قارئین! آپ نے شتر مرغ کی کہانی
تو سنی ہو گی جس میں کسی نے شتر مرغ سے پوچھا کہ تم اڑتے کیوں نہیں ہو؟ تو
وہ بولا میں تو اونٹ ہوں، اونٹ بھی کبھی اڑتے ہیں، جب اِس سے کہا گیا تم
اونٹ ہو تو بوجھ اٹھایا کرو، تو شتر مرغ ہنس کر بولا جا !۔۔کہیں پرندے بھی
بوجھ اُٹھاتے ہیں۔ آج ہمارے ملک کے سیاستدانوں کا حال بھی اِسی شتر مرغ
جیسا ہی ہو گیا ہے، ہر ایک اپنی ذمہ داریوں اور کرتوتوں کو ماننے کی بجائے
دوسروں کے سر تھوپنے کی کوشش میں لگا ہے، دوسروں پر الزام لگاتے ذرا بھی
نہیں ہچکچاتا، یہاں بڑے برے سیاسی شتر مرغ پائے جاتے ہیں، جِن کا ماضی بھی
آلودہ، جِن کا حال بھی ناکام اور مستقبل بھی مشکوک نظر آتا ہے۔ پاکستان میں
ایسے ایسے سیاسی شتر مرغ پائے جاتے ہیں جن کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ اب
ایم کیو ایم کو ہی دیکھئے کہ اُس نے جاگیرداروں کی حکومت میں پانچ سال گزار
دیئے، جب ووٹ لینے کا وقت آیا ہے تو اِ اپنی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا
اعلان کر دیا ہے اور ساتھ ہی مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرنے کا اعلان
کرنے والی ق لیگ بھی اِس میدان میں اُتر آئی ہے۔ یہ عوام کو بیوقوف بنانا
نہیں تو اور کیا ہے۔ متحدہ اور ق لیگ والے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم حکومت میں
بھی رہیں گے اور مارچ بھی کریں گے، اس کا مطلب تو صاف دکھائی دے رہا کہ یہ
لانگ مارچ کسی تیسری قوت کے خلاف ہے۔ یہ طاقت کا اظہار عدلیہ کے خلاف بھی
ہو سکتا ہے جِس نے ایم کیو ایم کے قائد کو طلب کر رکھا ہے، الطاف بھائی آج
بھی اُسی جاگیر دارانہ نظام کے خلاف بڑھکیں مار رہے ہیں جس کی گود میں
انہوں نے 25 سال گزارے ہیں۔ سلطان راہی اور منا بھائی کے انداز میں للکارتے
ہوئے اصلی شیر ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ میڈیا اور علماءکرام کو گالیاں
دینا بھی ان کے خطاب کا حصہ بن چکا ہے، یہ وہی الطاف حسین ہیں جن کے نزدیک
جاگیر داربڑے بڑے این آر او زدہ بدعنوان سیاستدان نہیں بلکہ عوام ہیں،
کیونکہ ان کے نزدیک عوام زندہ انسانوں کا نام نہیں بلکہ ایک سیاسی تصور،
سیاسی اصطلاح ہیں، عوام جاگیرداروں، وڈیروں کے ”ہاری“ ہیں، صنعت کاروں کے ”مزدور‘’
اور ان کے ”کارکن“ ہیں۔ ان کے نزدیک نعرے لگانے والے، دریاں بچھانے والے
اور پوسٹر لگانے والے ہیں، عوام ووٹر ہیں، عوام ٹےکس دہندگان ہیں، عوام ان
کا جمہوری ”نقشہ“ ہیں، سیاسی تعین اور تقریر کی لذت ہیں ان کے اس فلسفہ اور
تصور کے مطابق عوام ہر جگہ موجود ہے، موجود نہیں تو اپنے حق کی وصولی کے
لیے موجود نہیں، تاریخ بتاتی ہے، کتابوں کے، اخبارات کے صفحات سچ اگلتے ہیں
کہ ایم کیو ایم وہ جماعت ہے جو اپنے مفادات کی خاطر زندہ انسانوں کو بوری
بند لاشوں میں تبدیل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی، جب سے کراچی میں
ایم کیو ایم وجود میں آئی ہے روشنیوں کا شہر امن کو ترس گیا ہے۔ 11
جون1978ءکو فوجی چھتری کے سائے تلے آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO)
بنانے والا الطاف حسین آج پاکستان کا ڈان بن چکا ہے، جب سے یہ تنظیم وجود
میں آئی کراچی کا امن تباہ ہونا شروع ہو گیا، تعلیمی اداروں میں قلم کی
بجائے بندوق کتاب کے بجائے خنجر طلباءکے ہاتھوں کی زینت بنے ،1984ءمیں
مہاجر قومی موومنٹ کا باقاعدہ اعلان ہوا، الطاف حسین، الطاف بھائی بن گیا۔
1991ءمیں نازیہ حسن سکینڈل سامنے آیا جس سے الطاف بھائی کی حسن پرستی عیاں
ہے۔ 21 دسمبر کو الطاف بھائی پر حملہ ہوا، جو ان کے لیے غیر متوقع تھا اس
حملے اور کراچی میں فوجی آپریشن کے بعد ”اصلی شیر‘’ پاکستان سے گئے اور
ابھی تک واپس نہیں آئے ہیں، لیکن سچائی اور حقیقت سے کب تک بھاگتے رہیں گے۔
الطاف بھائی کی جماعت نے سوائے بینظیر کے ہر حکومت کا ساتھ دیا، ہر
جاگیردار کے قددموں میںبیٹھے، آج کل بھی جاگیرداری کو انجوائے کر رہے ہیں۔
یہی حال گجرات کے چودھریوں کا ہے پہلے نوازشریف کے ساتھ رہے، پھر جب فوجی
دور آیا تو ان کے ساتھ مل گئے اور اب پیپلزپارٹی کی حکومت میں ایک ٹکٹ پر
دو شو دیکھ رہے ہیں۔ رہی بات ڈاکٹر طاہر القادری کی تو وہ جبہ و دستار میں
ایسی شخصیت ہیں جن سے ایمان بچانا مشکل ہے تو ریاست کیسے بچ پائے گی۔
کینیڈا کے برف زاروں سے تشریف لانے والے شیخ الاسلام بلٹ پروف کیبن اور
کمانڈوز کے حصارمےںانقلاب کی باتیں زیب نہیں دیتیں، شیخ صاحب میڈیا کے بل
بوتے اور عالمانہ بانکپن کی بنیاد پر قوم کے ہیرو بننا چاہتے ہیں، اتفاق
مسجد سے منہاج القرآن کی بنیاد ڈالنے والے شیخ صاحب کی انتہا نائن زیرو میں
ہو گی کسی نے نہیں سوچا تھا، شیخ صاحب کی یہ بغل گیری ”ارینج میرج“ ہے یا
”لو“ کچھ نہیں کہا جا سکتا، انتخابی سیاست سے دلبرداشتہ ہو کر کنارہ کش
ہونے والے شیخ صاحب کا دوبارہ ”ان“ ہونا بھی سوالیہ نشان ہے۔ اب تو نگران
سیٹ اپ میں شامل ہونے کی بھی خواہش کا اظہار کر دیا ہے، شاید ایم کیو ایم
اور ق لیگ بھی ہوا کا رخ دیکھ کر شیخ صاحب کو نگران وزیراعظم بنانا چاہتے
ہیں تاکہ آئندہ بھی حکومت میں آنے کے چانسز کو برقرار رکھا جائے 14 جنوری
کو انقلاب آتا ہے یا نہیں یہ بات کنفرم نہیں لیکن یہ بات پکی ہے کہ ایم کیو
ایم کی اندر کی غلاظت باہر آ گئی ہے جس کا واضح ثبوت الطاف کی حالیہ تقریر
ہے جس میں علماءمیڈیا اور عدلیہ کو دھمکیاں اور گالیاں بھی دی گئیں۔ عوام
کی قسمت میں شائد اچھے دن ہوں نہ ہوں ،سےاستدانوں کا شتر مرغ انقلاب ضرور آ
چکا ہے۔ |