برطانیہ کی ایک تنظیم نے رپورٹ
میں کہا ہے کہ دنیا کا آدھا کھانا تو ضائع ہو جاتا ہے ضائع ہونے والے غذائی
اشیا کی مقدار دو ارب ٹن بتائی گئی ہے،2020ءتک غذائی اشیاءکی پیداوار کےلئے
عالمی سطح پر پانی کی طلب دس سے 13 ٹریلین کیوبک میٹر تک پہنچ سکتی
ہے۔انسٹیٹیوٹ آف مکینیکل انجینئرنگ کے مطابق غذائی اشیا ضائع ہونے کی اہم
وجوہات میں اس کو محفوظ رکھنے کے ناقص انتظامات، ایکسپائری کی تاریخ کا
سختی سے اطلاق اور صارفین کی سستی شامل ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا کہ
برطانیہ میں تیس فیصد سبزیاں اس لیے اگائی نہیں جاتیں کیونکہ وہ سبزیاں
دیکھنے میں خوبصورت نہیں ہوتی ہیں۔انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر ٹم فاکس نے کہاکہ
غذائی اشیا کی جو مقدار ضائع ہوتی ہے وہ حیرت انگیز ہے رپورٹ کے مطابق ہر
سال پوری دنیا میں جو چار بلین ٹن غذائی اشیا پیدا کی جاتی ہے اس کا تیس سے
پچاس فی صد حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ امریکہ اور برطانیہ
میں لوگ جو کھانا خریدتے ہیں اس کا نصف حصہ پھینک دیتے ہیں۔ڈاکٹر فاکس کے
مطابق غدائی اشیا کی جو مقدار پوری دنیا میں ضائع کردی جاتی ہے وہ حیرت
انگیز ہے جو کھانا ضائع کردیا جاتا ہے اسے دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی یا پھر
بھوک سے مر رہے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتا
ہے۔اس رپورٹ میں کہا گیا کہ جو کھانا کبھی کھایا ہی نہیں گیا اس کو پیدا
کرنے کےلئے پانچ سو پچاس بلین کیوبک میٹر پانی کا استعمال ہوا تھا۔ادارے کا
کہنا ہے کہ دو ہزار پچاس تک غذائی اشیا کی پیداوار کے لیے عالمی سطح پر
پانی کی طلب دس سے تیرہ ٹریلین کیوبک میٹر تک پہنچ سکتی ہے۔اقوام متحدہ کی
ایک رپورٹ کے مطابق جس طرح سے پوری دنیا کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اس کے
تحت 2075 تک اضافی تین بلین افراد کا پیٹ بھرنے کی ضرورت ہوگی۔ ایسا کرنے
کے لیے حکومتیں، ترقیاتی ادارے اور اقوام متحدہ جیسی تنظیموں کی ذمہ داری
بنتی ہے کہ وہ عوام کو غذائی اشیا ضائع کرنے کےلئے تاکید کریں،عرب
ممالک میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے،ہمارے اپنے ملک پاکستان میں اکثر
تقریبات میں کھانا ضائع ہوتا دیکھتے ہیں،غربت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ
بھی ہوسکتی ہے،روز کھانا ضائع ہونے سے غذائی قلت بھی پیدا ہوتی جارہی،یہ
صورت حال روکنے کےلئے ہمےں اجتماعی کوشش کرنے کی ضرورت ہے،جب تک ہم رزق کی
بے توقیری کو نہیں روکیں گے تنگ دست ہی رہیں گے۔ |