سارے رَل کے سانوں پے گئے نیں

سچ کہا ہے بڑے میاں صاحب نے کہ ”سارے رَل کے سانوں پے گئے نیں“ ۔اس سے پہلے بھی یہ قوم اُن کے ساتھ ”ہتھ“ کر چُکی ہے جس کا ذکر میاں نواز شریف صاحب نے مُسکراتے ہوئے یوں کیا”سب کہتے تھے کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف ، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔لیکن جب میں نے قدم بڑھایا تو سبھی کھِسک لیے“۔اِس صریحاََ دھوکا دہی کی واردات کے بعد میاں فیملی کو جلا وطنی کا دُکھ جھیلنا پڑا ۔اور” دودھ کا جَلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے“ کے مصداق میاں صاحبان جب طویل جلا وطنی کے بعد وطن لوٹے تو بہت محتاط تھے ۔یہ احتیاط ساڑھے تین برس تک جاری رہی اور پیپلز پارٹی عیش کرتی رہی۔ یہ احتیاط اگر جاری رہتی تو نواز لیگ کا مکمل ”مکّو“ ٹھَپ جاتا۔وہ تو بھلا ہو الیکٹرانک میڈیا کا جس نے ”فرینڈلی اپوزیشن“ کی اتنی تکرار کی کہ چھوٹے میاں صاحب بھڑک اُٹھے اور اُنہوں نے مودبانہ انگلی لہرا لہرا کر بڑے میاں صاحب کو تھوڑا بہت رام کر ہی لیا ۔ویسے یہ چھوٹے بھائی سے پیار تھا جو بڑے میاں صاحب مان گئے وگرنہ آج بھی زرداری صاحب کا نام سنتے ہی اُن کے دل میںگُدگدی ہونے لگتی ہے ۔شاید اسی لیے وہ چھوٹے بھائی کو زرداری صاحب کے معاملے میں”ہتھ ہولا“ رکھنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔

وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ محترم میاں نواز شریف کو حضرت علیؓ کا یہ قول ہر گز یاد نہیں کہ ”جس پر احسان کرو اُس کے شر سے بچو“۔اگر ایسا ہوتا تو وہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر حضرت مولانا علّامہ طاہر القادری پر احسانات کی بارش کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے شر سے محفوظ رہنے کے طریقے بھی سوچ رکھتے ۔لیکن اُنہوں نے تو ناتواں طاہر القادری کو اپنے مضبوط کندھوں پر اُٹھا کر جبلِ نور کی اونچائیاں سَر کرتے ہوئے غارِ حرا تک پہنچا کر یہ جانا کہ مولانا موصوف اُن کے حق میں بھی دعائے خیر کریں گے جبکہ مولانا ”کُرلا، کُرلا کر“ اپنی وزارتِ عظمیٰ کی دُعا مانگتے رہے۔اگر میاں صاحب عقلِ سلیم سے کام لیتے ہوئے اُس سنہری موقعے پرحضرت مولانا کو ”جپھّا“ مار کر اُٹھاتے اور غارِ حرا سے نیچے دے مارتے تو اُنہیں آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا ، نہ مولانا ماڈل ٹاؤن میں بیٹھ کر اُن کے سینے پر مونگ دلتے اور نہ ہی میاں شہباز شریف صاحب کو یہ کہنا پڑتا کہ ”عوام اُن کا راستہ روکیںجو کسی اور کا ایجنڈا لائے ہیں“ ۔لیکن یہ سب کچھ تو اُن کا اپنا ہی کیا دھرا ہے اِس لیے
اب کیوں اُداس پھرتے ہوسردیوں کی شاموں میں
اِس طرح تو ہوتا ہے ، اِس طرح کے کاموں میں

میاں صاحبان کو حضرت علیؓ کا قول یاد نہ ہونے کی یوں تو اور بھی کئی مثالیں ہیں لیکن فقط ایک مثال اور۔۔۔ عرض ہے کہ میاں صاحب کا محترم جاوید ہاشمی صاحب کے لیے پیار بھی ہمیشہ اپنی انتہاؤں کو چھوتا رہا ۔جَلا وطنی کے عرصے میں ہاشمی صاحب کو نون لیگ کی صدارت سونپ کر اپنا سیاسی وارث مقرر کیا ، ہاشمی صاحب اپنی ملتان کی ذاتی سیٹ پر کبھی کامیاب نہیں ہوئے لیکن میاں صاحب نے اُنہیں چار چار سیٹوں پر الیکشن لڑوایا ۔ملتان کے مضبوط ترین شاہ محمود قریشی پر ہاشمی صاحب کو ترجیح دی ۔خود ہاشمی صاحب کے بقول میاں نواز شریف صاحب اُن کی کار کا دروازہ خود کھول کر اُنہیں اندربٹھایا کرتے تھے اور دروغ بر گردنِ راوی میاں برادران گاہے بگاہے ہاشمی صاحب کی مالی امداد بھی کیا کرتے تھے ۔لیکن ہاشمی صاحب نے نواز لیگ کی بجائے تحریکِ انصاف کی ”نرینہ اولاد“ بننے کو ترجیح دی ۔محترم حفیظ اللہ نیازی صاحب نے اپنے کالم میں محترم جاوید ہاشمی صاحب کو تحریکِ انصاف کی ”نرینہ اولاد“ ہی لکھا ہے جس سے مجھے مکمل اتفاق ہے لیکن پھر بھی میرے کچھ تحفظات ہیں ۔سوچتی ہوں کہ اگر ہاشمی صاحب نرینہ اولاد ہیں تو پھر اُن سے پہلے تحریک میں شامل ہونے والے شاہ محمود قریشی ، میاں اظہر، محمود علی قصوری ، سردار آصف احمد علی اور دیگر بہت سے لوگ کس صنف سے تعلق رکھتے ہیں؟۔یہ تو ویسے ہی بات سے بات نکل آئی ، میں عرض کر رہی تھی کہ محترم جاوید ہاشمی کے ساتھ پیار کی انتہا کرتے ہوئے بھی میاں صاحبان نے اُن کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوئی راہ نہیں نکالی۔اُنہیں ساچنا چاہیے تھا کہ جو شخص کسی ایک کو دھوکا دے سکتا ہے اُس کے لیے کسی دوسرے کو دھوکا دینا کچھ مشکل نہیں۔جاوید ہاشمی صاحب کی تربیت جماعتِ اسلامی اور اسلامی جمیعت طلباءنے کی ، اُنہیں پنجاب یونیورسٹی کا مسلمہ سٹوڈنٹس لیڈر بنایا اور جماعت ہی کی طاقت سے وہ بھٹو مرحوم کے خلاف آگ اُگلتے اُگلتے سیاسی لیڈر بن گئے لیکن جونہی اُنہیں موقع ملا وہ چھلانگ لگا کر تحریکِ استقلال میں داخل ہوگئے۔ آمریت کے خلاف بڑھکیں لگانے والے ہاشمی صاحب نے آمر ضیاءالحق کی وزارت کو چوم کر سینے سے لگا یا ، پھر نواز لیگ میں شامل ہوئے اور اب تحریکِ انصاف کی نرینہ اولاد۔اِس لیے میں کیسے مان لوں کہ میاں صاحب کو حضرت علیؓ کا قول یاد ہے۔

یہ بجا کہ پیپلز پارٹی ، قاف لیگ ، ایم کیو ایم اور اے این پی نے نواز لیگ کے خلاف ایکا کر لیا ہے اور تحریکِ انصاف تو ہے ہی اُس کی ازلی ابدی دشمن لیکن اِس کے باوجود بھی نواز لیگ کی مقبولیت کا گراف تیزی سے اونچا ہوتا چلا جا رہا ہے اور ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی ، قاف لیگ اور تحریکِ انصاف کی بھرپور مخالفت کے باوجود نواز لیگ نے حیران کُن کامیابیاں سمیٹیں۔اگر میاں نواز شریف صاحب کی یہ سوچ ہے کہ یہ اُن کی جمہوریت کے لیے کی جانے والی چار سالہ کاوشوں کا ثمر ہے تو میں اِس سے اتفاق نہیں کرتی کیونکہ قوم کی جمہوریت تو پیٹ سے شروع ہو کر پیٹ پر ہی ختم ہو جاتی ہے ۔حقیقت بلکہ انتہائی تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ کوئی آمر آئے یا جمہور نواز ، قوم کی سیاست روٹی ، کپڑا اور مکان کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے ۔آپ سروے کروا کے دیکھ لیجئے 90 فیصد کو تو لفظ ”جمہوریت“ کا سرے سے مطلب ہی نہیں معلوم۔قصور اُن کا بھی نہیں کہ اُن کے آئین سازلیڈروں (اراکینِ قومی اسمبلی) کا اگر آئین کی کتاب کا امتحان لیا جائے تو تحقیق کہ غالب اکثریت فیل ہو جائے گی ۔اِس لیے جان لیجئے کہ قوم جمہوریت کے لیے قُربانیاں دینے والوں کو نہیں بلکہ روٹی ، کپڑا اور مکان کا بندوبست کرنے والوں کو ووٹ دیتی ہے ۔اگر نواز لیگ کی مقبولیت کا گراف دن بدن اونچا ہوتا چلا جا رہا ہے تو اُس کی وجوہات یہ ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کو کرپشن ، مہنگائی ، بد امنی ، ٹارگٹ کلنگ ، لوڈ شیڈنگ اور بھتہ خوری کے سوا کچھ نہیں دیا۔جتنی بھوک قوم نے راٹی ، کپڑا اور مکان کے داعیوں کے ہاتھوں دیکھی ہے اُس کا ردِ عمل یہی ہونا تھا جو ہو رہا ہے۔دوسری وجہ تحریکِ انصاف کی بے پناہ مقبولیت کے بعد اُس کی سُرعت انگیزتنزلی ہے ۔اگر اکابرینِ تحریکِ انصاف اپنی بے پناہ مقبولیت کو سنبھال پاتے اور قد م قدم پر غلطیاں نہ کرتے تو آج نواز لیگ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ۔جب عوام نے تحریکِ انصاف میں بھی وہی دیمک زدہ چہرے دیکھے تو اُن کا ایمان متزلزل ہوا اور تحریک کا گراف گرتا چلا گیا جس کا فائدہ لا محالہ نواز لیگ کو ہی پہنچا ۔تحقیق کہ تحریکِ انصاف آج بھی ایک قوت ہے لیکن ایسی قوت کہ جو اب کسی کے لیے بھی لمحہ فکریہ نہیں۔نواز لیگ کی مقبولیت کی تیسری بڑی وجہ قیادت پر ساڑھے چار سالہ دَور میں کرپشن کا کوئی الزام نہ آنا اور میاں شہباز شریف کی انتھک محنت ہے جس کا غیر ملکی ادارے بھی اعتراف کرتے ہیں ۔اگر پنجاب میں بھی سندھ ، سرحد اور خیبر پختونخواہ کی طرح ترقیاتی کام ہوتے نظر نہ آتے تو حشر اِس کا بھی وہی ہونا تھا جو پیپلز پارٹی کا ہو رہا ہے۔اِس لیے بقول میاں صاحب اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ”سارے رَل کے سانوں پے گئے نیں“۔وہ اگر شجرِ عوام سے یوں ہی پیوستہ رہے تو یقیناََ اُمیدِ بہار رکھنا اُن کا حق ہے۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642517 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More