خواہشات کی تکمیل انسان کے بس
میں ہوتی تو دنیاجہنم کا حقیقی روپ دھار چکی ہوتی۔
سیاست میں خلا اس وقت نظر آیاجب عمران خان کی پارٹی میں چلے ہوئے کارتوس
شامل ہوناشروع ہوئے ۔حالانکہ خان صاحب بارہاکہہ چکے تھے کہ ٹکٹ فقط بے داغ
شخصیات کو میرٹ پر نوازے جائیں گے۔لیکن چھ عشروں سے بیانات کے دامن میں
پلنے والی قوم کو دال میں کالانظر آیا اور وہ خان صاحب سے ناراض نظرآئے ‘جس
پر کافی حد تک وزیرستان کی جانب امن مارچ نے پردہ بھی ڈال دیالیکن قلم کی
جنبش اور زبان کے کمال نے حقیقت سے کئی گنابڑھ کر ملکی سیاست پر کیچڑ
اچھالا جس سے قادری صاحب کیلئے راہ ہموار ہوگئی ۔اور بقول انکے(قادری) چارہ
ماہ محنت کے بعد لاہور کا جلسہ ہوا‘جس میں اخراجات کا تخمینہ ایک لاحاصل
بحث ہے۔
ہمارا مدعاقادری صاحب کی ظاہری باتوں کا تجزیہ کرناہے‘ باطن کے حالات تو
سیدنامحمدﷺ کا رب ہی جانتاہے۔پہلے ان کے نعروں کی گونج میں الیکشن کھائی
میں پڑتادکھائی دیالیکن اب صورتحال مختلف ہے۔گزشتہ دنوںصحافیوں کے ساتھ بات
چیت کے دوران انہوں نے کہاکہ وہ آئین کی آرٹیکل 62اور63پر عمل درآمد چاہتے
ہیں ۔جس کے تحت کوئی راہزن‘بدمعاش‘قرض ہضم کرنے والا یا جس پر سنگین اخلاقی
جرائم کے الزامات ہیں وہ الیکشن نہیں لڑسکتا۔قادری صاحب الیکشن کمیشن کے
اختیارات کی توسیع کی بھی بات کرتے ہیں اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے ایسے
اختیارات جن کا آئین سے کوئی تعلق نہیں ان کو ختم کرنے کیلئے بھی کوشاں
ہیں۔یہ سب وہی مطالبات ہیں جوعوام کی دکھتی رگ ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کا
مقصد یہ ہوگا کہ ملک کی تگڑی سیاسی جماعتوں کو بیوہ کرنامقصودہے۔اور عوام
کی ڈوبتی ہوئی کشتی اگر کنارے نہ بھی لگ سکی تو کم ازکم سطح آپ پر ضرور
آجائے گی۔
لیکن اگر تصویر کا دوسرارخ دیکھاجائے تو ایسے لگتاہے جیسے اگر ان مطالبات
کو عوام نے اپنی منزل ومقصود تصور کرلیااور سرپرکفن باندھ کر نکل کھڑے ہوئے
تو ممکن ہے کہ الیکشن التواءمیں پڑجائیں یا کسی خاص جماعت کو فائدہ پہنچے
(خاص وہ ہوتاہے جو افسر ہو یا افسر کاچہیتا)۔اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ
آئین کی مندرجہ بالادفعات پر قادری صاحب کامطالبہ درست ہے لیکن وقت کا
تعین‘حکمت عملی اور انکا ماضی الگ چیز ہیں۔کچھ لوگ تو اس حد تک چلے گئے ہیں
کہ ان کی غلطیوں سے کالموں کے پیٹ بھرنے لگے ہیں اور اس بات کا دھیان بھی
نہیں رکھا کہ اس قسم کی باتوں سے ان پر اندھااعتقاد رکھنے والوں کے دل پر
کیاگزرے گی۔
اب لانگ مارچ ہی کو لیجئے عوام نے دل کھول کے چندے ہی نہیں بلکہ کچھ نے تو
اپناسب کچھ بھی کھودیاہوگا۔لانگ مارچ جمہوری اقدار کاحصہ صیحح مگر لانگ
مارچ کاشوروغل۔۔۔۔۔۔۔کے لیئے ہے۔خالی جگہ اس لیئے چھوڑ دی کہ وقت آنے پر سب
لوگ اپنی اپنی دانش‘فہم وفراست اور اغراض ومقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکو
پُر کرسکیں۔کیونکہ ہمارے ملک میں کیڑے نکالنے بہت آسان ہیں سوائے فصلی
کیڑوں کے کیونکہ نقلی سپرے عام ہے۔فصلی کیڑوں سے یاد آیاکہ فصلی بٹیروں کو
بھی نکالنااتناآسان نہیں ۔وہ رکھوالے کے آنے تک اپنا حصہ لے چکے ہوتے
ہیں۔اور بعض اوقات دواچھڑکنے سے وہ سے وہ موٹے بھی ہوسکتے ہیں۔
رہ گئی بات جناب طاہرالقادری صاحب کی تو وہ امت مسلمہ کے نامی گرامی عالم
ہیں نیز ان کے طالبان کیخلاف فتوے کو عالمی تائید حاصل ہے۔مگر ان کے ماضی
سے نالاں لوگ اب بھی ن لیگ پر لگائے گئے ان کے قتل کے الزام ‘عدالت کے
متعلق اسکافیصلہ اور قادری صاحب کی عطر کی ان ڈبیوں کا ذکر کرتے ہیں جو
ازخود ہی دگناہوگئیں تھیں۔ان حالات میں ان کی تاریخ رقم کرنے کی تحریک اور
انقلابی لیڈر بننے کا امکان کہیں معمہ ہی نہ بن جائے اور خواب تشنہ نہ رہ
جائیں کیونکہ یہ بازی عشق کی بازی ہے ۔اور عشق قربانیاں مانگتاہے جو ہر
انسان کے بس میں نہیں ہوتیں۔یاپھراسکے حالات اسے اجازت نہیں دیتے۔
حضرت علی ؓ کافرمان ہے(مفہوم):”میں نے اپنے ارادوں کے نامکمل ہونے سے اپنے
رب کو پہچانا“ یعنی انسان سوچتاکچھ ہے اور ہوتاکچھ ہے۔
خواہشات کی تکمیل انسان کے بس میں ہوتی تو دنیاجہنم کا حقیقی روپ دھار چکی
ہوتی۔ |