سفارش کلچر

میں زاتی طور پرتنقید نہیں بلکہ مسائل کے حل اور عمل پر یقین رکھتا ہوں مگراپنے مدعا کی حمائت کے لیے معاشرے کی تصویر کشی ضروری سمجھتا ہوں آج ہمارے معاشرے میں یوں تو بہت سی برائیاں ایسی ہیں جو نہ صرف ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں بلکہ دکھ کی بات تو نہ ہے کہ ہم اس پر عمل کرنا فخر سمجھتے ہیں جیسے کہ جہیز کی لعنت ہے اسی طرح سے ہمارے معاشرے کے اندرسفارش کا رجحان اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس نے نہ صرف ہمارا جینا دو بھر کر رکھا ہے بلکہ اداروں کو تبا ہ کر رہا ہے اور ہم اتنی بری طرح الجھ چکے ہیں کہ ہماری قوم کی تمام تر صلاحیتں اور توانائی بے مقصد استعمال ہو رہی ہو رہی ہیں آج ادارے اپنے آپ کو بے بس سمجھتے ہیں اور عوامی تحفظات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ کوئی شہری کسی بھی ادارے سے غیر جانبدارانہ کاروائی کی توقع تو کجا بغیرکسی تعارف اور حوالہ کے کسی دفتر کا رخ کرنے کا بھی نہیں سوچ سکتا ہو بھی کیسے اعتما د کا رشتہ ناپید ہوتا جا رہا ہے سب سے بڑی شرم کی بات تو یہ ہے کہ آج تمام کی تمام سیاسی جماعتیں بشمول حکمران اور حزب اختلاف تمام کی تمام اس سفاشی ثقافت میں بری طرح سر گرم عمل ہیں بلکہ اس کی ترویج میں بر سر پیکار ہیں یہاں پر میں صرف ایک مثال دینا چاہوں گا اور مجھے امید ہے کہ آپ اس سے مکمل طور پر اتفاق کریں گے شائد پورے پاکستان میں ایک بھی تھانہ ایسا نہ ہوجو کسی سیاسی جماعت کے کارندوں کی سفارش پر تعینات نہ ہوا ہو تو ایسی حالات میں آپ غیر جانبدارانہ انصاف پر مبیی تفتیش اور کاروائی کی توقع کیسے کر سکتے ہیں یہیی صورتحال پورے ملک کے تمام اداروں کی ہے سفارشوں کی ثقافت کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی شریف یا اماندار افسرکسی بھی ادارے کا سر براہ یا زمہ دار جگہ پر تعینا تی سے کتراتا ہے -

یہ صرف بدیانتی اور کرپشن کی بد ترین مثال ہی نہیں بلکہ ان کو سازگار ماحول بھی مہیا کرتی ہے ہمارے معاشرے میں نا انصافیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے اب میں تھوڑا سا اس کی تاریخ میں جانا چاہوں گا برصغیر کی تقسیم سے پہلے انگر یزوں نے اپنے تحفظات اور مفادات کی تکمیل اور عوام کو اپنے زیر تاب رکھنے کے لیے خاص خاص لوگوں کو مال ودولت اختیارات اور مختلف طریقوں سے نواز کر ان کو اپنا آلہ کار بناتا اور اس طرح ان کی وحشت پھیلا کر عوا م کو کنٹرول میں رکھتا ہم نے ملک تو آزاد حاصل کر لیا مگر غلا ما نہ سوچوں اور اس کے مراعات یافتہ طبقوں سے اپنے آپ کوآزاد نہ کروا سکے وہی پرانے طریقہ کار آج بھی رائج ہیں تبدیلی صرف یہ آئی کہ پہلے ہم غیروں کے ہاتھوں ظلمت کا شکار ہوتے تھے مگر اب اپنوں کے ہاتھوں خدا جانے کب ہماری سوچیں بدلیں گی اورہم ان معاشرتی برائیوں سے نجات حاصل کرسکیں گے آج بھی ہم اپنے زاتی مفادات کو قومی مفادات پر تر جیح دیتے ہیں یہاں تک کہ ہم ان گلیوں ․سڑکوں․سکولوں․ہسپتالوں اور اداروں کو اپنا ہی نہیں سمجھتے اس کی میں ایک مثال دینا چاہوں گاکہ اگر ہمارے گھر میں ٹوٹا ہوا جوتا بھی پڑا ہو توہم اس کی حفاظت کرتے ہیں اور کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ اس کوچرا سکے کیونکہ ہمیں پتا ہے کہ یہ ہماری ملکیت ہے اور ہمیں اس کے ایک دو روپے مل جائیں گے مگر ہمارے اداروں کو لوگ تباہ کر رہے ہیں بلکہ ہم خود ہی پیش پیش ہیں اور ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے جب تک ہم اپنے حقوق اور زمہ داویوں کو نہیں پہچانیں گے اور احساس زمہ داری پیدا کرتے ہوئے عملی طور پر ترقی کے عمل میں حصہ نہ لیں گے تبدیلی ممکن نہیں ہے-

آج لوگ نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں مگر میرا نقطہ نظر کچھ مختلف ہے ہم سات دہائیوں سے مختلف نظاموں کو آزماتے آرہے ہیں مگر بے سود ہر آنے والی حکومت آئینی ہو یا آمرانہ اس آئین کا حلیہ بگاڑتے رہے ہیں اور اپنے آپ کو مخفوظ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن سب کچھ بے فائدہ ہمارے پاس بہترین نظام موجود ہے مگر اس کو چلا نے والا کوئی نہیں اور قومیں ہی قائد پیدا کیا کرتی ہیں جب تک ہم اپنی سوچوں کو نہ بدلیں گے اور اپنے آپ کو نہ بدلیں گے تبدیلی نا ممکن ہے-

آخر میں میں یہی التجا کروں گا کہ خدا را اپنی سوچوں کو بدلیں اور ان سفارشی کلچر جیسی برائیوں سے جان چھڑائیں ہمیں اس کے خلاف زبردست تحریک چلانا ہو گی اور اس برائی کا ہر طرف سے محاسبہ کرنا ہو گا تاکہ ہم پر امن اور محبت والی زندگی گزار سکیں اگر آ ہمارے اس مشن کے ساتھ متفق ہیں تو اپنی قیمتی آراء اور تجاویز سے مستفید فرما ئیں اور اپنی زندگیوں میں عملی طو ر پر اس کو ختم کر دیں شکریہ-
Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 124540 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More