حکیم محمد طارق محمود عبقری
مجذوبی چغتائی
ایک خاتون میرے بارے میں کہنے لگیں کہ اللہ معاف کرے ایہہ پیر تے وڈے وڈے
وظیفے دس دا اے(یہ پیر تو بڑے بڑے وظیفے بتا تا ہے )۔ امت کو اعمال سے اتنی
دوری ہو گئی ہے کہ اللہ کا ذکر پانچ سو دفعہ پڑھنا بہت بڑا وبال نظر آتا ہے۔
مصلےٰ پر بیٹھنا مشکل ہو گیا ہے۔ ایک دفعہ میں نے ایک صاحب سے عرض کیا میں
نے کہا دیکھو آپ کہہ رہے ہیں ناں کہ میں جو ذکر کر رہا ہوں اس سے ہو گا یا
نہیں ہو گا۔ میں نے کہا اس سے ہو گا، جلدی نہ کرنا۔ خود ہی کہنے لگا جی بڑے
لوگوں نے مجھے سبز باغ دکھائے تھے۔ جو کچھ تھا وہ بھی چلا گیا۔ چلو آپ سبز
باغ نہیں دکھا رہے، کچھ لے تو نہیں رہے۔ رب کا نظام یاد رکھئے۔ بگڑتا بھی
بڑی دیر سے ہے۔ سنورتا بھی بڑی دیر سے ہے۔ بگڑنے کے اسباب ہم خود مہیا کرتے
ہیں۔ ہم نعمتوں کی بے قدری کرتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی بتایا تھا جب بھی کسی
آدمی کو گرتا ہوا دیکھوتو اس کی ایک وجہ تویہ ہے کہ اللہ کی طرف سے امتحان
ہے۔ اللہ نے اپنے نیکوں سے امتحان بھی لئے ہیں۔ لیکن اکثر یہ ہوتا ہے جب
بھی کسی کو گرتا دیکھو تو سمجھ لو اس نے رزق حرام یا گناہوں کی زندگی
اپنائی ہے یا اس نے نعمتوں کاضیاع کیا ہے۔ تین میں چوتھی چیز کبھی نظر نہیں
آئے گی۔ تنہائیوں کے گناہ خلوتوں کے گناہ یہ آدمی کو برباد کر دیتے ہیں یہ
آدمی کو کسی قابل نہیں چھوڑتے۔ آپ قرآن پاک میں غور کریں ” الم۔ ذالک الکتا
ب لا ریب فیہo ھدًی للمتقین یومنون بالغیب “ اس قرآن پاک میں پہلے لفظ کو
پڑھتے ہی اپنی لا علمی کا اظہار ہوتا کہ ”الم“ کے اصل معنی کسی کو معلوم
نہیں ہیں۔ حروف مقطعات ہیں۔ کھیعص۔ ن ٓ۔ اس قسم کے جتنے حروف قرآن پاک میں
آئے ہیں ان میں سب سے زیادہ (الم )کا استعمال ہوا ہے۔ اللہ کا علم کامل ہے
اور اللہ پاک نے فرمایا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہدایت ہے تقویٰ والوں کے
لیے۔ اللہ پاک نے مومنین کی نشانی یہ بیان کی ہے کہ وہ ایمان لاتے ہیں غیب
پر، (یومنون بالغیب)ان دیکھی چیز پر۔ لا مقصودی الا اللہ لا مطلو بی الا
اللہ لا محبوبی الا اللہ. لا الہ الا اللہ۔ اللہ جل شانہ‘ کی ذات عالی کہاں
ہے؟غیب کا نظام ہے جو اللہ پاک نے بنایا ہے۔ اللہ ہے !کہاں ہے؟ غیب میں ہے۔
وحی اتری تھی میں نے نہیں دیکھی۔غیب کا نظام ہے! حق ہے اور سرور کونین رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی آئی تھی۔ آج سے صدیوں پہلے اور یہ
سارا دین کا نظام انہی کے ذریعے سے ہمیں ملا ہے۔ میں نے نہیں دیکھا غیب کا
نظام ہے۔ دین کے سارے احکامات کا تعلق غیب سے ہے۔ غیب کہتے ہیں ان دیکھی کو
بن دیکھے سو فیصد مان لینا اس طر ح کہ جیسے دیکھا ہے۔ ایک چیز دیکھی ہی
نہیں اور مان بھی ایسے رہا ہے کہ جیسے دیکھا ہے۔ اس کو غیب کا نظام کہتے
ہیں۔ دین سارے کا سارا غیب کا نظام ہے۔ جنت ہے، نہیں دیکھی،جنا ت نہیں
دیکھے، ہیں سہی۔ قرآن پا ک میں پوری سورت ہے۔جس کا نام سورہ جن ہے۔ اور اس
میں جنا ت کا تذکرہ ہے۔
انسان کو مٹی سے بنایا
قرآن پاک میں جگہ جگہ جنت کاذکر ہے۔ لیکن جنت نہیں دیکھی۔ قبر کا ایک نظام
ہے۔ اور قبر کے نظام میں نکیرین کا نظام پورے کا پورا ہے۔ ہمیں تو مٹی کا
ڈھیر نظر آتا ہے۔ اور جسم کا گل جانا نظر آتاہے۔ جسم کا پھٹ جا نا نظر آتا
ہے۔ آج میں نے ایک میت کو دیکھا ایک جگہ سے پھولی ہوئی تھی۔ بہت بدبو تھی
اور جو جمعدار تھے وہ اس کا پوسٹ مارٹم کر رہے تھے۔ میں نے دیکھاکہ بڑا
چھرا لیکر اس کا سر کا ٹ رہے تھے۔ اور وہ میت ننگی پڑی ہوئی تھی اور میں
کھڑا دیکھ رہا تھا۔ اور بہت زیادہ عفونت تھی میں نے کہا یہ ہے نظام اوریہ
ہے انجام۔ ساری چیزوں کی حقیقت یہی ہے اور یہ ہر کسی کے ساتھ ہونا ہے۔
توقبر کا ایک نظام ہے جو غیب میں چھپا ہوا ہے۔ ہمارے مشاہدے میں نہیں ہے۔
دین سارے کا سارا غیب کا نظا م ہے۔
دیکھیں اللہ جل شانہ ‘ نے اس انسان کو جب بنا یا تو پہلے دن سے نہیں پہلے
لمحے سے اللہ پاک نے اپنے غیب سے مٹی گوندھی اپنے نظام امر سے اس کا پتلا
بنایا۔ اس میں سے دو مٹیاں بچیں۔ جو مٹی اس کے جسم سے بچی اللہ پاک نے اس
سے کھجور کے درخت کو بنا دیا۔ آج بھی کھجور جسم انسانی کے لیے بہت زیادہ
مفید ہے۔ اس لیے ساری سائنس کہتی ہے۔ سارے جسم کے وٹامن کی ضرورت کھجور میں
مو جود ہے۔ اور صحابہ رضی اللہ عنہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین فرماتے ہیں
جب کچھ نہیں ملتا تھا تو ایک کھجور کا دانہ ہماری جسم کی ضرورت کو پورا
کرتا تھا۔ آپ دیکھیں جیسا کہ انسان کو ہر طر ف سے کاٹ دو نہیں مرے گا سر
کاٹ دو مر جا ئے گا۔ کھجور کے پودے کو ہر طر ف سے کاٹ دو نہیں مرے گا لیکن
کھجور کو اوپر سے کاٹو ختم ہو جائے گی۔ یہ ان سے پو چھو جو کھجور کے بارے
میں جانتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کھجور کو کاٹتے کاٹتے اس کی اوپر کی چند
چھڑیاں بچادی جا تی ہیں۔ جیسے سر قلم کر تے ہیں اس کا سر قلم نہیں کرتے کہ
اس کی مٹی کا خمیر انسان کے ساتھ ہے اور یا د رکھئے گا کھجور کبھی نہیں جا
ئے گی میں نے دیکھا ہے کہ اب گھر وں میں فیشن کے طور پر، سڑکوں پر فیشن کے
طور پر کھجوریں لگائی جارہی ہیں۔ اور مہنگے مہنگے کھجوروں کے درخت لگائے جا
رہے ہیں ہزاروں روپے قیمت کے۔ بعض چھوٹے بڑے گھروں میں جانا ہو ا ہے۔ میں
F/10 میں جاتا ہوں وہاں اب میں نے دیکھا وہاں کھجوریں لگائی جارہی ہیں۔ یہ
انسان کے ساتھ اس کا جوڑ ہے انسان کے ساتھ اس کی نسبت ہے۔
ہفتہ وار درس سے اقتباس |