نبی کریم ﷺ بہ حیثیت محسن نسواں
ظفر عابد محمد مصطفےٰ ( مالیگاؤں)
نحمدہٗ و نصلی و نسلم علیٰ رسولہٖ الکریم
صدرِمحترم ! !جج صاحبان!!اورسامعین کرام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
شاعرِ مشرق علامہ اقبالؔ نے عورت کو خراجِ تحسین پیش کرتےہوئے یوں فرمایا
ہے کہ
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
اور
مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے پھوٹا شرارِ افلاطوں
سامعین! اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی ساری رنگینی اور چہل پہل عورت کے
وجود سے ہے۔ عورت ماں، بہن اور بیوی بن کر اپنی محبت و شفقت کا سرمایہ
انسان پر نچھاور کرتی ہے۔ باپ بھائی اور شوہر اپنے اپنے رشتے کے تقدس اور
وقار کو بنائے رکھنے کے لیے اپنی جانِ عزیز تک قربان کردیتے ہیں، عورت
کائنات کا رنگ ہے۔ زندگی کا سوزِ دروں ہے۔ اسی سے اَسرارِ حیات کھلتے ہیں ۔
اسی کی آگ سے ہست و بود گرم ہے۔ آپ دیکھیں گے ہم جو آج اتنے باشعور نظر آتے
ہیں اور رشتوں کے معاملے میں اتنے جذباتی ہیں تو یہ احساس ہم میں کب پیدا
ہوا ؟ یہ کس کا معجزہ ہےکہ آئینۂ سنگ میں بھی عورت کے احترام کے جذبات
پیدا ہوگئے ؟ آپ یقین کیجیے کہ یہ صرف نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کی دین اور
اُس کی برکت ہے کہ عورتوں کو معاشرے میں ایسا باوقار اور باعظمت مقام ملا
کہ اس مشتِ خاک کا شرف ثریا سے بڑھ گیا ۔ ان ہی تمہیدات کی روشنی میں "نبی
کریمﷺ بہ حیثیت محسن نسواں" میرا موضوعِ سخن ہے۔
عزیزانِ گرامی! آئیے اس سے پہلے کہ چشمِ بیناسے تابِ نظّارہ چھین لی جائے ،
اس سے پہلے کہ سیہ خانۂ خوف و ہراس غور وفکر کی ہر مہلت کو غصب کرلے ، اس
سے پہلے کہ شکستہ خوابِ گذشتہ پر نوحہ خوانی ہمارا مقدر بن جائے ، ذرا دنیا
کی دوسری قوموں اور تہذیبوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ انھوںنے عورتوں کے
ساتھ کیا سلوک کیا؟؟؟
حاضرین کرام! یہودیوں کا خیال ہے کہ عورت سر سے پاؤں تک گناہ ہے، بدی ہے ،
بُری ہے اور مصیبت ہے۔ عیسائی تہذیب عورتوں کو دنیا کی تمام برائیوں کا جز
قرار دیتی ہے۔ اس نے عورت کو شیطان کا دروازہ اور شجرِ ممنوعہ کی طرف بلانے
والی ، خدا کے قانون کو توڑنے والی اور مردوں کو غارت کرنے والی قرار دیا ۔
ہندوستان میں توعورتوں کی اور ہی بُری حالت تھی۔ ہندوستانی تہذیب نے عورتوں
پر بہت ظلم توڑے ، عورتوں کو جوے میں ہار جانا یہاں معمولی بات تھی۔ یہاں
شوہر کی موت بیوی کی موت کا بھی پروانہ بن جاتی تھی۔ چناں چہ شوہر کی لاش
کے ساتھ اسے زندہ جلادینے کو ستی کی مقدس رسم قرارد یاگیا۔ یہاں عورتوں کو
دیوداسی بناکر مندروں میں پامال کیا جاتا تھا۔ عورتوں کی خرید و فروخت ہوتی
تھی۔ عربوں میں تو عورت کی پیدایش ہی جرم و عار تصور کی جاتی تھی۔ وہ لڑکی
کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیتے تھے۔
عزیزانِ گرامی ! صلہ ، جزا ، خوف ، مایوسی، بے یقینی اور بدشگونی کے ہزار
خانوں میں لپٹی ہوئی مظلوم عورت کی یہ کیسی درد ناک تصویریں ہیں۔ اُس کی
آنکھوں میں الجھے ہوئے آنسو مسیحاؤں کو بلاتے تھے۔ اُس کے دل میں چھپی
ہوئی ہزاروں کراہیں اپنے ہمدردوں کو ڈھونڈا کرتی تھیں۔ مگر کسے ہوش تھا؟
کون اُس کی دادرسی کرتا؟؟
سامعین ! ایسی سخت اندھیری رات میں ، ایسے دورِ جاہلیت میں نبی کریم ﷺ کا
ظہور ہوا۔ آپﷺ سارے عالم کے لیے رحمت ہیں۔ آپ ﷺ نے عورتوں کی دادرسی کی۔
اُن کو تقدس اور پاکیزگی عطا کی ۔ ان کو حقوق دیئے ۔ پتھر دل انسانوں کو
عورتوں کی عظمت کا احساس دلایا۔ آپﷺ نے فرمایا: "ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔"
اس فرمان نے عورت کو ذلت اور پستی سے نکال کر عزت اور وقار کی زندگی عطا کی
۔ سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا: جو اپنی لڑکی کو زندہ درگو ر نہ کرے ، جو اسے
حقیر نہ سمجھے اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح نہ دے ، اللہ اسے جنت میں داخل کرے
گا۔ رحمتِ عالمﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگو! جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ، ان
کے ساتھ حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت واجب ہے۔ سرورِ کونین ﷺ نے یوں
فرمایا کہ جس گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے اس دن سے اس کی شادی کے دن تک اس
گھر میں رحمت کے فرشتے آتے ہیں، خیر و برکت کا نزول ہوتاہے۔
محترم سامعین! رحمتِ عالمﷺ نے حکم دیا کہ عورت کو باپ اور شوہر دونوں کی
جائداد سے حصہ دیاجائے۔ مہر و عدت ادا کی جائے ۔ عورت کے نان و نفقہ کا ذمہ
دار شوہر کو بنایااور دمِ آخریں نبی ﷺ نے فرمایا: لوگو! عورتوں اور غلاموں
کے بارے میں اللہ سےڈرتے رہنا۔
اللہ اللہ! کیا شان ہے رسولِ عربی کی ۔ آپ نے دیکھا کہ کس طرح آپﷺ نے
عورتوں کی خوار و زبوں ، بے آسرا ، بے دست و پا زندگی کو خوشبوؤں میں
بسادیا۔ دشتِ بے رنگ سے درد کی پھول جیسی زندگی کو ارجمند بنادیا۔ دنیا کی
ساری قومیں اور انسانی تاریخ ایسی ایک مثال پیش کرنے سے عاجز ہے
سلام اس پر کہ جس نے عورتوں کو آبرو بخشی
گل ناچیز کو جس نے متاعِ زندگی بخشی
لیکن عزیزو! ہوشیار! تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ اسلامی اصولوں سے دوری موسمِ
سرخرو کو سیاہ کرکے گذررہی ہے۔ شاخِ سبز کی آبرو پامال ہونے کو ہے۔ مغربی
تہذیب کی چکاچوند کردینے والی عارضی روشنی ہماری آنکھوں میں خون بھررہی ہے۔
مغرب کی عیاری نے آزادیِ نسواں کے نام سے عورت کو ایک بار پھر بازاری شَے
بنادیا ہے ۔ ان کا معاشرہ ، ان کا خاندانی نظام توتباہ ہوچکاہے اس لیے اب
وہ ہمارے پاکیزہ معاشرے اور نظامِ زندگی کو گندے اور فحش رسالوں ، اخبارات
اور فلموں کے ذریعے تباہ کردینا چاہتے ہیں۔ دوستو!! سُن لو کہ ہم حالتِ جنگ
میں ہیں اور یہ جنگ میدان میں نہیں تہذیبی سطح پر جاری ہے، اور اس کا
مقابلہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے
ثبوت دو کہ امین تجلیات ہیں ہم
ثبوت دو کہ مسیحاے کائنات ہیں ہم
کہو کہ اپنے اصولوں کی آبرو کے لیے
کہو کہ حفظ خیابانِ رنگ و بو کے لیے
مثالِ سلسلۂ کوہسار ہیں ہم لوگ
نشانِ قدرتِ پروردگار ہیں ہم لوگ
اللہ حافظ |