ہر خوشہ گندم کو جلا دو

جب پاکستان کے سیکرٹری دفاع تسلیم کرلیں کہ دہشتگردوں نے ہمارے کچھ لوگوں کو خرید لیا ہے اور پشاور ائیر پورٹ پر حملہ ہماری آزمائش تھا تو سمجھ لینا چاہیے کہ اداروں میں کتنی بے بسی ہے کہ انھیں یہ تو معلوم ہے کہ دہشت گردوں نے "کچھ" لوگوں کو خرید لیا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ یہ لوگ "کون "ہیں ۔؟۔وزیر داخلہ کو دہشت گردوں کی کال تو ٹریس ہوجاتی ہے کہ" اسلام آباد آنے والوں کا استقبال کیا جائے گا "۔لیکن انھیں استقبالیہ دینے والوں کا ٹھکانہ نہیں معلوم ۔حکومت کی بچارگی قابل دید ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ طالبان پاکستان ہتھیار بے شک نہ پھینکیں لیکن مذاکرات کرلیں۔حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ مفاہمتی امور کے ماہر جناب زرداری سے طالبان کیونکر محفوظ رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں کوئی بھی ایسی مذہبی یا سیاسی جماعت نہیں بچی جو ان کے مفاہمتی تیرکا شکار نہ ہوچکی ہو۔شائد اس جانب سب پر بھاری ، جناب زرداری کی توجہ نہیں اور عدم تشددکے پیروکاروں پر تکیہ کر بیٹھے کہ باچا خان کا فلسفہ جس پر وہ خود عمل نہیں کرتے ، دہشتگردوں کو غنی باباکی انقلابی نظمیں سنا سنا کر امن کیجانب راغب کر لیں گے لیکن اسفندیار ولی خان صاحب اگرخود پر حملہ ہونے کے بعد پاکستان کے دوروں کے بجائے رہنے کو زیادہ ترجیح دےتے تو شائد مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آتا اور انھیں اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ" وقت ضائع کئے بغیر امن مذاکرات شروع کئے جائیں ، وفاقی حکومت مذاکراتی عمل میں پہل کرے ۔"بہت دیر تو پہلے ہی ہوچکی ہے کہ خیبر پختونخواکا چپہ چپہ دہشت گردی کی آگ میں راکھ ہوتا جا رہا ہے ۔کوئی اسکول ، ادارہ، اعلی سرکاری عہدےدار، سیاسی رہنماءاور کوئی بےگناہ اس سے محفوظ نہیں ہے۔ادھر امریکہ افغانستان کی طویل تریں جنگ میں الجھ کر رہ گیا اور اس کی راتوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں کہ انکے جاتے ہی طالبان دوبارہ افغانستان پر قبضہ کرلیں گے ۔اس لئے امریکہ جاتے جاتے افغانستان سمیت پاکستان کو اس قدر الجھا کرچلے جائے گا جیسے انگریزوں نے ہندوستان کابٹوارہ کرکے پاکستان اور بھارت کو الجھا کر رکھ دیا ہے اورپاک بھارت جنگوں پر جنگیں لڑ کر اربوں ڈالرز کے اسلحہ انہی سے خرید رہے ہیں جو ہندوستان کو سونے کی چڑیا سمجھ کر قبضہ کر بیٹھے اور جب انھیں واپس گھر بھیجا جانے لگا تو ہندوستان کا بٹوارہ کرکے خود آرام سے بیٹھ گئے ۔ اب یہی حال پاکستان اور افغانستان کا کیا جارہا ہے۔ افغانستان مملکت کم ، بین الاقوامی قوتوں کےلئے جنگی مشق کا میدان زیادہ بن گیا ہے ۔دہائیاں گذرجاتی جا رہی ہیں اورکبھی انگریز آکر افغانستان کو دو حصوں میں تقسیم کرادےتا تو کبھی بٹوارے کے بعد اس کے ایک اور حصے کے دو ٹکڑے کرکے اطمینان سے دیس سدھار جاتا ہے کہ اب کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں۔سینکڑوں کلومیٹر سرحدوں کے بے تنخواہ محافظوں کو اسلام کے نام پر استعمال کیا جاتا رہا ۔ جب امریکہ کی ضرورت پوری ہوئی تو انھیں آگ کے گولے داغ کر جھلسا دیا گیا ۔اب چاہتا ہے کہ بچے کچے افغانستان کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرکے موجودہ افغانستان کو امریکہ اپنے لئے سکون کا سانس لے سکے۔قوموں اور مملکتوں کو منقسم کرنے کے ماہر برطانیہ کی مشاورت سے ایک بار پھر افغانستان میں" امیر عبدالرحمن"پیدا کیا جارہا ہے جو ڈیونڈ معائدے کی طرز پر افغانستان کی سرزمیں کو اس کی تاریخی و جغرافیائی حیثیت سے ہٹا کر تقسیم کردے۔طالبان جانتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے گلے میں طوق کی طرح پھنس کر رہ گیا ہے وہ اس کی غلامی نہیں چھوڑ سکتے ۔ اس لئے طالبان کیجانب سے امریکہ سے قطع تعلق کا مطالبہ ناممکنات ہے۔ پاکستان کی عوام امریکہ سے شدید نفرت کرتی ہے لیکن اختیارات کا قلمدان ان کے پاس نہیں ہے۔امریکہ کمبل بن کر پاکستان سے لپٹ چکا ہے ۔ اب پاکستان چاہے بھی تو کمبل ایسے نہیں چھوڑرہا۔تحریک طالبان پاکستان کی عوام سے کیا چاہتے ہیں؟ ۔یہ بچارے تو ہر خوشنما نعرے پر ہرے بھرے جنگل کو بھی آگ لگانے کےلئے تیار رہتے ہیں۔ حکومت کی نا اہلیاں ایک طرف انکی سانسوں کو جکڑے بیٹھی ہے تو دوسری جانب عدم تحفظ کا احساس ، جس نے غریب عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔عوام میں شعور و تعلیم کی کمی ہے ۔ تعلیم کےلئے تو اسکول ہی نہیں بچے ۔سرکاری اسکول ، اسکول کم جانوروں کی چراگائیں زیادہ لگتی ہیں۔پرا ئیوٹ اسکولوں میں بابا بلیک شپ ، کے ترانے ہیں ۔ مدارس میں تو کافر ، میں مسلمان کے فتوی ہیں ۔بھلا عوام کیا کرے ۔عوام تو ایک اشتہاری دیوار ہے جس پر ہر سیاسی ، مذہبی جماعت کامنشور لکھ دیا جاتا ہے ، دوسرا آتا ہے تو اس پروہ اپنا منشور لکھ جاتا ہے ۔ اس دیوار پر اتنے منشور لکھے جا چکے ہیں کہ لکھا جاتا کچھ ہے اور پڑھا جاتا کچھ ہے۔سب عوام کو طاقت کا سر چشمہ قرار دےتے ہیں لیکن ان کا ایسا حال کرگئے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں بہنے کےلئے چشمے ، بہہ بہہ کر خشک ہوچکے ہیں۔طاقت کا محور عوام نہیں ہیں کہ انھیں بموں سے اڑا اڑا کر حکومت سے کچھ حاصل کیا جاسکے۔کرپٹ حکومت کو تو موقع مل جاتا ہے کہ عوام کو الجھا کر اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔سرکاری عمارتیں ، سٹرکیں یا ملکی املاک کا نقصان تو عوام کو پہنچتا ، جبکہ اس کے دوبارہ بنانے کے اربوں روپوں کا ٹھیکہ ان ہی کرپٹ حکمرانوں کو مل جاتا ہے۔جس کے کروڑوں روپوں کے کمیشن سرکاری اہلکاروں کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔دہشت گردوں نے شائد ان ہی لوگوں کو خریدا ہے جو ان کرپٹ ، ضمیر فروش اہلکاروں کے کہنے پر اسکولوں سمیت سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔بےگناہ پاکستانیوں کی ہلاکتوں پر امریکیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سپورٹنگ فنڈ میں اربوں روپوں کوسرکاری خزانے میں ڈال کر اپنے صوابیدی فنڈ سے شاہانہ اخراجات کرتے ہیں۔مذاکرات اچھا عمل ہے ۔ہر جنگ کے بعد ہر حل مذاکرات کے بعد ہی نکلتا ہے ۔لیکن یہ مذاکرات کون کس سے ،کس کے لئے کرےگا ؟۔ایسا کون پرہیزگار پاک صاف ہے کہ کسی گناہ گار کو پتھر مارسکے۔بہرحال کچھ بھی ہو ۔انقلاب آئے ، سرخاب آئے ،یا مذاکرات کےلئے امریکہ طالبان آئیں ۔ عوام کو صرف ملکی امن اور معاشی استحکام سے غرض ہے۔وہ وقت ویسے بھی دور نہیں کہ عوام اس قول پر یقین رکھ کر عمل پیرا ہوجائیں کہ" جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی۔۔ اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو ۔ !!"
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296305 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.