جعلی عامل کیسے کام کرتے ہیں؟

پیارے ملک پاکستان میں یہ مشہور ہے کہ اگر کوئی بیروزگار ہو اورنہ کام ملتا ہو نہ دام تو وہ تعویذ گنڈوں کا گنڈاسہ چلا کر سبھوں کو کِل کر کے نوٹ چھاپ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بڑے چھوٹے تما م شہروں کے ہر گلی محلے میں ایسے جعلی عامل لوگ بڑی چھوٹی داڑھیاں رکھے، کالی کالی پھٹکار زدہ شکلوں کے ساتھ بکثرت پائے جاتے ہیں۔جن کا کام لوگوں کو اپنے دام میں پھنسا کر آم کی گھٹلی آم کے دام بیچ کر ہزاروں لاکھوں روپے اینٹھنا اور خواتین کو بلیک میل کر کے انکے ساتھ زیادتی کے واقعات بھی اکثر سامنے آ تے رہتے ہیں۔اخبارات میں انکے لاکھوں کے اشتہارات دیکھ کر لوگوں کی اشتہا عروج پر اور وہ حیران ہو تے ہیں کہ کیا یہ واقعی یہ اتنا کماتے ہونگے جتنے کے اشتہار دیتے ہیں۔کچھ اسطرح کے ٹوٹے آپ کی نظر سے بھی لازمی گذرے ہونگے ، مثلا:شہنشاہِ جنات، فخر پاکستان ، روحانی عامل، سلیمانی استخارہ، ہر مسئلے کا حل صرف ۳ گھنٹوں میں، عملیات کی دنیا کا مشہور نام، روحانی پیشوا، دکھی بہن بھائیوں کے نام اہم پیغام، محبت دولت اور شہرت کی جنگ میں کامیابی ہو گی،انعامی چانس صرف ایک فون کے فاصلے پر، امیگریشن میں یقینی کامیابی، من پسندشادی، طلاق کا مسئلہ، رشتوں کی بندش، سفر میں رکاوٹ،دشمن کو زیر کر نا،محبوب کو تابع کرنا،نظرِ بد، گھریلو ناچاقی، شہنشاہِ جنات فلاں بنگالی،موءکلات کی طاقت سے محبوب کے دل پر قبضہ،لائف ٹائم گارنٹی، کالے علم کی کاٹ پلٹ کا ماہر، اماں فلانی بنگالین کا اہم اعلان۔ وغیرہ وغیرہ۔

ذرا انکے اشتہار ا ت کے ڈیل ڈول دیکھیے:۔۔۔ فلاں بابافلاں والے۔ آئیں اور دل کی مراد پائیں۔روتے آئیں، ہنستے جائیں۔ جیسے منور ظریف کی فلمیں دکھاتے ہوں۔ ایک کہتا ہے بہتر گھنٹے میں محبوب آپکے قدموں میں، دوسرا کہے گا کہ چوبیس گھنٹوں میں محبوب آپکا، تیسرا تو حد ہی مکا دیگا نہ کہ صرف دو گھنٹے میں محبوب آپکے پاﺅںبلی کی طرح چاٹ رہا ہوگا۔ پاﺅں نہ ہوا سالن کی خالی پتیلی ہوگئی۔ساتھ میں رابطے کے لیے آدھا درجن موبائل نمبرز بھی دیے گئے ہونگے کہ پریشانی نہ ہو۔ ایک اور صاحب کا ایڈ دیکھیں : عامل فلاں فلاںبنگال والے۔ ہندوستان، بنگلہ دیش ، سری لنکا اور برما کے جنگلوں میں پچاس سالہ تپسیا کے بعد آپکے شہر میں ، آپکے تمام مسائل کا حل صرف ایک فون کے فاصلے پر۔ ایک ایڈ میں ایک بابے کی جنگل میں اکڑوں بغیر کپڑوں کے ممنوعہ سی ، بندروں سے ملتی جلتی ، پھٹکار برستی تصویر کے ساتھ لکھا ہوگا کہ میرے چلے ہوئے وار کو لوٹانے والے کو پانچ لاکھ کا چیلینج۔ حالآنکہ اپنے کپڑے بندر سے نہ لوٹوا سکے ہونگے۔ آگے فرمائیں گے کہ جن کے کام رکے ہوئے ہوں، ہم سے کرائیں، ہر کام گارنٹی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ نہ ہوے نے کی صورت میں تما م رقم واپس۔ تعویذ نہ ہوا ملت فین یا سلیقہ سلائی مشین ہوگئی ۔ پھر ایک اور عامل صاحب کا ایڈ دیکھیں ۔ کالی ماتا، کالی دیوی، مہا کالی اور ہوائی مخلوق کے گرو، آپ دنیا میں کہیں بھی ہوں ، فون پر تما م مسائل حل کرائیں۔ ہمارے موکل ہر جگہ کام کر تے ہیں ۔ موئکل نہ ہوئے ملباری یا پٹھان ہوگیا کہ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ ساتھ میں چند جعلی خطو ط بھی شا ئع کیے گئے ہونگے کہ: میرا نام فلاں فلاں ہے ،میں مانچسٹر میں رہتی ہوں، میرے میاں بہت ہی آوارہ ، جواری، شرابی اور گوریوں کے چکر میں رہتے تھے، بابا جی کی کر پا سے اب وہ مجھ پر ایسے لٹو ہوئے ہیں کہ ہر وقت میرے پاس پڑے رہتے ہیں اور میں انہیں کام کے لیے بھی گھر سے دھکے دیکر نکالتی ہوں۔ ایک اور خط کچھ یوں ہوگا کہ : میرے میاں بہت ٹیڑھے تھے، شاید کتے کی دم کی طرح، جب سے بابا جی سے تعویذ گنڈے کرائے ہیں اتنا صراطِ مستقیم پر چلتے ہیں کہ آنکھ اٹھا کر بھی کسی کو نہیں دیکھتے صرف کن اکھیوں سے دیکھتے ہیں یا نیچے اور اکثر نیچے دیکھنے کی وجہ سے راہ چلتے خوا تین سے جان بوجھ کر ٹکرا جاتے ہیں اور ہر عورت کو اسکی عمر کے حساب سے بہن، باجی، اور خالہ ، ماسی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مجھے بھی کئی بار ان ناموں سے پکار کر نکاح میں خلل واقع کر کے اکثر حلالہ کر اتے رہتے ہیں۔ایک اور صاحب کچھ اسطرح رقمطراز ہونگے کہ : میں بہت پریشان تھا کہ مجھے نوکری اور چھوکری دونوں ہی نہ ملتی تھیں۔ پر بابا جی کی کرپا اور دیا سے اب میں دونوں کا مالک ہوں پر دعا کرتا ہوں کہ نوکری ہمیشہ رہے پر چھوکری ذرا ہری مچ کی طرح تیکھی ہے اللہ کرے وہ ہمیشہ کے لیے جان چھوڑ جاوے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ہمارے ہاں کی بہت سی فلمی اور اسٹیج اداکارائیں بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کو ایسے بہت سے کام کرواتی رہتی ہیں۔

اب جناب آتے ہیں اصل قصہ کہانی کی طرف۔ ہمارے للو میاں کے نام سے تو آپ بخوبی واقف ہیں ہی اور یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ بھی اپنی بیگم کے ستائے ہوئے ہیں۔ ان کے دو ست نما دشمنوں نے انہیں مشورہ دیا کہ یار! یہ چودھویں صدی ہے اور ہر دکھ ، پریشانی اور بیماری کا علاج ممکن ہے۔ آپ بھی کسی عا مل سے رابطہ کر کے اپنی بیگم صاحبہ کو راہِ راست پرلا سکتے ہیں اور وہ بھی آپکے پاﺅں دھو دھو کر پیے گی۔لو جناب! للو میاں نے بھی اخبار میں ایک اشتہار دیکھ کر ایک جگہ فون کھڑکا دیا، جسمیں لکھا تھا کہ گھر بیٹھے فون پر ہر مسئلہ حل کرائیں چا ہے آپ دنیا میں کہیں بھی ہوں۔ فون پر معلومات لیں تو بتا یا گیا کہ آپ ہمارے آن لا ئن اکاﺅنٹ میں ابھی رقم جمع کرائیں، ہمیں ابھی کنفرمیشن کا ایس ایم ایس موصول ہو جائیگا اور پھر ہم آپکا کام اپنے مو ئکل بھیج کر ابھی کر دینگے۔ للو میاں نے سوچا کہ یار! فون پر کیا کام کرنا وہیںجاکر حال چال لیتے ہیں۔

لیں جناب ! للو میاں ایک دوست سے کچھ ادھار سدھار لیکر پہنچے ایک عامل کے آستانے پر اورملاقات ہوئی انکی ایک قبول صورت سی سیکریٹری سے ۔اسنے حال چال لیکر اور چند دلربا ادائیں دکھا کر، پانچ ہزار روپے لیکےرتھوڑی دیر بعد اندر عامل صاحب کے پاس بھیج دیا۔ پر للو میاں بیچارے یہ نہ دیکھ سکے کہ سیکرٹری نے انکے سارے مسائل موبائل میں پہلے ہی ریکارڈ کر کے اندر بابے تک پہنچادیے اور ایک منحوس سی شکل کا کالا باباللو میاں کو دیکھتے ہیں بولا کہ بچا: بیوی کا ستا یا ہوا ہے، مار تی بھی ہے، کام بھی کراتی ہے ، ڈانٹتی بھی ہے، خرچہ بھی نہیں دیتی۔ ہوںںںںں۔ تیرا کام ہو جائیگا بچہ۔ لا پانچ ہزار روپے دے ۔ للو میاں بولے کہ سرکار ابھی پانچ ہزار تو میں باہر دے کر آرہا ہوں تو بولے کہ وہ اسکے تھے یہ میرے ہیں۔ لا جلدی نکال پیسے اور کھسک یہاں سے کہ میرے موئکل تیرے گھر کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔عامل صاحب کے کمرے میں لٹکی مختلف مورتیاں، ہڈیاں ، کالے چراغ اور خوفناک تصاویر سے ویسے ہی للو میاں کا دل دہل رہا تھا لہذا انہوں نے جلدی سے عامل کے کمرے سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔ دس ہزار روپے لٹا کر للو میاں گھرکی طرف روانہ ہوئے تو دل ہی دل میں ہبت خوش تھے کہ آج تو بیگم میر ی ٹانگیں د ابے گی اور چائے پانی کا بھی ضرور پوچھے گی کہ عامل کے مﺅکل ضرور گھر پہنچ کر بیگم کو لتاڑ چکے ہونگے-

مگر یہ کیا کہ گھر پہنچتے ہی بیگم نے پہلے تو ایک جوتا کھینچ کر للو میاں کی گدی میں مارا جس سے ان بیچاروں کو رات میں سورج نظر آنے لگا ، پھر دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو بیچارے کیا بتاتے ۔ ایک دوست کی والدہ کے چہلم کا بتا کر جان چھڑ انے کی کوشش کی پر بیگم نے یقین نہ کیا اور جھوٹے کا طعنہ دیتے ایک لات رسید کر تے حکم صادر کیا کہ کچن سے خود ہی کھانا لے لو اور سارے برتن دھوکر آ ئیں اور مجھے دبائیں۔ یہ سنکر للو میاں تو سٹپٹا ہی گئے کہ یار دس ہزار میں لاتیں دبانے کی بجائے کھانے کو ملیں ۔ خیر کیا کرتے بیچارے، اپنی پھوٹی اور سوئی قسمت کو کوستے، روتے اور دس ہزار کا افسوس کرتے بیچارے کچن میں گھس گئے اور بیگم کے تمام احکامات کی تعمیل کی۔

پہلے ناکام تجربے کے کچھ روز بعد پھر انہیںایک دوست نے دوسرے ایک عامل کے پاس بھیجا۔ شکر ہے کہ ان موصوف کا کوئی سیکریٹری نہ تھا۔ نمبر آنے پر عامل صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے تو ایک بڈھا ، توے کے رنگ سے بھی کالا کھوسٹ، منہ میں پان دبائے اکڑوں بیٹھا پایا جیسے کہ لیٹرین میں بیٹھا ہو اور صرف لوٹے کے انتظار میں ہو ۔ للو میاں نے اپنا مدعا بیان فرمایا۔ عامل صاحب گویا ہوئے کہ بچو پہلے تو تیرے اس کام کی فال نکالنی پڑیگی او ر اسکے تین ہزار روپے ہونگے۔ للو میاں نے راضی ہو کر پیسے دے دیے کیونکہ اصل مدعا بیگم کو کسی بھی حال میں راہِ راست پر لانا تھا ۔ کچھ دیر عامل صاحب کاغذ پر کچھ آڑی تر چھی لکیریں کھینچتے اور بڑ بڑاتے رہے ، پھر بولے ! میاں آپ کے گھر پر کالا علم کر وایا گیا ہے کہ آپکے ہاں ہمیشہ نا اتفاقی رہے اور اس کام میں دو عورتیں اور ایک مرد کا ہاتھ ہے۔ یہ سنکر للو میاں سٹپٹا گئے۔ انکے ذہن میں فورا بیوی کے تما م رشتے دار گھومنے لگے کہ یہ ضرور فلاں فلاں کا کام ہوگا۔۔۔ للو میاں نے پوچھا کہ کیا انکے نام جان سکتا ہوں۔ عامل صاحب بولے کہ میاں آپ نام وام چھوڑو اور بس اس کام کا اتارا کرا لو، ساری عمر خوش رہو گے۔ پوچھا کہ جناب یہ اتارا کیسے ہوگا ۔تو بولے! میاں یہ میرا کام ہے، جیسے کہوں ویسے کرتے جانا۔ عامل صاحب نے للو میاں کو تین دواﺅں کو طرح تین طرح کے تعویذ تھمادیے۔ ایک نہانے کا، ایک جلانے کا۔ ایک پلانے کا۔ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اگر اپنے دشمنوں کوچلتے پھر تے دیکھنا چاہو تو اگلی بار کسی دس بارہ سال کے لونڈے کو لے آنا، میں ایک عمل کرونگا اور سب کچھ تمہیں فلم کی طرح اسکے انگوٹھے کے ناخن میں نظر آجائیگا۔

للو میاں خوشی خوشی تعویذ لیکر پہنچے گھر اور سب سے پہلے ایک جلانے والے تعویذ کی باری تھی۔ للو میاں نے چپکے سے ایک کونے میں تعویذ جلانے کو شش کی تو چھوٹے منے نے دیکھ کر اماں کو بتا دیاکہ ابا سگریٹ پی رہے ہیں ۔ بس پھر کیا تھا للو میاں نے لاکھ کہا کہ میں فالتو کاغذ جلا رہا تھا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ پر شکی مزاج بیگم نہ مانی ۔۔ اور مار کوٹ کر ہی جا ن چھوڑی اور اسطرح یہ جلانے والا کام ادھورا رہ گیا۔ پھر جناب ایک تعویذ کو جوتے سے مارنا تھا، پھر بیگم نے آواز سن لی کہ شاید میاں صاحب کسی بچے کو نہ کوٹ رہے ہوں۔ وہاں سے بھی بمشکل جان چھڑائی کہ میں تو مکھیاں مار رہا تھا۔ البتہ نہانے میں مسئلہ نہ ہوا کہ بالٹی بھر کر تعویذ اس میںڈالا اور نہا دھوکر با ہر آگئے۔ اب مسئلہ تھا کہ بیگم کو تعویذ کیسے پلایا جائے۔کچھ سوچنے کے بعدللو میاں کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا کہ بیگم کو چائے کہ جگہ آج شربت پلایا جائے اور اسمیں تعویذ ڈال دیا جائے۔کیونکہ عامل بابا نے کہا تھا کہ گرم شے میں تعویذ نہیں ڈالنا ہے۔ اپنے اس خیال کو عملی جامہ

پہنانے کے لیے موصوف شربت بنا کر خوشی خوشی لیکر بیگم کے پاس پہنچے تو بیگم چلائیں کہ میں نے تو چائے کا کہا تھا یہ شربت کیوں؟ للو میاں بولے کہ بیگم آج پتی ختم تھی لہذا آج اسی پر گزارہ کرلو۔ ابھی بیگم گلاس اٹھانے ہی لگی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی اور سالی صاحبہ بمعہ آدھا درجن بچوں کے آن وارد ہوئیں۔ بیگم نے بہن کو دیکھتے ہی شربت کا گلاس خود پینے کی بجائے بہن صاحبہ کو تھمادیا اور بچوں کے لیے مزید شربت کاآرڈر دے دیا۔یوں پھر یہ کاروائی بھی نہ ہو سکی۔تاہم للو میاں کچھ روز بعدیہ تعویذ بیگم کو پلانے میں کامیاب رہے لیکن انکے مزاج میں تبدیلی کے بجائے مزید ابتری آتی گئی۔ موصوف پھر اسی تعویذوں والے بابے کے پاس پہنچے اور اسے بتا یا کہ بیگم کو کوئی افاقہ نہ ہے پر گھر میں فاقے ہونے لگے ہیں کیونکہ تمام رقم ان تعویذ گنڈو ں پر جو خرچ کی جارہی ہے۔ خیر جناب! کالی شکل والے اس بابے نے للو میاں کو تسلی دی کہ عمل ذرا الٹا ہو گیا ہے، میں مزید کچھ وظائف وغیر وہ کرونگا آپ مزید پانچ ہزار لیکر دوبارہ تین روز بعد حاضر ہوں۔تاہم للو میاں دوبارہ اس بڈھے کا پاس نہ گئے کہ جیب میں اب پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔

پھر ایک روز للو میاں بیچارے مت مارے کو کسی نے ایک اور مت دی کہ فلاں جگہ پر ایک بنگالی عورت یہ کام کرتی ہے اور بہت ہی پہنچی ہوئی ہے۔ لیں جناب للو میاں کو پھر کھرک ہوئی بیگم کو تھلے لگانے کی اور موصوف جاپہنچے پھر پاس موصوفہ کے : پہلے پہل تو للو میاں اس کہ چڑیل سے ملتی جلتی شکل اور کالا پھٹیچر کلر دیکھ کر ہی ڈر گئے پر پھر ڈرتے ڈرتے مدعا بیان کر نے ہی والے تھے کہ عاملہ صاحبہ نے کچھ نفسیاتی قسم کے سوال شروع کر دیے جو کہ آجگل ہر گھر میں ہوتا ہے مثلا: بیگم لڑتی ہے، پیسے میں برکت نہیں، خرچہ پورا نہیں ہوتا، بچے کہنا نہیں مانتے اور لڑتے ہیں۔ ذہن پرہر وقت ٹینشن اور دباﺅ رہتا ہے۔ سینے پر بوجھ رہتاہے۔ نیند نہیں آتی، بھوک ٹھیک سے نہیں لگتی۔ ڈراﺅنے خواب آتے ہیں۔ ہر وقت سوچتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ جس سے کہ للو میاں بہت امپریس ہوئے کہ یہ تو واقعی کوئی بہت پہنچی ہو ئی چڑیل لگتی ہے۔ موصوفہ نے فرمایا کہ آپ کو ان تما برے حالات سے چھٹکار ا مل سکتا ہے تاہم تمہیں میرے کہنے پر عمل کر نا ہوگا۔ سب سے پہلے تو چودھویں کی آدھی رات کو سمند ر میں ایک ٹانگ پر کھڑا ہوکر فلاں وظیفہ کر نا ہوگا اور ساتھ میں لیموں کاٹ کاٹ کر پھینکنے ہونگے ۔ للو میاں بیچارے توآدھی رات کا سنکر ویسے ہی گھگیا گئے۔ بولے کہہ ماں جی! کچھ اور آسان کام بتا دیجئے۔ مو صوفہ پھر گویا ہوئیں کہ مردے کا کفن، مردے کی ہڈیاں یا جانور کی حرام ہڈی لا سکتے ہو ، تو للو میاں نے کپکپاتے ہوئے پھر انکار کر دیا۔ اماں بی پھر پھوٹیں کہ اچھا کہیںسے کالے الو یا ہد ہد کا خون ، گدھے کو کھوپڑی، اصلی کستوری یا کسی نوزائیدہ بچے کا خون یا لاش لادو۔ للو میاں تو یہ سب نام سن کر ہی دہل گئے اور اٹھ کر بھاگنے ہی والے تھے کہ پھر پوچھا کہ اماں جی ! کوئی اور آسان سا وظیفہ بتادیں ، تو بولیں کہ ایک عدد مورتی یا کپڑے کا گڈا بنا لاﺅ جس میں پڑھ کر سو ئیاں پرووں گی پھر اسے آدھی رات کو قبرستان میں دبا آنا۔ یا پھر بیگم کے سر کے بال یا اسکا ڈوپٹا یا قمیض لادو اس پر پڑھائی کر دونگی قبرستان میں دبا دینا۔ یہ کام بھی للو میاں کے لیے ممکن نہ تھا، لہذا پھر انکار کر دیا۔پھر پوچھا کہ بی بی کوئی اور آسان کام بتا دیجیے۔ تو بولیں کہ : آپ ان سب جھنجھٹوں کو چھوڑو اور مجھے مبلغ پچیس ہزار وپے لادو سب کام میں خود ہی کر لونگی اور بیگم آپ کی ہو کر رہ گے اور پاﺅں چاٹنا ، دابنا تو کیا تمہاراتھوک تک چاٹے گی ۔ پچیس ہزار روپوں کا سنکر للو میاں نے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔

للو میاں راستے بھر یہ سوچتے رہے کہ یار اگر ان عاملوں کی اتنی ہی پہنچ ہے اور انکے مﺅکل پوری دنیا میں کام کرتے ہیں تو یہ لاکھوں مسلمانوں کے قاتل امریکی صدر اوباما یا بش کو کیوں نہیں مار دیتے؟ انکے پتلے بنا کر ان میں سوئیاں لگا کر انہیں کسی قبرستان میں غرق کیوں نہیں کر دیتے؟ ملک کا بیڑا غرق کرنے، دن رات لوٹنے اور اپنے بنک اکاﺅنٹ بھرنے اور ملک کو لوٹ کر قرضدار کرنے والے، مہنگائی بڑھا کر غریبوں کی زندگی اجیرن کرنے والوں پر کیوں تعویذ گنڈے نہیں چلاتے؟ کیوں انکی مورتیاں بنا کر انمیں سوئیاں گاڑ کر اسے قبرستان میں نہیں دباتے؟ کیوں انکے موئکل اسرا ئیل کو تباہ و برباد نہیں کرتے؟ جس نے فلسطینیوں پر مظالم ڈھاکر عالمِ اسلام کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں ہوئی قتل وغارت کو اپنے نام نہاد عملیات سے کیوں نہیں رکواتے؟ان پر کیوں بندش نہیں کرواتے؟ اپنے عمل سے ڈرون حملے کیوں نہیں رکواتے؟اربوں روپوں کے قرضے معاف کرانے والوں سے یہ عمل کر کے چیف جسٹس صاحب کی طرح یہ رقم کیوں نہیں اگڑواتے؟بجلی ، گیس، پانی، پٹرول کو عام آدمی کی پہنچ سے دور کر نے والوں کے جسموں کو سوئیوں سے کیوں نہیں داغتے؟عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑانے والوں سے ان پر عمل کر کے کیوں عمل نہیں کرواتے؟پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹنے والوں پر انکے عمل کیوں اثر نہیں کرتے؟ عوام کی حلا ل کمائی کو لوٹ پر بیرونی ممالک میں بنک بھرنے والوں سے انکے موئکل حساب کتاب کیوں نہیں کرتے؟عوام کے نام نہاد فراڈ، جعلی اور ٹیکس چور نمائندوں سے ٹیکس کیوں وصول نہیں کراتے؟موٹی موٹی توندوں والے مولوی حضرات کی توندوں میں سوئیاں چبھو کر انکی گیس خارج کیوں نہیں کراتے؟ اردو انگریزی سے نابلد عوام کے جعلی اسمبلی ممبران سے عوام کی جان کیوں نہیں چھڑواتے؟ اربوں روپے الیکشن پر خرچ کرکے عوام کے درد میں گھلنے والے ، عوام کی نام نہاد خدمت کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے والے مذہبی اور غیر مذہبی لیڈروں کویہ راہِ راست پر کیوں نہیں لاتے؟ اور یہ کہ کوئی اچھا سا عمل کر کے میری شادی ایشوریا رائے، کرینہ کپوریا قطرینہ کیف سے کیوں نہیں کرا دیتے کہ موجودہ چنگیز خان اورسومو پہلوان جیسی شکل والی بیوی سے ہی جان چھوٹ جاوے؟ اپنے جعلی علم سے میرا ایک کروڑ کا پرائز بانڈ کا نمبر کیوں نہیں لگوا دیتے؟ دراصل میں یہ سب لٹیرے اور فراڈیے ہیں اور عوام کو ورغلا کر اور انکی مجبور یوںسے فائدہ اٹھا کر انہیں بلیک میل کر تے ہیں۔ یہی کچھ سوچتے اور دل ہی دل میں جلتے کڑھتے للو میاں بیچارے گھر کے پاس پہنچے تو مسجد سے اذان کی آواز آر ہی تھی اورپریشان حال للو میاں بیچاے نہ چاہتے ہوئے بھی مسجد میں گھس گئے۔

نماز با جماعت پڑھ کر للو میاں کو بہت اطمیان سا ہوا ۔ پھر نما ز کے بعد کچھ لوگ تلاوت کرنے لگے اور کچھ دین ، اسلام اور حضور پاک کی احاد یث اور سنتیں بیان کر نے لگے اور للو میاں بھی اس محفل میں شریک ہو گئے ۔ کچھ دیر اس روحانی محفل میں بیٹھ کر انہیں لگا کہ شاید وہ ٹھیک جگہ پر آ گئے ہیں۔ اتفاق سے یہاں پر انکی ملاقات ایک بزر گ سے ہوئی او رباتوں باتوں میں انہوں نے اپنا دکھ انکے گوش گذار کر دیا۔بزرگ نے للو میاں کی بات توجہ سے سنی، انکے حق میں دعا کی اور صرف ایک ہی مشورہ دیا کہ آپ اور تما م گھر والے نماز کی پابندی کریں اور درود شریف کا ورد کیا کریں۔ اللہ پاک آپکے تمام مسائل حل کر دینگے ُپھر محترم بزرگ کی ہدایت پر عمل کر کے ایسا ہی ہواکہ جو کام للو میاں ہزاروں روپے خرچ کر کے بھی نہ کراسکے تھے وہ نماز اوردرود پاک نے چند دنوں میں ہی کر دیا۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247508 views self motivated, self made persons.. View More