عالمی طاقتیں جب بھی اپنے مخصوص
ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ اس کے لئے سب سے پہلے
خود یا اپنے کارندوں سے مخصوص حالات پیدا کردیتے ہیں۔ اس بات کو باآسانی
سمجھنے کے ایک دو مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے دور میں اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد جن عوام
الناس کو اسلامی نظام کے ثمرات ملنا شروع ہوگئے تو امریکہ نے اس نظام کو
تلپٹ کرنے کے لئے اپنے ہی ملک میں 9/11 کا ڈرامہ رچا کر الزام اسامہ بن
لادم پر لگایا لیکن جب اسامہ بن لادن کے میزبان طالبان حکومت نے ثبوت مانگے
تو امریکہ نے ثبوت دینے کے بجائے افغانستان پر ساڑھے تین درجن اعلانیہ اور
غیر اعلانیہ دوستوں کو ملا کر یلغار کردی۔ اور یوں ایک بڑے ڈرامے کی آڑ لے
کر طالبان حکومت کو ختم کردیا۔ خیبر پختون خواہ کے شہر سوات میں 2008ءمیں
افواجِ پاکستان اور تحریکِ طالبان سوات کے مابین کئی ماہ لڑائی لڑنے کے بعد
جب اس وقت کے صوبے سرحد حکومت موجودہ (K.P.K) نے نظامِ شریعت محمدی کے امیر
مولانا صوفی محمد کے ذریعے طالبان سے کامیاب مذاکرات کرنے کے بعد نظامِ عدل
نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ ابھی اس پر پورری طرح سے عمل درآمد بھی نہیں ہوا
تھا کہ سازشی اذہان نے بھانپ لیا کہ اگر یہ نظام ایک بار چل گیا تو پھر تو
پورے ملک سے اس نظام کو لاگو کرنے کے لئے آوازیں اٹھنی شروع ہو جائیں گی۔
اسی وجہ سے سیکولر اذہان رکھنے والے لوگوں کے ذریعے وہاں پر ایک لڑکی کو
کوڑے مارنے کی جعلی ویڈیو کو منظرِ عام پر لایا گیا۔ اس ویڈیو کے بھرپور
طریقے سے مشتہر ہونے کے بعد حکومت نے طالبان کے خلاف ایک بہت بڑا آپریشن
لانچ کیا اور یوں اس مخصوص طبقے کا مقصد پورا ہوگیا۔
مذکورہ بالا دونوں واقعات بتانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ پچھلے دنوں
کراچی میں پولیو ورکرز پر حملوں کے بعد مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس
واقعے کی آڑ لے کر وہ مخصوص سوچ اب کراچی میں شب خون مارنے کی تیاری کر رہی
ہے۔ کیونکہ کراچی میں پولیو ورکرز پر حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب ہم
مسلسل حکومتی کارندوں اور ان کے اتحادیوں سے کراچی میں طالبا نائزیشن کے
حوالے سے بیانات سن اور پڑھ رہے ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذکورہ کاروائی کے پیچھے طالبان یا کسی
اور مذہبی گروپ کا ہاتھ ہے تو فی الحال اس واقعے کے بارے میں کچھ کہنا قبلِ
از وقت ہوگا۔ لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مذکورہ کاروائی کے پیچھے طالبان
یا کسی دوسرے اسلامی گروپ کا ہاتھ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ
2000ءسے لے کر 2012ءکے آخر تک پورے پاکستان میں نہ تو پولیو کے قطرے پلانے
والوں پر کسی نے حملہ کیا ہے اور نہ ہی کوئی دھمکی دی ہے۔ سوائے حالیہ
واقعات کے خود تحریک طالبان پاکستان کے زیر اثر قبائلی علاقوں کا ہم اگر
جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ طالبان اس مہم کے خلاف نہیں بلکہ
ان کا موقف یہ ہے کہ اگر اقوام متحدہ کو ہمارے بچوں کی اتنی ہی فکر ہے تو
پہلے ڈرون حملے بند کرا کے بعد میں قطرے پلائے جائیں تو پھر یہ آخر حملے کس
نے کیے؟ تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پیچھے ایک مخصوص لابی ہے جو اپنے مخصوص
مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں مثلا ایک مقصد کو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ
اس مخصوص واقعے کو آڑ بنا کر کراچی میں طالبان آئزیشن کی افوا پھیلا کر
حالات خراب کیے جائیں۔ دوسرا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے
پولیو ویکسینیشن کی آڑ لے کر امریکہ کے لئے اسامہ بن لادن کی جو جاسوسی کی
اس کے بعد عوام الناس میں اس مہم نے مذید شکوک و شبہات پیدا کردئے ہیں
لہٰذا اس حملے کے ذریعے سے لوگوں کے ذہنوں سے اس واقعے کی یادیں محو کرکے
اس کی جگہ لوگوں کے دلوں میں اس مہم کے لئے ہمدردی پیدا کرنا بھی ہو سکتا
ہے۔
تیسری وجہ جو کہ اہم وجہ ہے اور وہ یہ کہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک
میں یہ ویکسینیشن فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ مثال کے طور پر
بدین کے علاقے باغ محلہ کے رہائشی اختر چانڈیو کے شیر خوار بچے علی رضا کو
16 اکتوبر 2012ءکو پولیو قطرے پلائے گئے۔ جس کے نتیجے میں بچے کو انفیکشن
ہوگیا اور اس کے جسم کی کھال اترنے لگی۔ بچے کو فوری طور پر ایک نجی اسپتال
لے جایا گیا۔ تاہم کافی دیر تک اس کی حالت سنبھل نہ سکی۔ پاکستان میں یہ
کوئی واحد کیس نہیں ہے بلکہ ایسے کیسز درجنوں کے حساب سے ہونگے۔ چونکہ
پاکستان میں اس حوالے سے کوئی تحقیق نہیں ہو رہی اس لئے ایسے کیسز کا درست
اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن جن ممالک میں اس حوالے سے تحقیق ہورہی ہے وہاں
پولیو ویکسینیشن کے نقصانات بڑے پیمانے پر سامنے آرہے ہیں مثال کے طور پر
نیو یارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ انڈیا میں ہر سال 150 سے
200 بچے پولیو کے قطرے پینے کے بعد انفیکشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک معروف
بین الاقوامی جریدے جرنل آف ہیومینٹیرین گروپ کا اپنی ایک رپورٹ میں کہنا
ہے کہ اس حوالے سے نائجریا میں صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے جہاں 2007ءمیں
1300 کیسز سامنے آئے ہیں اس کے علاوہ ہیٹی میں 2001ءمیں 22 بچے پولیو
ویکسینیشن پینے کے باوجود پولیو کا شکار ہوگئے۔ عالمی ادارہ صحت (W.H.O) جو
کہ پولیو کے کیسز پر نظر رکھنے والے ادارے پولیو گلوبل ایریڈکشن انسٹیٹیوٹ
کا ماننا ہے کہ پولیو ویکسینیشن پینے کے بعد انڈیا میں کئی بچوں پر اس کے
منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا ذرائع کے مطابق امریکہ اور
برطانیہ میں منہ کے ذریعے قطرے پلانے پر پابندی ہے۔ پاکستان میں اس حوالے
سے کام کرنے والی تنظیم ”پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجلیسٹیو ڈیپارٹمنٹ اینڈ
ٹرانسپرنسی“ کا ماننا ہے کہ پولیو کے خلاف 16 سالہ مہم چلانے کے بعد
صورتحال یہ ہے جس وقت 16 سال پہلے کام شروع کیا تھا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے
بعد آج بھی وہیں کھڑے ہیں یعنی سال 2000ءمیں سالانہ کیسز 199 تھے۔ 2011ءمیں
198 کیسز سامنے آئے ہیں اوراگر 2012 ءکا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے صرف
7 اضلاع اور قبائلی علاقہ جات میں ستمبر تک 56 کیسز ریکارڈ کیے جاچکے ہیں۔
مذکورہ واقعات سامنے آجانے کے بعد چونکہ پاکستان میں اس مہم پر اعتبار کرنے
کو کوئی تیار نہیں اور اس پوری مہم پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے لہٰذا
اس حملے کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعے سے پولیو مہم اپنا
کھویا ہوا اعتماد دوبارہ حاصل کرسکے۔ اس کے علاوہ ایک اور خاص وجہ جس نے
عوام کو کشمش میں ڈال دیا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں پولیو سے سالانہ ایک
درجن بچے بھی جاں بحق یا معذور نہیں ہوتے جبکہ اس کے مقابلے میں صرف نمونیہ
سے پاکستان میں سالانہ 30,000 افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور ہر
ایک 1000 میں سے 75 وہ ہوتے ہیں جن کی عمریں 5 سال سے کم ہوتی ہیں۔ نمونیہ
کے علاوہ ہیپاٹائٹس اور دیگر کئی مہلک بیماریوں سے ہزاروں پاکستانی موت کے
منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن تعجب کی بات ہے کہ پاکستانی گورنمنٹ اقوام متحدہ
اور ان کے ادارے W.H.O اپنا سارا زور پولیو مہم پر صرف کررہے ہیں لیکن ان
تمام تر نقصانات، شکوک و شبہات کے باوجود پاکستان کے کسی عالم، مفتی کسی
دینی ادارے یا تنظیم نے پولیو مہم کی مخالفت میں آواز نہیں اٹھائی اس لئے
میں اس کالم کے توسط سے حکومتِ وقت اور متعلقہ اداروں سے گزارش کرتا ہوں کہ
وہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کروا کے اس واقعے کے ذمہ داران کو سامنے لائیں،
تاکہ وہ بے نقاب ہوں اور ان کا ٹرائل ہو اور وطن عزیز کو مذید افراتفری سے
بچایا جا سکے۔ |