سب اقتدار چاہتے ہیں

میں14 ، اگست 1947ئ کو دنیا کے نقشے پر معرض الوجود میں آیا ۔میرے بابا ، محمد علی جناح تھے ، بہرحال جیسا بھی تھا، جس حال میں بھی تھا اس وقت کے لوگوں نے محسوس کیا کہ اگر انگریز ہندوستان سے چلے گئے تو مسلمان اقلیت میں آجائیں گے اور ہندو اکثریت ان سے اپنے اوپر کئے جانے والی سینکڑوں سالوں کی حکمرانی کا حساب کتاب کرے گی ۔ اس لئے علیحدہ ریاست ضروری ہے ۔ آخر مسلمانوں نے بھی تو اقلیت میں ہونے کے باوجود اکثریت پر بزور طاقت حکومت کی تھی کہ نہیں ؟ جب مسلمانوں نے حکومت کی تھی اور وہ اکثریت میں بھی نہیں تھے تو اب بھی دنیا کے لاتعداد ایسے ممالک ہیں کہ نہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں جہاں وہ اپنی مذہبی رسم و رواج کے ساتھ آزادنہ طرز پر زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ لیکن مجھے بتاتے ہیں کہ انھیں ہندوؤں کی بات پر یقین نہیں آتا تھا ۔ میرے وجود میں آتے ہی خوشی کے ترانوں کے ساتھ لاکھوں انسانوں کی لاشوں کے ساتھ نوحے بھی پڑھے گئے ۔ اب جبکہ ہر طرف مارا ماری ، قتل عام ، لوٹ مار، جلاﺅ گھیراﺅ اور فسادات ہو رہے تھے تو میرے بابا نے صاف صاف کہہ دیا کہ جو یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کسی مذہبی پیشوایت کی تھیا کریسی کے لئے بنا یا گیا ہے تو وہ اپنی غلط فہمی ختم کردے ۔ ہندوستان نے تو فوری طور پر جاگیرداروں کی وہ تما م زمینیں قومیائے ملکیت میں لے لی تھی لیکن میرے ساتھ آنے والے نوابوں ، سرداروں ، وڈیروں ، سرداروں ، ملکَوں اور خوانین سے کچھ نہیں لیا گیا بلکہ انھیں اور زیادہ نوازا گیا جس کی جہ سے میری غریب عوام بڑی مایوس ہوئی۔اب غریب عوام تو چاہتی تھی مجھے اپنے پیروں پر کھڑا کردے لیکن میری بُری قسمت کہ میرے وزیر اعظم نے امریکہ سے قرضہ اور گندم لے لی ، بس اس کے بعد میرا روس بھی دشمن ہوگیا اور ہندستان تو بٹوارے کی وجہ سے ویسے ہی مجھ سے ناراض تھا ، میرے ساتھ دینے والے اہل لوگ بھی تو نہیں تھے سب کو کرسی ِاقتدار کی پڑی ہوئی تھی پھر کشمیر پر چھیڑ چھاڑ ہوئی تو ہندوستان نے جوابی کاروائی کرکے مجھ پر حملہ کردیا ۔65 ءکی جنگ میں مجھے بھی بہت نقصان ہوا امریکہ نے جنگ رکوا دی ورنہ مجھ میں تو اتنی سکت نہ تھی کہ ستر ہ دن بھی مقابلہ کر پاتا کیونکہ میرے دوست ہی کون تھے جو اس جنگ میں میرا ساتھ دیتا ، ایران خود کمزور تھا ، عرب ممالک میں تو اپنی فوج تھی ہی نہیں ، اسرائیل ان کی جان کو اٹکا ہوا تھا ، روس ہمسایہ تھا لیکن میری دوستی سات سمندر پار امریکہ سے کرا دی گئی تھی جس کے مفادات مجھ سے زیادہ ہندوستان سے وابستہ تھے کیونکہ تجارتی اعتبار سے تو اب بھی سونے کی چڑیا تھا ، ، میرے تعلقات ابھی کہاں کسی سے اچھے ہو ئے تھے اسی لئے میں مزید نہیں لڑ سکتا تھا ۔ میری بد قسمتی کہ میرے وجود کے ایک حصے گیا۔مجھے طعنہ دیا گیا کہ دیکھا کتنی تکلیف ہوتی ہے جب جسم کے کسی حصے کو کاٹا جاتا ہے ، میں اب کیا جوا ب دیتا ۔ خاموش ہوکر تماشہ دیکھنے لگا ، کیونکہ زخم بھی تو اپنوں سے لگا تھامیرا خیال تھا کہ اب سب کو نصیحت آچکی ہوگی اور میرے زخمی جسم پر مرہم رکھنے کی کوشش کریں گے ، لیکن ایسا نہیں ہوا ، میرے محافظوں نے نظریہ ضرورت کے تحت مجھے برباد کردیا اور مجھے غیروں کی جنگ میں بری طرح الجھا دیا ، حالاں کہ کچھ لوگ کہتے رہے کہ پرائے گھر میں پتھر نہ مارو ، آگ نہ لگا ﺅ لیکن کوئی نہیں سن رہا تھا ، جب نائن الیون کے واقعہ سے میرے باڈی گارڈگھبرا گئے وہ امریکی دہمکی کا سا منا نہیں کرسکے، اب خود سوچو کہ اگر ہندوستان امریکہ کے اشارے پر حملہ کردیتا ، دوسری جانب سے چالیس ممالک کی فوج بھی حملہ کردیتی تو کیا ہوتا ،بچارا عراق تو ایک جنگی جہاز بھی اڑا نہیں سکا تھا ، افغانستان کو دیکھو ، کہ اس کے پاس جنگی جہاز تک نہیں تھے کہ کروز میزائیل کو روکتے ، جیسے ہم ڈرون میزائیل کو نہیں روک پا رہے ،تو کلسٹر بموں کو کیسے روکتے ، ہمارے پاس تو ایسی ٹیکنالوجی ہی نہیں کہ کوبرا ئیلی کاپٹر کی آنے جانے کی ہمیں خبر ہو پاتی ، کتنا مشکل ہوتا ہے دفاع کرنا ، یہ کوئی آسان کام تو نہیں ہے نہ ، دیکھو اگر آسان کام ہوتا تو بلوچستان میں امن آجاتا ، کراچی میں جرائم پیشہ ٹارگٹ کلرز کو منطقی انجام تک پہنچا دیا جاتا ، جنوبی وزیر ستان میں خود کش حملہ آوروںپر قابوپالیا جاتا ، یا کم از کم گوگل پر لیاری کی گینگ وار کے لوگوں کو دیکھنے والے بنوں جیل کے توڑے جانے والے کو دیکھ لیتے ، انھیں پکڑ لیتے ، یا پھر کم از کم اسامہ بن لادن کو ہی میری ناک کے نیچے آرام سے رہنے نہیں دےتے ۔ پہلے مجھے ایشین ٹائیگر بھی کہا جاتا تھا، اب مجھے سرکس کا ٹائیگر بنا دیا ، جب دیکھو کسی نہ کسی کے اشارے پر میری اٹھک بیٹھک کرائی جاتی ہے ، مجھے تو سچی بات ہے کہ اپنی حالت دیکھ کر بڑا رونا آتا ہے ، تاریکیوں کی سرزمین بنا دیا گیا ، شدت پسندی اور کرپشن کے ناسور نے مجھے ساری دنیا میں رسوا کردیا ہے ۔ ، پتہ نہیں میرے وجود میں پنپنے والے ان ناسوروں کا کب آپریشن کیا جائے گا ۔ لیکن کسی کو فرصت کہاںہے ، سب تو انتخابات کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں ،سب اقتدار چاہتے ہیں ، سب کو مجھ پر حکومت کرنی ہے لیکن میرے لوگوں کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ ۔مجھے بہت دکھ ہوتا ہے لیکن کیا کروں ؟۔ بلدیہ ٹاﺅن سانحہ کے81سوختہ جسموں کی شنا خت کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کیا جارہا تھا تو میں بھی چاہتا تھاکہ میرا بھی ڈی این اے ٹیسٹ ہو کہ میرے اپنے کتنے فرزند ہیں ۔۔ ٹھیک ہے کہ قومیت پہچان کے لئے، لیکن ملت بھی تو پہچان کے لئے ہے کہ نہیں ؟ ۔ اب دیکھ لو کہ گستاخانہ فلم کی ریلیز پر کون شیعہ ، کوون سنُی کہلاتا تھے سب مل کر ایک آواز ہو کر احتجاج کر رہے تھے کہ نہیں ۔ اب عوام جس ملک کی بھی ہو اس کی مملکتیں امریکہ سے ڈرتی ہیں اس لئے کسی مسلم ملک نے سرکاری احتجاج نہیں کیا تو مسلمانوں کا کوئی قصور تو نہیں ہے ۔ المیوں پر جب ایک قوم بن جاتے تو پھر مجھ پر ظلم کرنے والوں کے خلاف صف آرا کیوں نہیںہوتے ، گھوم گھام کر وہی چہرے حکام بن جاتے ہیں اور خود ان کو بناتے ہو ، جب وہ لوٹ مار کرتے ہیں ، بیرون ملک سرمایہ لے جاتے ہیں، اپنا سب کچھ غیر ملک منتقل کر دےتے ہیں تو مجھے کیوں بُرا بھلا کہتے ہو کہ ہمیں پاکستان نے کیا دیا ۔ اب بھلا میں تمھیں کیا دوں ، ۵۶ سالوں سے مجھے کتنا لوٹا جا رہا ہے ، میرے ٹکڑے ٹکڑے کئے جا رہے ہیں ، کتنی علیحدگی پسندوں کی تحریکیں مجھے زخمی کئے جا رہی ہیں۔فرقہ واریت کی کیسی کسی گھناﺅنی سازشیں ہو رہی ہیں ، لسانیت کے نام پر شہر خاموشاں میں ماں ، بہنوں کی سسکیاں گونج رہی ہیں، بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے ، امریکہ ڈرون حملے کرکے عصوم لوگوں کو جلا جلا کر ہلاک کئے جارہا ہے ، ہر ایک خود مختار بنا ہوا ہے ،دہشت نے میرے گھر میں ڈیرے ڈال دئےے ہیں۔عام انسان کی جان مال محفوظ نہیں ، مجھے کتنا کھوکھلا کردیا ہے ، لیکن آفرین ہے میری بے بس پاکستانی عوام پر ، کہ صبر ایوب کا عظیم مظاہرہ کر رہے ہیں ۔کس قدر خاموشی سے اپنے لوٹنے کا تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔کیا یہ میری ہمت نہیں ہے کہ اپنے رگ وپے میں ناسوروں کی موجودگی ،کے باوجود اب تک قائم دائم ہوں ۔سوچتا ہوں کہ ایسا وقت کب آ ئے گا ک میری قوم میں شعور آجائے کہ کہ جو کام لیاقت علی خان نہیں کرسکے ، ہم ان جاگیرداروں ، سرداروں ، صنعت کاروں، وڈیروں، ملَکوں اور خوانین سمیت ان بیوروکریٹس سے جان چھڑا لیں ۔ نہ جانے ایسا کب ایسا وقت آئے گا کہ عوام ان جماعتوں کا خود احتساب کرے کہ پہلے یہ بتاﺅ کہ یہ جو جلسہ کر رہے ہو ، اس پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے آئے کہاں سے ؟ ۔ کوئی تو پوچھے کہ کس جماعت نے سال میں کتنے جلسے ، جلوس ، ریلیاں نکالیں اور اس پر کتنی لاگت خرچ ہوئی ؟۔ ایک درمیانہ جلسہ بھی پچاس لاکھ روپے کم کی لاگت ے منعقد نہیں ہوتا ، کروڑوں روپے جلسوں پر خرچ کر دئےے جاتے ہیں ، سال کا حساب لگاﺅ تو اربوں روپے بن جاتے ہیں ۔کہاں سے آئے یہ پیسے کون پوچھے گا ۔ میڈیا والوں تم ہی پوچھ لو ، غریب کی قسمت بدلنے کے دعوےدار اور خود کو غریب کا ہمدرد کہنے والی پارٹیاں سال میں کتنے ارب روپے کا جلسے جلوس پر خرچ کرتی ہیں۔ جس دن میری قوم میں یہ شعور پیدا ہوجائے گا تو کوئی بھی میری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرے گا ۔ میری دکھیاری کہانی پر سوچنا ضرور ۔۔ مجھے کچھ ہوا توبچانے کے لئے کوئی نہیں آئے گا ۔ اگر آپس میں لڑ لڑ کر خود کو اتنا کمزور کرلو گے تو پوری دنیا میں عبرت کا نشان بن جاﺅ گے ، پارلیمنٹ ، عدلیہ ، میڈیا ، سیکورٹی ادارے سب کچھ میرے دم خم سے ہے ، ذرا اتنا سوچ لو کہ ابھی میرا وجود ہے تو بھی پاکستانی ہونے کے ناطے گرین پاسپورٹ کی الگ لائن بنا دی جاتی ہے ، جب میرا وجود ہ نہیں رہا تو لمحہ بھر سو چو کیا حشر ہوگا ۔ اچھا چلتا ہوں ۔۔ارے معافی چاہتا ہو ں میں باتوں باتوں میں آپ کا نام پوچھنا بھول گیا ۔ چلیں اب پو چھ لیتے ہیں۔ السلام علیکم ۔۔ میرا نام پاکستان ہے اور آپ کا ۔،۔۔ ؟ ؟ ۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296406 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.