میرے عزیز ہم وطنوں!
بھارت نے گذشتہ روز پاکستانی کرکٹ ٹیم کو آخری ون ڈے معرکہ میںشکست دے کر
اپنی کچھ رہی سہی عزت برقرار تو رکھ لی مگر پاکستان نے گھر کے شیروں کو
انکے گھر میں شکست دے کر سیریز جیت لی۔ یہاں وہی انسانی غفلت کا مظاہرہ
دیکھنے کو ملا جس کا ہم عملی زندگی میں اکثر وبیشتر سامنا کرتے ہیں کہ جب
ہم کامیابی کے پاس پہنچ جاتے ہیں تو حوصلہ ہار یا ذہنی طور پر کچھ زیادہ ہی
سکون کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کامیابی زیادہ دور نہیں ہے؟ کھیل میںہار جیت
تو ہوتی ہے مگر ایسی ہار جو کل ہوئی اس میں لاپرواہی کا عنصر زیادہ شامل
تھا؟ کامیابی مستقل مزاجی اور آخری دم تک چست رہنے کے بعد ہی حاصل ہوا کرتی
ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نے تینوں ون ڈے میچوں میں اپنی بہترین کارکردگی کا
مظاہرہ کھیل کے تمام تر شعبوں میں دکھایا۔ ماسوائے آخری میچ میں بیٹنگ میں
چند کھلاڑیوں کے ناکام ہونے کے مجموعی طور پر سب نے اپنی کارکردگی سے اپنی
صلاحیتوں کو منوایا ہے۔اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان ہی حقیقی معنوں
میں عالمی چیمپئن کہلوانے کی مستحق ہے جس نے بھارت جیسی عالمی چیمئپن کو
شکست ایسی دی ہے کہ وہ مدتوں یاد رکھے گی۔
مصباح الحق کی کپتانی بھی تینوں میچوں میں بہت حد تک بہترین رہی ہے مگر
انہوں نے ماسوائے تیسرے میچ کے دیگر دو میچوں میں خاطر خواہ کاردگی کا
مظاہرہ نہیں دکھایا ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ آئندہ دورہ جنوبی افریقہ
میں فارم نہ ہونے کی صورت میں پاکستانی بہت سے مسائل میں گھر سکتی ہے۔جہاں
تک کھلاڑیوںکی بات کی جائے تو محمد حفیظ، جیند خان اورناصر جمشید نئے قومی
ہیروز کی فہرست میں شامل ہوئے ہیں۔اگرچہ محمد حیفظ پہلے ہی اپنی عمدہ
کارکردگی کی وجہ سے پاکستانی کرکٹ ٹیم میں ایک خاص مقام بنا چکےہیں اور
عالمی سطح پر بھی نبمرون آل راونڈر بھی ہیں۔لیکن اس دورہ بھارت میں انہوں
نے ایک بار پھر اپنی عمدہ صلاحیتوں کا اطہار کر کے اپنے آپ کو منوا لیا
ہے۔جبکہ بولر کی فہرست میں نمبرون پر آنے والے سعید اجمل نے حسب معمول ابھی
بولنگ کر کے بہترین بولر ہونے کا ثبوت ایک بار پھر دے دیا ہے۔
دوسری طرف نئے بولر محمد عرفان نے بھی اعلی بولنگ کر کے شائقین کے دل جیت
لیے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ جیند خان نے عمدہ ترین کارکردگی دکھا کر ثابت کر
دیا ہے کہ وہ مستقل ممبر کے طور پر پاکستانی کرکٹ کا اہم ہتھیار بن کر
فتوحات میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا
سکتا ہے کہ تینوں میچوں میں اہم ترین کھلاڑیوں کو جیند خان نے آوٹ کر کے
بھارت کی کمر توڑ دی تھی۔اور کوئی بھی بھارتی کھلاڑی اسے کھل کر کھیلنے
تیار نہیں تھا۔جیند خان کو مستقبل کا وسیم اکرم بھی کہا جارہا ہے ۔اگر اس
پر کرکٹ بورڈ نے محنت کی اور بہترین کوچ کی مدد سے اسکی صلاحیتوں کو سامنے
لانے میں اس کی مدد کی تو جیند خان پاکستانی کرکٹ ٹیم کا مستقبل کا اہم
اثانہ اور خطرناک ترین بولر کے روپ میں سامنے آ سکتا ہے۔
جہاں تک بات ہے ناصر جمیشد کی تو اس نے اپنی پوزینس کو بحیثیت اوپنر پکی کر
لی ہے۔بھارت جیسی ٹیم کے خلاف عمدہ اندازمیں سنچری کرنا کوئی معمولی
کارنامہ نہیں ہے اور اس نے یہ کارنامہ کوئی ایک بار نہیں مسلسل تین بار
سرانجام دیا ہے۔اس نوجوان اوپنر سے مستقبل میں بھی بہت سی امیدیں وابستہ کی
جارہی ہیںکہ عمدہ کارکردگی دکھا کرٹیم کی فتوحات میں اہم کردار سرانجام دے
گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو مواقعے فراہم کھیلنے کے کئے جاتے رہیں ماضی
کی طرح ٹیم سے باہر نہ کیا جائے، محمد حیفظ کے ساتھ عمدہ شراکت کر کے دورہ
بھارت میں اس نوجوان کھلاڑی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ مستقل بنیاد پر ٹیم کا
حصہ بن کر مزید کارنامے سرانجام دے سکتا ہے۔
دورہ بھارت میں اگرچہ سیریز میں تو کامیابی حاسل ہوئی ہے مگر بہت سی خامیاں
بھی سامنے آئی ہیں جن پر کام کر کے انکو دور کرنے کی ضرورت ہے۔یہاں میں
کرکٹ بورڈ سے بھی التماس کروں گا کہ جنوبی افریقہ کے اہم دورہ پر محمد یوسف
جیسے کھلاڑی کو بھی ٹیم کا حصہ بنانا چاہیے، محض مصباح الحق،یونس خان
اوراظہر علی پرتکیہ نہیںکرنا چاہیے باقی دیگر کھلاڑی اگرچہ عمدہ کھیل سکتے
ہیں مگر تجربے کا کوئی مول نہیں ہے۔ہوسکے تو محمد یوسف کو دورہ جنوبی
افریقہ شامل کر لیا جائے تاکہ ناصر جمشید ،اظہر علی اور عمر اکمل و دیگر
کھلاڑیوں کو اس سے بھی سیکھنے کا موقعہ مل سکے۔یہاں ایک بار پھر سچن
ٹنڈولکر کی بات کروں گا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ خراب کارکردگی کے باوجود کھلا
سکتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے ہیں؟ |