”ایجنسیوں“ کے خُدائی خدمت گار

ہمارے ہاں بے نام کھاتوں کی کمی نہیں۔ جو کچھ بھی سمجھ یا قابو میں نہ آئے وہ اِن بے نام کھاتوں کی نذر کردیا جاتا ہے۔ پولیس کی سمجھ میں جب کوئی کیس نہیں آتا یا اُسے سمجھنے سے روک دیا جاتا ہے (!) تب وہ کیس کو ”داخل دفتر“ کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔

جو واقعہ حکومت سمجھ نہ پائے اُسے ”نامعلوم دہشت گردوں“ یا ”غیر ریاستی عناصر“ کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے! اِس معاملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حکومت کی مشکل آسان کردی ہے۔ سرکاری بیان آنے سے پہلے ہی ٹی ٹی پی والے بیان داغ کر ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں!

معیشت کے محاذ پر شِکست کا سامنا ہو تو ذرا بھی پریشان ہوئے بغیر سارا ملبہ ”عالمی کساد بازاری“ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے!

کوئی سرکاری ادارہ نہ چل پائے تو کوئی بات نہیں۔ ”بیل آؤٹ پیکیج“ کے کھاتے میں ڈال دیجیے، چلنے لگے گا!

جب حالات پیچیدہ نہیں تھے تب عوام کی سمجھ میں نہ آنے والے معاملات خال خال تھے۔ اب ایسا ہے کہ بہت کچھ عوام سِرے سے سمجھ ہی نہیں پاتے۔ اِس کا علاج بہت آسان ہے۔ یاروں نے ہر مرض کی دوا ایک لفظ میں ڈھونڈی اور پائی ہے۔ جب وہ معاملات کو سمجھنے میں یکسر ناکام رہتے ہیں تو ”ایجنسی“ کو ”کریڈٹ“ دینے پر تُل جاتے ہیں! اِس معاملے میں کچھ لوگوں کی پُھرتی دیکھ کر لگتا ہے اُنہوں نے ”ایجنسیوں“ کو ”کریڈٹ“ دینے کی ایجنسی لے رکھی ہے!

آج کے پاکستان میں ایسے لوگ خاصی بڑی تعداد میں ہیں جو یقین کے بُھوسے میں شک کی سُوئی خاصی آسانی سے تلاش کرلیتے ہیں! جس طرح ہمارے سیاست دان اور انتظامی مشینری کے لوگ ہر منصوبے میں کرپشن کی گنجائش پیدا کرلیتے ہیں بالکل اُسی طرح کچھ لوگ خوشبو میں بسے ہوئے معاملات سے بھی سازش کی بُو کشید کرنے کا ہُنر جانتے ہیں!

ہر معاملے کو شک کی نظر سے دیکھنے اور ہر معاملے میں ”ایجنسیوں“ کی سازش یا کوئی نہ کوئی سازشی پہلو تلاش کرنے والوں کی اپنی ہی دُنیا ہے۔ اِس دُنیا میں کچھ بھی ٹھیک نہیں چل رہا۔ اور اگر کبھی کبھار سبھی کچھ ٹھیک چل رہا ہو تو اِن غریبوں کی پریشانی بڑھ جاتی ہے! غالب نے کہا تھا۔
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے!

ہر معاملے میں ”ایجنسیوں“ کا ہاتھ تلاش کرنے والوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ یہ اخبار پڑھتے کم اور سُونگھتے زیادہ ہیں۔ ہر خبر کی تہہ میں جھانکنا اِن کے لیے فطرتِ ثانی کا درجہ رکھتا ہے۔ چار سطر کی معمولی سی خبر میں بھی اِنہیں ”سیاق و سباق“ کا سمندر موجزن دکھائی دیتا ہے! سویرے سویرے اخبار یا اخبارات چاٹنے کے بعد یہ ”ہم خیال“ لوگوں کو تلاش کرتے ہیں تاکہ دِن بھر بحث کا بازار گرم رکھنے کا ایجنڈا تیار کرنے کے لیے چند سازشوں کا تعین کرسکیں!

سازشوں کی بُو سُونگھنے کے عادی ٹی وی پر اُتھلے پانی جیسے بیانات اور تقاریر کی بھی تہہ میں اُترنے کی کوشش کرتے ہیں! پرائم ٹائم کے ہر ٹاک شو میں اِن شکر خوروں کو تھوڑی بہت شکر مل ہی جاتی ہے!

”ایجنسیوں“ کے عاشق ہر معاملے میں سازش کے پہلو کو پہلو بدلتے ہوئے دیکھ لیتے ہیں! اگر کوئی شخص، کِسی بھی وجہ سے، گھور کر دیکھ لے تو اِن کی نظر میں وہ اللہ کا بندہ ہونے کے ساتھ ساتھ ”ایجنسی کا بندہ“ بھی ہو جاتا ہے! اگر کوئی شخص راستے میں چلتے چلتے اچانک رک جائے اور اِدھر اُدھر دیکھے تو ”ایجنسیانہ“ ذہنیت کے حامل افراد کی نظر میں ”خفیہ والا“ ٹھہرتا ہے! لو، کرلو بات۔ اب چاہے وہ چپل ٹوٹنے کے باعث ہی رُکا ہو اور موچی کو تلاش کر رہا ہو!

سازش کی بُو سُونگھنے والے اگر ہوٹل پر بیٹھے ہوں تو دیر تک اخبار چاٹتے ہوئے چائے کی چُسکیاں لینے والا اِنہیں کِسی ”ایجنسی“ کا بھیجا ہوا دِکھائی دیتا ہے! دلیل یہ دی جاتی ہے کہ وہ بظاہر اخبار پڑھتے ہوئے چائے کی چُسکیاں لے رہا ہے مگر در حقیقت اِدھر اُدھر کی باتیں سُن رہا ہے، ٹوہ لے رہا ہے اور یہاں سے اُٹھنے کے بعد ”رپورٹ“ بنائے گا! آپ لاکھ سمجائیے کہ بھائی صاحب! سڑک کے کنارے بنے ہوئے ہوٹل میں تو گاڑیوں کا شور کچھ سُننے ہی نہیں دیتا۔ پہلو میں بیٹھا ہوا شخص بھی کیا کہہ رہا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ننگی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا کے مصداق ایسے میں کوئی کیا سُنے گا اور کیا ”رپورٹ“ مُرتب کرے گا! جواب ملتا ہے اِن لوگوں کو شور میں بات سُننے کی ٹریننگ دی جاتی ہے! اب اگر وہ شخص پیدائشی بہرہ ثابت ہو تو جواب ملے گا وہ ممکنہ طور پر ٹیلی پیتھی کا ماہر ہوسکتا ہے! یعنی یہ کہ ہر معاملے میں ”ایجنسی“ کی بُو سُونگھنے والے ”اُصولوں“ کے معاملے میں پُختہ ہوتے ہیں۔ اُن کی سوچ چورنگی کی طرح ہوتی ہے۔ آپ ایک طرف سے روکیں گے تو یہ گھوم کر دوسری طرف سے وہیں آجائیں گے!

”ایجنسیوں“ کا عمل دخل بھانپنے کے شوقین رفتہ رفتہ نفسیات کے بھی ماہر ہوتے جاتے ہیں۔ کوئی شخص کِسی تکلیف کے باعث لنگڑا کر چل رہا تو یہ اُسے شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور اگر وہ غریب کِسی سے ٹکرانے یا کِسی گاڑی کی زد میں آنے سے بچنے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھ کر چل رہا ہو تو سمجھ لیجیے اُس پر ”ایجنسی کا مُہرہ“ ہونے کی مُہر لگانے سے اِنہیں کوئی نہیں روک سکتا!

کوئی ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر، چیتھڑے نُما کپڑوں میں سڑک کنارے بیٹھا ”اپنے آپ سے خود کلامی“ کر رہا ہو تو سمجھ لیجیے ہمارے مہربان اُسے ”ایجنسیوں“ کا پلانٹ کیا ہوا قرار دیئے بغیر نہیں رہ سکتے! اور چیتھڑوں میں لپٹے ہوئے ”بابے“ بھی ”ایجنسی“ کا لیبل چسپاں ہونے پر مطمئن رہتے ہیں کہ مُفت میں کمپنی کی مشہوری ہو رہی ہے! اِن ”بابوں“ سے سَٹّے کا نمبر لینے والوں کو جب پتا چلتا ہے کہ اِن پر تو ”ایجنسی“ کا ٹَھپّہ بھی لگا ہوا ہے تو اُن کی آنکھوں میں نمبر لگنے کی اُمّید کے ساتھ ساتھ عقیدت کی چمک بھی بڑھ جاتی ہے!

”ایجنسی“ کا ٹَھپّہ لگانے کے شوقین بالعموم خاصی فیّاضی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ معیارات البتہ اِن کے اپنے طے کردہ ہوتے ہیں۔ ٹی وی پر کوئی حکومت کے حق میں بول رہا ہو تو یہ لوگ اُسے ”ایجنسی“ کا بٹھایا ہوا قرار دیتے ہیں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حکومت کے حق میں بول کر وہ حکومت کے مخالفین کو کچھ بولنے پر اُکسا رہا ہے! اور اگر کوئی حکومت کے خلاف بول رہا ہو تب بھی ”ایجنسی“ کا قرار پاتا ہے۔ اِس بار یہ دلیل لائی جاتی ہے کہ وہ حکومت کے مخالفین کو اتفاق رائے کی تحریک دیکر اُن سے کام کی بات اُگلوانا چاہتا ہے! اگر کوئی ٹی وی پر ”ایجنسیوں“ کے خلاف بول رہا ہو تو پلک جھپکتے میں ”ایجنسی“ کے پے رول پر ہونے کی سَند پاتا ہے۔ منطق یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس طرح چوہے کو پکڑنے کے لیے روٹی یا پنیر کا ٹکڑا چوہے دان میں لگایا جاتا ہے بالکل اُسی طرح وہ ”ایجنسیوں“ کے ستائے ہوئے لوگوں کو دل کے پھپھولے پھوڑنے کی ترغیب دیکر کر منظر عام پر لانے کے مِشن پر ہے!

ہمارے ہاں ”ایجنسیاں“ اور تو سب کچھ معلوم کرسکتی ہیں مگر یہ معلوم کرنا اُن کے بس کی بات نہیں کہ اُن کے کھاتے میں کیا کیا ڈال دیا گیا ہے! بیشتر معاملات میں ہوتا یہ ہے کہ کریڈٹ یا ڈِز کریڈٹ دیئے جانے پر ”ایجنسیاں“ شرم کے مارے چُپ رہتی ہیں کہ لوگ کچھ دینے پر کمر بستہ ہیں تو انکار کیسے کیا جائے! بقول غالب
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں!

”ایجنسیوں“ کی کار گزاری پر نظر رکھنے والوں کی بات مانیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ”ایجنسیوں“ نے پورے ملک کی ایجنسی لی ہوئی ہے! جب تک یہ خُدائی خدمت گار بلا معاوضہ خدمات فراہم کر رہے ہیں، کِسی بھی ”ایجنسی“ کو ”کمپنی کی مشہوری“ کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524639 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More