے میں ہچکچاتے کیوں
ہیں ۔موقعے کی مناسبت سے اس شعر کو تحریر کی شکل دینا چاہوں گا ۔
عجب ہے تیری سیاست، عجب ہے تیرا نظام
حسین سے بھی مراسم ، یزید کو بھی سلام
میرے خیال میں اگر پورا مضمون سمجھ میں نہیں آیا ہے تو یہ شعر ہی آپ سب کو
سمجھانے کے لئے کافی ہوگا۔ مگر بات تو ہے سمجھنے کی دوستو! لیکن اگر کوئی
سمجھنا ہی نہ چاہے تو اسے کون سمجھا سکتا ہے۔بہرِکیف میں تو صرف اتنا کہہ
کر اپنے قلم کو تحریر سے روک لینا چاہتا ہوں کہ ’ شاید کہ اُتر جائے تیرے
دل میں قادری کی بات“ |