جماعت اسلامی پاکستان کے سابق
امیر صدر ملی یکجہتی کونسل اور اسلامی دنیا کے عظیم رہنما قاضی حسین احمد
وفات پا گئے انہیں ہزاروں سوگوروں کی موجودگی میں آبائی علاقے زیارت کا کا
صاحب میں سپرد خاک کر دیا گیا نماز جنازہ سید منور حسن امیر جماعت اسلامی
نے پڑھائی ۔قاضی صاحب کی غائبانہ نماز جنازہ خانہ کعبہ میں بھی پڑھائی گئی۔
کراچی،حیدر آباد،جیکب آباداور لاہور کے علاوہ ملک بھر میں ادا کی گئی کراچی
غائبانہ نماز میں مسیحی وفد نے بھی شرکت کی ۔قاضی حسین احمد کی وفات امہّ
کے لےے بڑا سانحہ ہے صدر، وزیر اعظم،پرویز مشرف اسفند یاولی،چوہدری شجاعت ،عمران
خان پرویز الہی، محمود خان اچکزئی،ڈاکٹر طاہرالقادری،،مشائد حسین، نیئر
بخاری،فہمید مرزا، فیصل کنڈ ی۔ رحمٰن ملک،قمر زمان قائرہ،شہباز شریف،ساجد
میر، ساجد نقوی،ابوالخیر محمد زبیر ،انس نورانی ،آفاق احمد،الطاف حسین،پیر
مظہر الحق،آفتاب شیر پاﺅ،مولانا عبدالر حمٰن سلفی اور دیگر حضرات نے بھی
قاضی حسین احمد کے انتقال پر ان کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے دکھ کا
اظہار کیا۔ عالمی تحریکوں کے سربراہوں نے امیر جماعت منور حسن کے نام تعزیت
کے پیغامات بھجوائے ہیں پاکستان کے کثیر تعدادسیاسیدینی اور سماجی رہنماﺅں
جماعت کی مرکزی ضلعی قیادت کے علاوہ جناب مولانا سمیع الحق،فضل الرحمٰن ،حمید
گل،گورنر خیبر پختونخواہ بیرسٹر مسعود کوثر،صابر شاہ،امیر مقام،شیخ رشید
احمد،جاوید ہاشمی، غلام احمد بلور،حافظ حسین احمد،سردار عتیق احمد
خان،مولانا طارق جمیل،مرتضیٰ پویا،سید صلاح الدین،صدیق افاروق نے شرکت کی ۔شیعہ
علماءکونسل نے اپنے تعزیتی بےان میں کہا قاضی صاحب نہ صرف جماعت اسلامی اور
پاکستان کے لےے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لےے اثاثہ تھے ان کی رحلت سے امت
مسلمہ اس اثاثہ سے محروم ہو گئی۔ قاضی صاحب نے تعلیم گھر،اسلامیہ کالج
پشاور،پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی۔کالج میں لیکچرر بھی رہے،سرحد چمبر آف
کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر بھی رہے 1970ءمیں جماعت کے رکن بنے،پشاور شہر ،ضلع
پشاور اور صوبہ سرحد کی امارت کی ذمہ داری ادا کی1978ءمیں جماعت اسلامی کے
سیکرٹری،1987ءمیں امیر منتخب ہوئے،۲۲ سال تک ےہ ذمہ داری ادا کی اس کے بعد
جماعت کے روایات پر عمل کرتے ہوئے جماعت کی امارت دوسروں کے لیے چھوڑ دی وہ
جماعت کے تیسرے امیر تھے ان کے بعد موجودہ چوتھے امیر منور حسن بنے پاکستان
کی کسی سیاسیدینی جماعت میں ایسا طریقہ رائج نہیں یہ جماعت اسلامی کا ہی
اعزاز ہے۔1985ءاور 1992 میں دو دفعہ سینیٹ کی ممبر منتخب،۲۰۰۲ءکے انتخاب
میں دو جگہوں سے ممبر اسمبلی منتخب ہوئے، البتہ2007ءمیں جامعہ حفصہ میں
فوجی آپریشن اور طالبات کے قتل پر احتجاجاً اسمبلی سے مستفی ہو گئے۔ جماعت
میں شرکت سے پہلے جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدر بھی رہے۔ ملی یکجہتی
کونسل کے صدر،متحدہ شریعت محاذ کے سیکرٹری جنرل رہے ساری عمر دین کی خدمت
کی پاکستان کے دینی اتحادوں کے روحِ رواں تھے۔ جب بھی ملک میں دشمنوں نے
مسلمانوں کو لڑانے کی سازش کی انہوں نے اتحاد، برداشت اور بھائی چارے کی
کوششں کر کے سب کو اتحاد کی کڑی میں پررو دیاقاضی حسین احمد پرکچھ دنوں
پہلے خود کش حملہ ہوا تھا اس میں تو وہ بچ گئے انہوں نے اس پر تبصرہ کرتے
ہوئے کہا تھا کہ ےہ حملہ کس نے کرایا ہے جس کو مسلمانوں کا اتحاد پسند نہیں
جو امریکا کے ایجنڈے پر اس ملک میں کام کرتے ہیں ۔وہ ملک میں فرقہ وارانہ
اختلافات، لسانیتجاہلی قومیت اور امریکہ بے جاہ مداخلت کے خلاف سینہ سپر
تھے انہوں نے سب مسالک کو اسلام کے نام پرجمع کیا ،گو امریکہ گو کی مہم
چلائی اور پاکستان میں اسلام کے حقیقی نفاذ کی جد و جہد کوجاری ہمیشہ توانا
رکھا جو دشمنوں کو ناگوار ہے اس لےے ان کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی
تھی جو کامیاب نہ ہوئی اور جب موت کا حقیقی وقت آیا تو اللہ نے انہیں اپنے
پاس بلا لیا وہ قومی اسمبلی کے ممبر رہے دو دفعہ سینٹ کے رکن رہے مگر دوسرے
سیاستدانوں کی طرح کرپشن سے پاک رہے۔ اس دوران ملکی مامعلات میں فحال کردار
ادا کرتے رہے۔ سیاستدانوں کو راہ راست پر لانے کی بھی کوشش کرتے رہے۔ انہوں
نے اپنی امارت کے دوران جماعت اسلامی کومتحرک کئے رکھا 1997ءمیں ممبر سازی
مہم چلا ئی45 لاکھ افراد نے جماعت اسلامی کی دعوت و پروگرام کی حمایت کرتے
ہوئے تنظیم جماعت کا حصہ بننے کا اعلان کیا ،تحریک نظامِ مصطفٰی ،افغانستان
پر امریکی حملے اور یورپ میں رسول اللہ کی شان میں گستاخی پر احتجاج کرنے
پر گرفتار ہوئے۔ وہ اسلام کے نفاذ کے لےے علامہ اقبال ؒکے شائین اور مولانا
مودودیؒ کے فعال کورکن تھے وہ اکثر علامہ اقبال ؒ کے اردو فارسی اشعار
جلسوں میں پڑھتے جو انہوں نے محبت میں زبانی یاد کئے ہوئے تھے جماعت اسلامی
کے کارکنان کا قافلہ دعوت و محبت پشاور سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے پشاور تک
چلاکر پورے ملک کو اسلامی نظام کے نفاذ کے لےے متحرک کیا۔ وہ خطرات کا
مقابلہ کرتے تھے کبھی بھی اپنی حفاظت کے لےے گارڈ نہیں رکھے بلکہ اس دعوت
تحریک قافلے کے دوران ناظم آباد میں جلسے سے خطاب سے خطاب کرتے ہوئے الطاف
حسین سے کہا تھاکہ کلائشکوفوں کی باڑ سے باہر نکل آﺅ۔ بند گلی کی سیاست
چھوڑو تم پاکستان بنانے والوں کی اولاد ہو پورے پاکستان کی سیاست کرو آﺅ
اور پشاور میں جلسہ کرو میں تمہاری حفاظت کروں گا۔ الطاف حسین صاحب پشاور
توکیا آتے وہ تو برطانیہ کے شہری بن گئے۔جماعت سے فراخت کے بعد انہوں نے
قومی اور بین القوامی امور ہر مشاورت کے لےے ادارہ فکر و عمل کی بنیاد
ڈالی۔پاکستان کے باہر اسلامی دنیا میں بھی اتحاد امت کی کوشش کی۔سوڈان میں
ڈاکٹر حسن ترابی اور صدر مملکت جنرل حسن البشیر کے درمیان صلح کروائی عراق
کویت جنگ،مسئلہ فلسطین،بوسنیا،کوسوومیں مسلم کشی ہو ، چیچنا،بوسنیا میں قتل
عام، برما کے خون آشام حالات ہوں ، کشمیر،اریٹریا کے مصاحب میں پورے عالم
اسلام میں امت کی توانائیوں کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہمیشہ زخموں پر
مرہم رکھنے کی کوشش کی۔قاضی صاحب گزشتہ کئی ماہ سے عالمی اسلامی تحریکوں کے
لےے اسلام آباد میں مشترکہ سیکرٹریٹ کے قیام کی کوشش کر رہے تھے ان کو کئی
اسلامی ملکوں کے رہنماﺅں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی تھی۔ 2013ءکے نگران سیٹ
اپ کے لیے قومی اسمبلی میں حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے سردار عطا
اللہ مینگل، محمود خان اچکزی کے ساتھ ساتھ قاضی حسین کا بھی نام پیش کیا
تھا مگر الیکشن میں حصہ لینے کی وجہ سے انہوں نے انکار کر دیا۔
قارئین آج قاضی حسین احمدصاحب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن جس جد وجہد کو
انہوں نے شروع کیا تھا وہ انشا اللہ جاری و ساری پہلے بھی تھی اب بھی رہے
گی اللہ اپنے دین کو اس دنیا میں قائم کرنے کے لےے اللہ ضرور اس کی تلافی
کر دے گا کیونکہ اس کام نے ہونا ہی ہے۔جماعت اسلامی کی مضبوط تنظیم، کرپشن
سے پاک قیادت، نڈر اور بیبا ک کارکنان، اپنا اللہ سے اجر مانگنے والے،دن
رات بے لوث اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جد وجہد کرنے والے موجود ہیں اللہ
ان کے کام میں برکت ڈالے گا آمین۔ |