ایم کیو ایم کے قائد جنابِ الطاف
حسین ویسے تو ابتداء ہی سے جلالی طبیعت کے مالک ھیں اور ان کے ٹیلیفونک
خطابات بڑے روح فرساں اور دل دھلا دینے والے ھوتے ھیں مگر جب سے ان کا حضرت
شیخ الاسلام سے رِشتہءاخوت استوار ہوا ھے ،جناب کا جلال دو آتشہ اور لہجہ
آتشیں ہو گیا ہے۔
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
گذشتہ دنوں الطاف بھائی نے قوم کو ایک ایسے ڈرون حملے کیلیے ذھنی طور پر
تیار رھنے کو کہا ھے جس کا جواب کسی کے پاس نہ ہوگا۔جب سے الطاف بھائی کا
بیان نظر سے گزرا ھے، ھمارے دل میں تو ھول سے اٹھے ھی ھیں مگر ھماری طرح ھر
کس و نا کس بھی تشویش میں مبتلا اور مصروفِ دعا ھے کہ الٰہی خیر! ابھی تو
جناب ِ شیخ الاسلام کے حملے سے جانبر نہ ہوئے تھے کہ نئی مصیبت نے آن
لیا۔بے یقینی کے ھولناک احساسات کے بادل ابھی چھٹ نہ پائے تھے کہ نئی گھٹاﺅں
کی گھن گرج سنائی دینے لگی۔گویا قوم بچاری آسمان سے تو گرے نا گرے ،کھجور
میں ضرور اٹکے گی۔
الطاف بھائی اور انکی جماعت غریبوں اورمتوسط طبقہ کی نمائندہ ہونے کی
دعویدار ھے۔اگر حقیقت میں ایسا ھی ھے تو انھیں پاکستان کے نوے فیصد سے
زیادہ متوسط اور غربت کی لکیرکے اوپر نیچے غوطے کھاتے ہوئے طبقے کا خیال
رکھنا چاھئے۔مانا کہ اس طبقے کے مسائل ہمہ گیر ہیں ۔الطاف بھائی اور شیخ
الاسلام دونوں مل کر بھی ان کے دکھوں کا مداوا کر سکتے ہیں اور ناہی ان کے
زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہیں مگر ذہنی سکون اور آسودگی بہم پہچانے پر تو کچھ
خرچ نہیں آتا۔یہ طبقہ جس کے خون پسینے کی کماٰئی سے جناب شیخ الاسلام کا
آستانہ اور جناب الطاف بھائی کا لندن کا قیام بخیر و خوبی چل رھا ہے ،اتنا
تو اس کا حق ہے ہی کہ سکون سے جینے کے لیے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا
جائے۔لوگوں کا خیال ہے کہ جس دن الطاف بھائی اور شیخ الاسلام جیسے بہی خواہ
اس قوم کی فلاح کی فکر چھوڑ دیں گے ،وہ دن اس قوم کی مصیبتوں کا آخری دن
ہوگا۔
الطاف بھائی کے غیض و غضب کا شکار گزشتہ دنوں میڈیا اور صحافت سے وابستہ
لوگ بھی ہوئے ہیں۔بیچاروں کے چہروں پر زردی سی کھنڈ گئی ہے۔جب وہ گھر سے
نکلتے ہیں تو ان کے اہلِ خانہ انہیں ایسے رخصت کر تے ہیں جیسے اب تو ملاقات
میدانِ محشر میں ہی ہوگی۔ہاں جی!کیا خبرکس موڑ پر کوئی اندھی گولی زندگی کی
متاع لوٹ لے جائے اور ان کے اہلِخانہ کو بوری بند لاش کا تحفہ موصول ہو
جائے۔
الطاف بھائی!خدا را کچھ بھی کیجیئے مگر اصحابِ قلم کی تکریم کیجیئے کہ قلم
کی قسم خود خدا نے کھائی ہے۔ازراہِ کرم ڈرون حملے کا منصوبہ ترک کر دیجئیے
کہ اس قوم کے تن پرنیا زخم کھانے کو جگہ باقی ہے نا دل میں حوصلہ۔اس قوم سے
بہت مذاق ہو چکا۔یہ راہبر نما راہزنوں کے ہاتھوں بارہا لٹ چکی۔لاشے اٹھا
اٹھا کر کندھے تھک چکے۔لہو رو رو کر آنکھیں بجائے خود آنسو بن کر بہہ
گئیں۔اب تو مزید ستم روا رکھنا مرے ہوئے کو اور مارنے کے مترادف ہے،لہٰذا
یہ قوم امان مانگتی ہے۔خدا را رحم!رحم!رحم! |