گریبان تو عوام ہی کے رہیں گے

سیاست اور خطابت میں کِسی کو کِسی بھی بات کا ہوش کہاں رہتا ہے؟ زہے نصیب اب شہباز شریف بھی خاصا جوشیلا خطاب کرنے لگے ہیں۔ میاں نواز شریف کی خطابت کے معیار پر تو ہم تبصرہ نہیں کریں گے مگر ہاں خطابت کے جوش میں ہوش کھونے کا ہنر وہ بھی خوب جانتے ہیں! خطابت کے دوران شریف برادران آصف علی زرداری اور اُن کے رفقاءکو علی بابا چالیس چور کی اصطلاح سے طویل مدت تک نشانہ بناتے رہے۔ جب لوگوں نے خوب سمجھایا تب اُن کی سمجھ میں آیا کہ علی بابا تو مثبت کردار ہے! بہر کیف، اِتنا ضرور ہوا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے علی بابا کو زر بابا میں تبدیل کرلیا! اِس سے ثابت ہوا کہ شہباز شریف واحد وزیر اعلیٰ ہیں جنہوں نے اپنے حلقہ یاراں میں ایک آدھ دانا بھی رکھا ہوا ہے!

گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کے دوران شہباز شریف بھرپور جوش و خروش کے عالم میں بات بالکل اُلٹی کہہ گئے۔ اُنہیں کہنا یہ تھا کہ مسائل حل نہ ہوئے تو میرا گریبان ہوگا اور آپ کے ہاتھ۔ اِس کے بجائے اُنہوں نے کہا آپ کا گریبان ہوگا اور میرا ہاتھ! اِس سے یہ بھی ثابت ہواکہ اُن کی رگوں میں لہو گرم ہے اور گرم بھی ایسا کہ بظاہر ہوش کا ہوش نہ رہنے دے! ہمیں ایسے ہی قائدین درکار ہیں جو بولنے پر آئیں تو رَج کر، دَم لگاکر بلکہ پنجابی میں کہیے تو ”ٹِلّ لا کے“ بولیں!

مُلک بھر میں شدید سردی پڑ رہی ہے۔ دُھند ہے کہ چَھٹنے کا نام نہیں لے رہی۔ سیاست بھی دُھند کی لپیٹ میں ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ سیاست دانوں کی بے حِسی کا کُہرا ہے کہ قہر بن کر اہل وطن پر ٹوٹ رہا ہے! جو کچھ بھی وہ کہہ رہے ہیں وہ مصلحت کوشی کے اِتنے پردوں میں لپٹا ہوا ہے کہ مفہوم سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے، ہم الفاظ بھی ڈھنگ سے سمجھ نہیں پا رہے! ایسا لگتا ہے سبھی نے چوہدری شجاعت حسین کی اقتدا میں سیاسی بیان بازی کی نیت باندھ لی ہے!

ایسے میں شہباز شریف کا پُرجوش انداز خطابت غنیمت ہے کہ جو دِل میں ہے وہ کہہ تو جاتے ہیں! یعنی دیوانگی میں بھی فرزانگی کے تقاضے فراموش یا نظر انداز نہیں کرتے! شہباز شریف ہمیں اِس لیے بھی پسند ہیں کہ وہ خطابت کے جوش میں بھی نرم و نازک اشعار سے لوگوں کے دِلوں کو گرمانا نہیں بھولتے۔ آج کل مارکیٹ میں اچھے وزرائے اعلیٰ دستیاب نہیں۔ جس ٹائپ کے وزرائے اعلیٰ ہمیں میسر ہیں وہ ڈھنگ سے سیاسی قافیہ پیمائی بھی نہیں کر پاتے۔ ایسے میں اُن سے ہم شعر و سُخن کی توقع بھول کر نہیں رکھ سکتے، ہاں اُن پر مرثیہ ضرور پڑھا جاسکتا ہے! شعر و سُخن سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا شغف کوئی نئی بات نہیں۔ سیاسی جلسوں میں مُرصّع غزلیں سُنانا کچھ اُنہی کا خاصہ ہے۔ مُشاعرے تو اب سیاسی جلسوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ شعراءشعر گوئی سے بڑھ کر سیاست میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں غزل کے فروغ کے لیے ہمیں شہباز شریف ایسے سُخن نواز قائدین کی طرف دیکھتے رہنا چاہیے!

مرزا تنقید بیگ سرکاری دفتر میں کلرک ہیں اِس لیے اُن میں جوش و خروش کا نام و نشان نہیں مگر جوشیلی خطابت اُنہیں بہت اچھی لگتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہماری طرح وہ بھی شہباز کی پرواز یعنی خطابت کے دِلدادہ ہیں۔ مرزا کہتے ہیں۔ ”شہباز شریف کو اِس بات پر داد ملنی ہی چاہیے کہ خطابت میں ہوش کھوکر بھی ہوش نہیں کھوتے۔ ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ روانی میں غلط بول گئے۔ وہ محض سیاست دان نہیں، اصلی تے وڈّے بھائی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں۔ بزرگوں سے سُنا ہے اور دیکھا بھی ہے کہ بڑوں کا غلط بھی صحیح ہوا کرتا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بات گریبان اور ہاتھ کی ہو تو ترتیب کیا رکھنی ہے! اچھا خطیب وہ ہے جسے سُن کر لوگ مبہوت رہ جائیں۔ شہباز شریف کی بات سُن کر لوگ مبہوت رہ گئے! کِسی کو ہوش نہ رہا کہ اُنہیں گریبان اور ہاتھ کی ترتیب درست رکھنا یاد دلایا جائے!“

پانچ برسوں میں اللہ نے ہمیں وزرائے اعلیٰ کے اعتبار سے خاصی ورائٹی سے نوازا ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اپنے بیانات میں لطافت کے دریا بہاتے آئے ہیں۔ انشاءاللہ خاں انشاءہوتے تو نواب اسلم رئیسانی کے بیانات کو بنیاد بناکر ”دریائے لطافت“ سُپردِ قلم کرتے! مِزاح لکھنے والوں نے رئیسانی صاحب کے بیانات سے خوب استفادہ کیا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو مِزاح کی زیادتی کا شکوہ بھی پایا گیا ہے!

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی کیا کرتے رہے ہیں، کوئی نہیں جانتا۔ ہاں، اُن کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں عوامی نیشنل پارٹی کو خوب استحکام ملا ہے۔ پارٹی اِس اعتبار سے اثاثہ بن گئی ہے کہ اُس سے تعلق رکھنے والوں کے اثاثے بڑھ گئے ہیں! صوبے کا معاملہ یہ ہے کہ
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے

سندھ کی عجیب حالت ہے۔ لوگ کہتے ہیں بڑی بات ہے کہ 80+ وزیر اعلیٰ نے صوبے کے نظم و نسق کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ہم کیا کرلیں گے؟ کوئی ذرا عوام سے بھی تو پوچھے کہ وزیر اعلیٰ سمیت پورے صوبے کا بوجھ اُٹھاتے رہنے سے اُن پر کیا بیتی ہے! کاروباری دُنیا میں سلیپنگ پارٹنر کا سُنتے آئے ہیں، زرداری صاحب کی مہربانی سے سلیپنگ چیف منسٹر بھی دیکھ لیا! ایسے میں صوبے پر اندھیر نگری کا گمان کیونکر نہ ہو؟

ہم نے اپنے وزرائے اعلیٰ پر کرپشن، نا اہلی، غفلت شعاری اور اقربا پروری سمیت خدا جانے کتنے ہی خون معاف کردیئے ہیں۔ کیا شہباز شریف کو ایک محاورے کے غلط استعمال پر معاف نہیں کیا جاسکتا؟ شہباز شریف نے جوش و خروش کی انتہا میں بھی وہی بات کہی جو اُن کے دِل میں تھی یعنی عوام کو یاد دِلا دیا کہ اُن کے ہاتھ قائدین کے گریبان تک پہنچنے کے لیے بنے ہی نہیں! ٹھیک ہی تو ہے، عوام کے ہاتھ مُلک کے لیے کچھ کر گزرنے کی خاطر یا پھر پھیلنے کے لیے تخلیق کئے گئے ہیں۔ خود عوام کو ”پھیلنے“ کی اجازت نہیں! پیرایہ بیان خواہ کچھ ہو، جن تک ہاتھوں کو پہنچنا ہے وہ گریبان تو عوام ہی کے رہیں گے!
غالب نے کہا تھا۔
وفاداری بشرطِ اُستواری اصل ایماں ہے
مَرے بُت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو!

شہباز شریف بھی بات پر قائم ہیں۔ اُلٹی بات کرکے بھی وہ سیدھی بات کرگئے ہیں! یعنی اُن کے ظاہر و باطن میں فرق نہیں، جو دِل میں ہے وہی زبان پر بھی ہے!
محترم ظفر اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اُس پر ظفر
آدمی کو ”صاحب کردار ہونا چاہیے!

غالب کے بیان کردہ اُصول کے مطابق ایمان اور محترم ظفر اقبال کے وضع کئے ہوئے فارمولے کے تحت کردار کے معیار پر شہباز شریف پورے اُترتے ہیں! اچھا ہے کہ ہم اور آپ گریبان اور ہاتھ والی بات کو بھول ہی جائیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524573 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More