ہمیں ہر معاملے میں صرف منفی
پہلو تلاش کرنے کی عادت سی پڑگئی ہے۔ کوئی مرتا ہے تو ہم روتے ہیں۔ مگر
صاحب! بہتوں کے گھروں میں چولھا جلتا ہی اس وقت ہے جب اموات واقع ہوتی ہیں!
ہمارا بیمار پڑنا ڈاکٹرز کا روزگار ہے۔ انتظامیہ اور لوگ تجاوزات کا رونا
روتے رہتے ہیں۔ ہمیں تو ان کے رونے پر ہنسی آتی ہے۔ اور کیوں نہ آئے؟ قدرت
کے کارخانے میں کچھ بھی بے مصرف نہیں۔ تجاوزات کا قیام بھی اپنے اندر چند
مثبت پہلو ضرور رکھتا ہے مگر ہم تو بس تجاوزات کے نام پر صرف روتے ہی رہتے
ہیں! کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر تجاوزات نہ ہوں تو ہماری سڑکیں کتنی چوڑی
اور خالی خالی دکھائی دیں گی! اچھی خاصی چوڑی سڑکیں ہوں گی تو تجاوزات بھی
قائم کی جائیں گی۔ انتظامیہ خود ہی تجاوزات قائم کرنے کی گنجائش پیدا کرتی
ہے اور پھر شِکوہ بھی کرتی ہے کہ ”ناجائز تجاوزات“ قائم کرنے والوں کو شرم
دامن گیر نہیں ہوتی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ شہر کے اندر اچھی خاصی چوڑی سڑکیں
بنانے کی کیا منطق ہے؟ کیا یہ پتھاریداروں کو ترغیب دینے، بلکہ اکسانے کے
مترادف نہیں؟ سیدھی سی بات ہے، پانی ہمیشہ اپنی پنسال میں آتا ہے۔ کہیں
خالی جگہ ہوگی تو لوگ اسے بھرنے کی کوشش کیوں نہیں کریں گے؟
|
|
کراچی کا دل صدر ہے اور صدر کا دل ایمپریس مارکیٹ۔ برطانیہ کی ایک ملکہ سے
موسوم مارکیٹ دورِ غلامی کی یادگار ہے۔ اور یاروں نے اپنے سابق آقاؤں کو
خراج عقیدت پیش کرتے رہنے کے لیے ایمپریس مارکیٹ کو دیوی سمجھ کر اس کی
آرتی اتارنے کے لیے چاروں طرف پتھارے لگانے کی قسم کھا رکھی ہے! کبھی کبھی
تو ایسا لگتا ہے جیسے ایمپریس مارکیٹ کہیں بھاگی جارہی ہو اور اسے روکنے کے
لیے پتھارے لگائے گئے ہوں، تجاوزات قائم کی گئی ہوں!
آپ شاید اب تک یہی سوچ رہے ہیں کہ سڑکوں پر ٹھیلے کھڑے کرنے، پتھارے لگانے
سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے اور پیدل چلنے والوں کو بھی پریشانی کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔ ٹھیک ہے، مگر بھیڑ میں گاڑی چلانے کا ہنر بھی تجاوزات ہی نے
ڈرائیورز کو سِکھایا ہے! سخت نامساعد سڑکوں پر گاڑیاں چلانے بلکہ دوڑانے
والے ہمارے ڈرائیورز اپنے کام میں ایسے طاق ہو جاتے ہیں کہ پھر کسی بھی ملک
میں ناکام نہیں ہوتے! ڈرائیونگ کی ایسی شاندار اور کامیاب تربیت دینے والا
ادارہ پورے ملک میں ڈھونڈے سے نہ ملے گا! اور اِس نکتے پر بھی تو غور
فرمائیے کہ قوم کے ذہین سپوتوں نے تجاوزات کی شکل میں معاش کے کس قدر آسان
متبادل ذرائع دریافت کئے ہیں۔ عزتِ نفس کسے عزیز نہیں ہوتی؟ کوئی کسی کی
بات بلا جواز کیوں سنے؟ آپ کو بھی کسی کی نوکری، چاکری گوارا نہیں تو
پریشان نہ ہوں۔ تھوڑا مال کھلاکر کہیں بھی پتھارا لگائیے اور ”سیلف
ایمپلائمنٹ“ کے نظریے کو بروئے کار لائیے! سیلف ایمپلائمنٹ کا ایسا آسان
نظریہ چند ہی ممالک میں رو بہ عمل ہوگا اور وہ ممالک یقیناً افریقہ کے پس
ماندہ ترین خطے میں ہوں گے!
(فوٹو گرافی : محمد جمیل) |