ووٹ بیچنے کا فارمولا

پاکستان میں 1950 سے تقریبا لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے ، کرپٹ سیاستدانوں نے کھلم کھلا لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے ، انکے کاروبار کھیت کھلیان بنک بیلنس پانچ پانچ کھرب گنا بڑ ھ چکے ، صرف پاکستان کمزور ہوا، یہ ووٹ لوگوں سے ترلے منتیں کر کے یا اونے پونے خریدتے ہیں اور اسکے بعد یہ اسکو لوٹ مار کے لائسنس کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، جو جتنا بڑا ڈاکو اتنا بڑا معزز ہے معاشرے میں ، لوگ زندہ دفن ہو گے ، مگر انکے حالات نہیں بدلے ، کرپٹ سیاستدانوں کے بڑے پہلے لوٹ مار کرتے رہے ، پھر انکی نسل نے جدید تکنیک سے پاکستان کو لوٹا،اور اب اس سے اگلی نسل لوٹ مار کے گر بھی سیکھ رہی ہے اور ساتھ ساتھ عملی طور پر لوٹ مار شروع بھی کر دی ہے ، اسکو پڑہے لکھے انداز میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ باقاعدہ لوٹ مار کی آرٹیکل شپ کر رہے ہیں ، پچھلے پانچ سال میں اتنا قرضہ لیا گیا جو پاکستان کے وجود کے پیدا ہونے سے آج تک نہیں لیا گیا ، محتاط اندازے کے مطابق کھربوں ڈالر کی کرپشن پچھلے پانچ سال میں کی گئی ،ریلوے کو تباہ برباد کر دیا گیا پی آئی اے کو جہنم واصل کر دیا ،سٹیل مل قصہ پارینہ بنا دیا گیا ، کرپشن کے ایسے ایسے باب رقم کیے گیے اگر کاغذ پے منتقل کریں تو سات سمندروں  کا پانی خشک ہو جاے ، لوٹ مار بلا تفریق کی گی ،ملک کی سب سے بڑی پارٹیوں کے رہنماوں نے ایفی ڈرین سے لیکر حج تک اور حج سے لیکر ریلوے تک سب کچھ چٹ کر لیا ،چاروں صوبوں میں ٹکا کر لوٹ مار کی گئی کسی نے رج کر کھایا اور کسی نے ٹکنیکل انداز سے گاڈر سریا بیچا، کرپشن کے کارنامے پانچ سال تک منہ چڑھا چڑھا کر عوام کے سامنے ناچتے رہے ، مگر بیچاری عوام بے بس ہے کیونکہ انکا کام صرف ووٹ دے کر کرپٹ سیاستدانوں کے لوٹ مار کے لائسنس کی پانچ سال تک تجدید ہے اور کچھ نہیں ، تقریبا پچھتر سال سے کرپٹ سیاستدان عوام سے واجبی سے پیسوں کے عوض اپنے لوٹ مار کے لائسنس کو اگلے پانچ سال تک ووٹ کی مہر لگوا کر اربوں بلکے کھربوں تک کرپشن کرتے ہیں اور عوام پانچ سال سب کچھ لائن میں لگ کر زلیل خوار ہوکر لیتی ہے ، اب عوام کو بھی یہ حق دیا جاے کہ وہ سیاستدانوں سے لوٹ کے مال میں سے اپنا حصہ وصول کریں ، یہ لوگ اربوں پانچ سال میں کماتے ہیں اور پانچ سال نعد اپنے حلقے میں چند کروڑ لگا کر پھر اربوں پے ہاتھ صاف کرتے ہیں ، یہ تو سرا سر ناانصافی ہے ، اس لیے آج میں آپکو لوٹ مار میں سے اپنا حصہ لینے کے لیے فارمولا بتاتا ہوں تاکہ بچاری عوام کا بھی کچھ بھلا ہو،اور ریاست اور عوام کو ٹیکس دیے بغیر سیاستدان جو لوٹ مار کر رہے ہیں اس میں سے عوام کا حصہ انکو ملے اور وہ بھی پوری دیانت داری سے ، بس آب جو بھی ووٹ لینے آے اسکو سیدھے لفظوں میں کہیں جناب فی ووٹ کیا دو گے ، کرپٹ سیاستدان کیونکہ بڑے شاطر ہوتے ہیں اس لیے یہ آپکو پور احصہ کبھی نہیں دیں گے اس پورے حصے کو وصول کرنے کیے لیے ہم آپ کے لیے آپ فارمولہ پیش کرتے ہیں آپ اپنی تنخواہ کے کم از کم بیس فیصد حصے کو بارہ مہینوں اور جو جواب آے اسکو کو پانچ سال یعنی ساٹھ سے ضرب دیں آپکا پورا حصہ نکل آے گا اور اس پر اسرار کریںمناسب بارگینگ کے بعد اپنے حصے کی رقم وصول کریں اگر ایک شخص کی تنخواہ پندرہ ہزار روپے ہے تو وہ ہر مہینے بیس فیصد اوسطا ٹیکس دیتا ہے پندرہ ہزار کا بیس فیصد تقریبا تین ہزار روپے بنتا ہے جو وہ حکومت کو ٹیکس دیتا ہے اور اس ٹیکس سے یہ سیاستدان موجیں کرتے ہیں باہر کے دورے کرتے ہیں انکی فیملیاں گاڑیوں کے تیل بھی اس ٹیکس سے ڈلوواتے ہیںاس لیے تین ہزار کو ضرب دیں بارہ ماہ سے تو 36000 سال کا اور 36000 کو پانچ سال کے ساٹھ مہینوں سے ضرب دیں تو 2160000روپے بنتے ہیں ایک گھر میں کتنے افراد کماتے ہیں اور ایک گلی میں کتنے افراد رہائش پذیر ہیں ، ایک گلی جو درمیانی قسم کی ہو ۔ وہ حکومت کو کروڑں روپے ٹیکس دیتی ہے ، اور اسکے عوض یہ سیاستدان پانچ لاکھ کی گلی دس سال میں ایک بار بنا کر ہم عوام پر احسان کرتے ہیں ، اور جو گلی بنواتے ہیںاسکا ٹھیکہ بھی اپنے ماموں چاچوں کو دیتے ہیں ، اور ان سے بھی کمیشن الگ لیتے ہیں یعنی ہر کام میں پیسے ہی پیسے۔ اور ہم سب کچھ لائنوں میں لگ کر لیں ، ہم عوام کو یہ منظور نہیں ، عزیز پاکستانیو ، سیاستدانوں نے کبھی پاکستان کی خاطر نہیں سوچا، یہ اقتدار میں آتے ہیں ووٹ ہم سے لیکر اور وہ بھی مفت ، اسکے بعد انکے کاروبار ترقی کر رہے ہیں اور ہمارا ملک پاکستان ڈوب رہا ہے ، یا تو ایماندار لوگوں کو ووٹ دو ، اور اگر ان نکمے اور بھاڑے کے ٹٹوں کو ووٹ دینا ہے تو ان سے اپنا پورا پورا پانچ سال کا حصہ بمطابق فارمولا، لو، ہاں اگر آپ کے حصے میں بیس ؛لاکھ یا پچیس لاکھ فی ووٹ آتا ہے ، اس میں سے لاکھ دو لاکھ کی کمی و بیشی بیٹھ کر طے ہو سکتی ہے ، آپ خود ہی سوچیں کہ آپ کے گھر میںاگر تین ووٹ بھی ہیں اور آپکی آمدن پندرہ ہزار روپے مہینہ فی فرد ہے تو آپ کی فیملی کو 70 سے 75 لاکھ مل سکتے ہیں اور ان پیسوں سے آپ ایک عدد گھر اور گاڑی تو لے ہی سکتے ہیں ، اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے اور وہ آپ کو یہ کام کرنے سے منع کرتا ہے تو دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس بار ووٹ کسی بندے کے بچے کو دینا ،اگر آپ کے حلقے میں کوئی بندے کا بچہ نہیں تو اپنے ضمیر کو پانچ سات جوتے مار کر سلا دیں ، اگر یہ نہیں کر سکتے ، تو پانچ سال کرپٹ سیاستدانوں سے مزید اپنی عزت نفس مجروح کروانے کے لیے ، تیار رہیں ، کیونکہ عوام رحم دل تو ہو سکتے ہیں ، مگرکرپٹ سیاستدان نہیں-
Naveed Rasheed
About the Author: Naveed Rasheed Read More Articles by Naveed Rasheed: 25 Articles with 24562 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.