گوالہ سیاست

دودھ میں پانی ملاﺅ یا پانی میں دودھ۔ دونوں ایک ہی عمل کے دو مختلف انداز ہیں مگر میرا ایک دوست اس بات کو نہیں مانتا۔ اُس کے خیال میں یہ دو مختلف عمل ہیں جس کے نتائج بھی مختلف ہیں۔ بقول اُس کے دودھ میں پانی ملانا تو صدیوں کا گھسا پٹا پرانا انداز ہے جس میں کوئی جدت نہیں۔ دودھ سفید ہے جس قدر پانی ملاتے جاﺅ سفید ہی رہے گا۔ اُس کی سفیدی میں کچھ فرق محسوس نہیں ہو گا ۔ مگر پانی شفاف ہے۔ بے رنگ ہے اُس میں دودھ ملاﺅ تو احساس ہوتا ہے کہ کچھ بدل رہا ہے۔ مزید دودھ ملاتے جاﺅ۔ پانی سفید سے سفید تر ہوتا جائے گا اور پھر پوری طرح دودھ بن جائے گا۔ یہ صحیح معنوں میں تبدیلی کا عمل ہو گا۔۔۔۔ جی ہاں نظام کی تبدیلی۔ ہمارے ہاں بھی سیاستدان اور خصوصا ً نئے ابھرتے ہوئے سیاستدان اسی طرح نظام کو تبدیل کرتے آئے ہیں۔ پرانے سیاستدان تو انتہائی کرپٹ ہیں اور انہوں نے کرپٹ ہی رہنا ہے۔ اُن کے آنے یا جانے سے نظام نہیں بدلے گا۔ نئے سیاستدان جو اس وقت انتہائی اجلے اجلے اور شفاف نظر آرہے ہیں ان کے خیال میں نظام بدلنے کا شاید یہی مطلب ہے کہ اب موقع انہیں ملنا چاہیے کہ یہی گنگا میں نہانے کا اُن کا حق شروع ہو۔ ویسے بھی اُن کا اجلا پن ختم ہونے میں کچھ وقت درکار ہو گا اور اُس مختصر وقت میں عوام کچھ حاصل کر ہی لیں۔

ایک صاحب نے گوالے سے شکایت کی کہ جو دودھ تم نے دیا ہے وہ بہت پتلا ہے۔ لگتا ہے کہ پانی ملاتے ہو۔ گوالہ حلف اٹھانے کو تیار ہو گیا کہ وہ پانی نہیں ملاتا۔ غصے میں کہنے لگا کہ جناب میں دوسروں کی طرح بے غیرت نہیں کہ غلط کام کروں۔ پندرہ برس سے اس علاقے میں خالص دودھ کی سپلائی کر رہا ہوں۔، حرام ہے کہ کبھی پانی کی ایک بوند بھی ملائی ہو۔ ستر اسی میل سے روزانہ دودھ لاتا ہوں۔ جس بھاﺅ ملتا ہے فقط پانچ روپے کے فرق سے آپ کو دے دیتا ہوں۔ بس خدمت خلق ہی سمجھئے مگر افسوس کہ آپ لوگ الزام لگانے میں کچھ رو رعایت نہیں کرتے۔۔۔۔مگر یہ پتلا کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔ مانتا ہوں کچھ پتلا ہوتا ہے مگر جناب وہ ہماری مجبوری ہے۔ پوچھا کیا مجبوری ہے۔۔۔۔ جناب ستر اسی میل سے دودھ اگر اُسی حالت میں لے آئیں تو خراب ہو جاتا ہے۔ اس لیے اُسے ٹھنڈا کرنے کے لیے کچھ برف ڈالنا پڑتی ہے۔۔۔۔ دس کلو دودھ میں کتنی برف ڈالتے ہو۔۔۔۔ موسم پر منحصر ہے اگر ٹھنڈا ہو تو تقریباً دس کلو اور اگر گرمی ہو تو پندرہ سولہ کلو۔ جناب یہ بے ایمانی نہیں۔ مجبوری ہے فقط مجبوری۔ آپ کو خراب دودھ تو نہیں دینا۔۔۔۔ دس کلو دودھ جس کی مالیت سات روپے ہے اس میں سو روپے کی پندرہ کلو برف کل پچیس کلو بحساب 70روپے بحالت مجبوری بیچ کر دعوی خدمت خلق کا۔ آفریں آفریں۔ دنیا بھر میں خدمت خلق کی اس سے بہتر مثال نہیں ملے گی۔

اتفاق سے اُن صاحب کو یادآیا کہ اُسی علاقے میں ایک اور گوالہ بھی دودھ سپلائی کرتا ہے۔ اُس کا دودھ قدرے گاڑھا ہوتا ہے اور وہ آتا بھی اُسی علاقے سے ہے جہاں سے اس گوالے کا تعلق ہے۔ کہنے لگے کہ فلاں گوالہ بھی تمہارے علاقے سے آتا ہے اور اُس کا دودھ تمہارے دودھ سے گاڑھا ہوتا ے۔ کیا وہ کم برف ڈالتا ہے۔۔۔۔ گوالے نے کانوں کو ہاتھ لگائے ۔۔۔۔ ناجی ناں۔ ہم اُس کی طرح بے ایمان نہیں۔ میں وہ کا م کر ہی نہیں سکتا اور نہ ہی اُس کے دودھ کو دودھ کہہ سکتا ہوں۔ پھر بڑے زور دارانہ لہجے میں بتانے لگا کہ ایک تو وہ دودھ میں جوہڑ کا پانی ڈالتا ہے جو گاڑھا ہوتا ہے۔ پھر سنگھاڑے کا آٹا اور کچھ کیمیکل اُس میں ڈالتا ہے اور جناب برف تو ڈالنی ہی ڈالنی ہے۔ ستر اسی میل تک گاڑی پاکستانی سڑکوں پر چلتی ہے۔ ساری چیزیں آپس میں یوں کُھل مل جاتی ہیں کہ کوئی مکسچر بھی کیا ملائے گا۔ ہمارے دس کلو دودھ میں تو چند کلو برف کا مجبوری اضافہ ہوتا ہے و ہ تو بے ایمانی سے دس کلو دودھ کی مدد سے پانچ گنا زیادہ دودھ کا مکسچر بنا لیتا ہے۔کچھ دن اُس سے دودھ لے کر دیکھ لیں پیسے بھی ضائع اور صحت بھی تباہ۔ میں تو ایسا کام نہیں کرتا ۔ دوسرے گوالے کے دودھ کی اس قدر ہولناک تصویر، انہوںنے پتلے دودھ پر ہی قناعت کرنا بہتر جانا۔

شاید یہی دو گوالے ہی اس علاقے کا مقدر ہیں، کوئی نیا گوالہ یہ دو گوالے برداشت نہیں کرتے۔ اُسے اپنے علاقے میں آنے نہیں دیتے اور اگر کوئی آجائے تو اُسے بھگا نے کے لیے آپس میں متحد ہو جاتے ہیں۔ لوگوں سے وقتی طور پر اپنا رویہ بہتر کر لیتے ہیں۔ اور نئے آنے والے کے بارے میں اس طرح کا پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ جیسے کوئی انہونی ہونے جا رہی ہو۔نئے آنے والے کو بھگانے کے لیے متحد ہو کر ہر حد سے گزر جاتے ہیں مگر گوالے کیا اس ارض پاک میں جو جہاں بیٹھا ہے مافیہ کی صورت اختیار کر چکا۔ اُس کے قبضے میں جو ہے اُسے دوسرا کوئی کیوں چیلنج کرے۔کوئی نیا اُس میں کیوں شامل ہو۔ نئے آنے والے سے تو ہمیں خطرہ ہے۔ ہماری سا لمیت کو خطرہ ہے۔ ہمارے سماج کو خطرہ ہے۔ ہمارے اخلاق کو خطرہ ہے۔۔۔۔ یعنی ہر طرف فقط خطرہ ہی خطرہ ہے مگر یہ روش کب تک۔ تبدیلی تو تبھی ممکن ہے جب کوئی نیا آئے گا۔

کل تک زر بابا کے قصے عام تھے۔ شہباز شریف صبح شام رداری صاحب کے قصے سنا سنا کر لوگوں کو خوش کیا کرتے تھے۔ راجہ ریاض تو صبح کا ناشتہ کرنے سے پہلے میاں شہباز کی کرپشن کے بارے میں ایک آدھ بیان نہ داغ لیں تو ناشتہ مکمل نہیں ہوتا تھا۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں موجود کسی ذمہ دار سے بات کر لیں۔ دوسرے کے بارے میں کرپشن کی ایسی ایسی بات بتائے گا اور ایسی ہولناک تصویر کشی کرے گا کہ الامان۔ مقصد ےہی ہے کہ لوگ جہاں ہیں وہاں سے دائیں بائیں یا آگے پیچھے نہ ہوں۔ جو نئی نئی اجلی اور صاف پارٹیاں سامنے آرہی ہیں۔ لوگ اُن کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ مگر لوگ متوجہ ہیں اور انہیں آزمانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے اور کرنا بھی نہیں چاہیے۔ فی الوقت یہ لوگ کرپٹ نہیں ۔ کل کو کیا ہو گا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اچھائی کی امید ضرور ہونا چاہیے۔

میڈیا میں آج کل نظر ڈالیں تو سیاست اور صحافت کے ایوانوں میں بھونچال کا سماں ہے۔ میں مفکر اسلام حضرت علامہ پروفیسر طاہر القادری کی بہت سے حیثیتوں کا قائل نہیں مگر اُن کی سیاست کو سلام پیش کرتا ہوں کہ کئی سال کے بعد آئے اور آتے ہی مینار پاکستان کے سائے میں لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کر لیا اور وہ بھی پٹواریوں اور سرکاری عملے کی معاونت کے بغیر ۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو اپنی کرتوتوں کے سبب اتنا رسک لے ہی نہیں سکتی۔ مگر مسلم لیگ (ن) بھی پریشان ہے کہ لیڈروں کو سمیٹنے کے باوجود عوام پر ابھی تک قابو نہیں پاسکی۔ جناب طاہر القادری نے چند باتیں کیں اگر وہ غلط ہیں تو بھی اور اگر صحیح ہیں تب بھی فیصلہ عوام کا ہوگا۔ لوگ اچھے برے کی تمیز جانتے ہیں۔ صحافیوں کا ایک بڑا طبقہ کہ جو نمک حلالی میں اپنے مخصوص لیڈروں کو سب اچھا کی رپورٹ دیتا رہا ہے۔ اُس کے سب تبصرے اور سب تجزیے دھرے رہ گئے۔ اصولی طور پر وہ لیڈر جو خود کو انتہائی قدآور جانتے ہیں۔ آگے بڑھیں اور عوام کو حقیقت سے آگاہ کریں۔ کسی شخص کی سیاسی برتری کو ختم کرنے کے لیے تنقید نہیں۔ آہ زاری نہیں بلکہ بہتر سیاسی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر افسوس کہ یہ فہم ہماری سیاسی قیادتوں میں موجود ہی نہیں۔ میرے جیسے لوگوں کو اُس وقت کا انتظار ہے کہ جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 447874 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More