تحریر: محمد اسلم لودھی
سرزمین پنجاب کو قدرت نے ہر وہ نعمت عطا کی ہے جس کی وجہ سے اس سرزمین کو
پورے ہندوستان کی اناج گاہ کہا جاتا تھا ۔ اس سرزمین پر بارہ مہینے بہنے
والے پانچ دریا ، انتہائی قیمتی معدنیات سے مالا مال وسیع و عریض پہاڑی
سلسلے موجود ہیں ۔ جنوبی پنجاب کا تین سو مربع کلومیٹر علاقہ صحرائی ہے
جہاں نہ صرف تیل اور گیس کی وسیع ذخائر موجود ہیں بلکہ اس صحرا میں گرمیوں
اور سردیوں میں سولر انرجی یونٹ نصب کرکے ایک لاکھ میگا واٹ تک بجلی پیدا
کی جاسکتی ہے ۔ جبکہ شمالی پنجاب وسیع و عریض پہاڑی سلسلوں ، کوہستان نمک
پر مشتمل ہے جہاں انسانی استعمال کی ہر وہ چیز قدرت نے دفن کررکھی ہے جس کو
اگرجدید ترین مشنیری کے ذریعے نکالا جائے تو نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان کی
تقدیر بدل سکتی ہے لیکن افسوس نہ تو کسی نے ان پہاڑی سلسلوں میں مدفن قیمتی
معدنیات نکالنے کی جستجو کی اور نہ ہی سونا اگلتی ہوئی سرزمین کو حقیقی
معنوں میں گل و گلزار بنانے کے بارے میں کسی نے سوچا ہے ۔ محمد حنیف رامے
کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں جو پنجاب کے حقوق کی بات کرے ۔آج سندھ ،
بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کا مقدمہ لڑنے والے تو ہزاروں ہیں لیکن پنجاب
اپنے محافظوں سے محروم ہے ۔ سرزمین پنجاب کے ساتھ سیاسی بنیادوں پر تو
ہمیشہ زیادتی ہوتی رہی ہے لیکن اب پنجاب کے سینے پر بہنے والے پانچوں دریا(
ستلج ، بیاس ، راوی ، چناب اور جہلم ) رفتہ رفتہ نہ صرف ریگستانوں کا روپ
دھارتے جارہے ہیں پانی کی شدید ترین قلت کی بناپر پنجاب کی سونا اگلتی ہوئی
زمینیں برباد ہوتی جارہی ہیں اور دیہاتوں میں رہنے والے 80 فیصدکسانوں
کامعاشی مستقبل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ۔اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات
اور کیا ہوسکتی ہے گالیاں بھی پنجاب کوہی پڑتی ہیں ، بلوچستان ہو ، سندھ ہو
یا خیبر پختونخواہ ہر جگہ پنجابی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن جب
قربانی کی باری آتی ہے تو پنجاب کو بڑا بھائی کہہ کر اس کی گردن دبوچ لی
جاتی ہے ۔ پنجاب دشمنی کی انتہا تو دیکھیں آج صرف اور صرف پنجاب کے ہزاروں
صنعتی یونٹ صرف گیس اور بجلی کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوچکے ہیں
ٹیکسٹائل یونٹوں کے لاکھوں مزدوروں نے جب موٹروے کو احتجاجی طور پر بلاک
کیا تو اگلے ہی دن بجلی اور گیس کی سپلائی بحال کرنے کے احکامات وفاقی
حکومت کی جانب سے صادر کردیئے گئے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پنجاب کو معاشی
طور پر تباہ کرنے کا پروگرام پیپلز پارٹی کے حکمرانوں نے دانستہ طے کررکھا
ہے صنعتی یونٹوں ، کارخانے اور کاروباری ادارے تو گزشتہ پانچ سال کے غیر
منصفانہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اب
رہی سہی کسر سخت ترین سردیوں میں گیس کی مکمل بندش اور بجلی کی مسلسل تین
تین گھنٹے لوڈشیڈنگ کرکے نکالی جارہی ہے ۔ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ
کی مخالفت تو سب کررہے ہیں لیکن حکومت بطور خاص پنجاب کے ساتھ اپنے سوقیانہ
سلوک روا رکھ کر خود لوگوں کو سڑکوں پر لانا چاہتی ہے پنجاب کے لوگوں کی
قوت برداشت اب جواب دیتی جارہی ہے ۔ بے روزگاری کا آسیب پورے پنجاب کو اپنی
لپیٹ میں لے رہا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب صرف بیانات تک ہی محدود ہوکر رہ گئے
ہیںاور وہ پنجاب کے حقوق کی ترجمانی کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ۔
اگر وہ چاہیں تو جنوبی پنجاب کے تین سو کلومیٹر طویل ریگستانی علاقے میں
سولر انرجی کے یونٹ لگانے کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کرکے
پنجاب کو توانائی کے بحران سے نکا سکتے ۔ لیکن انہوں نے بھی پنجاب کے لوگوں
کو تڑپتا اور مرتا دیکھ کر خاموشی کی چادر تان رکھی ہے ۔ عوام میٹرو بس اور
لیپ ٹاپ کے بغیر تو زندہ رہ سکتے ہیں لیکن بجلی اور گیس کے بغیر نہ تو
صنعتی زرعی اور معاشی ترقی ہوسکتی ہے اور نہ ہی کاروباری اور گھریلو صارفین
زندہ رہ سکتے ہیں ایک خبر کے مطابق پنجاب میں ایشین ڈویلپمنٹ بنک سے قرضہ
ملنے کے باوجود گزشتہ پانچ سالوں میں ایک بھی میگا واٹ بجلی پیدا نہیں کی
جاسکی ۔بلکہ ایشین بنک کے قرضے کو طالب علموں میں مفت سولر پینل تقسیم کرنے
کے لیے مختص کرلیا گیا ہے ۔ اگرموازنہ کیاجائے تو میاں شہباز شریف باقی
پانچوں وزرائے اعلی سے زیادہ مستعد ، ہمدرد اور چا ک و چو بند دکھائی دیتے
ہیں لیکن جو کام( سولر اور وائنڈ انرجی سے بجلی پیدا کرنے کاکام) انہیں سب
سے پہلے کرنا چاہیئے تھا وہ اب بھی کرنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے ۔دنیا
میں بجلی پیدا کرنے کے 100 سے زیادہ طریقے رائج ہیں لیکن یہاں کسی ایک
طریقہ بھی عمل نہیں ہورہا ۔ اس کی وجہ کیا ہے یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
شمالی پنجاب کا پوٹھوہاری خطہ طویل ترین پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے یہ پہاڑی
سلسلے تیل گیس نمک ، زنگ ، المونیم ، آرسینک ، کوئلہ ، فائبر گلاس ، قیمتی
پتھر اور قیمتی لکڑی کے وسیع ذخائر سے مالا مال ہیں ۔پنجاب معدنی ترقی
کارپوریشن کے نام پر ایک ادارہ 1964 میں قائم کیاگیا تھا جو آج بھی صرف
فنڈز کے ضائع کے علاوہ کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے وزیر اعلی اگر تھوڑی سی
توجہ بھی بجلی کی پیداوار ، تیل اور گیس کی تلاش پر صرف کردیتے تو آج پنجاب
کے گھر گھر میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی اور24 گھنٹے گیس بند نہ ہوتی ۔اس
تغافلانہ پالیسی کی بنا پر آج پنجاب کے تمام دریا خشک ،صحرا اور زرعی
زمینیں بنجر ، فیکٹریاں اور کارخانے بند ، لاکھوں مزدور فارغ ہوچکے
ہیں۔زندگی کی قدر ان لوگوں سے پوچھو جو برف کی طرح ٹھنڈی اور یخ بستہ ہواﺅں
میں آج بھی لاہور کے فٹ پاتھوں پر زندگی کی گاڑی کو نہ جانے کتنی مشکل سے
گھسٹ رہے ہیں حضرت عمرؓ دریائے فرات کے کنارے کتا بھوکا مرنے کے خوف میں
کانپ اٹھتے تھے اس بدترین جمہوری دور میں نہ جانے لاکھوں لوگ کھانے کھائے
بغیر راتوں جاگ جاگ کر گزارتے ہیں اور کتنے ہی زندگی کی بازی سرد راتوں کے
اندھیروں میں ہار جاتے ہیں لیکن کسی کو بھی آخرت کا خوف نہیں ہے کہ جب اللہ
تعالی ان سے اپنے بندوں کی اس بدترین حالت کا پوچھے گا تو وہ کیا جواب دیں
گے ۔
میں سمجھتا ہوں اگر ملک میں دہشت گردی ختم نہیں ہورہی تو اس کی بڑی وجہ بے
روزگاری اور حد سے زیادہ غربت کا پھیلاﺅ ہے خالی پیٹ تو انسان بڑے سے بڑا
جرم بھی کرگزرتا ہے ترقی یافتہ ممالک میں اگر چند سو تارکین وطن بھی داخل
ہوجائیں تو حکومت اور سرکاری ادارے انہیں تلاش کرکے ملازمت فراہم کرتے ہیں
اور جن کو ملازمت نہ مل سکے انہیں بے روزگار ی الاﺅنس اس لیے دیا جاتاہے کہ
کہیں بھوکا مرتا ہوا بے روزگار جرائم پیشہ ہی نہ بن جائے لیکن جہاں پنجاب
بجلی گیس اور پٹرول کی گرانی کی شدید ترین مہنگائی کی لپیٹ میں آیا ہے وہاں
پنجاب میں چوری ڈاکے سمیت جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہورہاہے ۔میں سمجھتا
ہوں پنجاب کے کسانوں ، مزدوروں ، کاروباری افراد اور گھریلو صارفین کو
مجبور کیاجارہا ہے کہ وہ اپنی بقا کے لیے کسی ایک ایسے شخص کے ہمرکاب
ہوجائیں جو درپیش مسائل سے انہیں نجات دلا سکے ۔ جمہوری نظام کی تباہی اور
لانگ مارچ سے ڈرانے والوں نے ایک لمحے کے لیے بھی سوچا ہے کہ ان کے دور
حکومت میں لوگ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں ۔
سرزمین پنجاب کو اللہ تعالی نے ہر نعمت سے نوازا ہے -
تیل اور گیس کے ذخائر کیا پنجاب سے نہیں نکل سکتے ، کیا سولر اور وائنڈ
انرجی کے یونٹوں کو تنصیب پنجاب کے ریگستانوں اور موٹروے کے اردگرد نہیں
ہوسکتی ۔ سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن اگر نیت صحیح ہو تو ۔ یہاں تو عوام کو
گوناگوں مسائل میں الجھانے اور سرزمین پنجاب کی زرخیزی کو ختم کرنے ، یہاں
کی صنعتوں اور کارخانوں کو بند کروانے ، بے روزگاری کے اثرات گھر گھر
پہنچانے کے لیے ہی اب تک جستجو کی جارہی ہے ۔نہ بیگانوں کو پنجاب اور اس
میں رہنے والوں کا خیال ہے اور نہ ہی اپنوں کو جو ہمیشہ ووٹ لے کر منصب
اقتدار پر فائز ہوتے چلے آرہے ہیں ۔خدارا زمین کی تہوں میں دفن خزینے تلاش
کرکے اسے خوشحال بنائیں بلکہ بجلی گیس تیل کی پیداوار میں خود کفالت حاصل
کرکے پنجاب کو مثالی اور ترقی یافتہ صوبہ بنائیں ۔تین سو کلومیٹر ریگستان
سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سولر انرجی یونٹ کی تنصیب ممکن بناکر ایک لاکھ
میگا واٹ تک بجلی پیدا کریں جو صنعتوں اورگھریلو صارفین کو پچاس فیصد کم
ریٹ پر مہیا کریں ۔پنجاب کے سینے پر بہنے والے دریا ﺅں میں اڑتی ہوئی ریت
کیا حکمرانوں کودکھائی نہیں دیتی وہ اگر براہ راست بھارت کو تنبیہ نہیں
کرسکتے تو کم ازکم وفاقی حکومت کو تو پریشرائز کرکے پنجاب کے دریاﺅں کو
رواں رکھ سکتے ہیں ۔سندھ کو بچانے اور پنجاب کو سو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے
والی باتیں کرتے ہیں وہ اس مٹی کے وفا دار نہیں ہیں ۔ سرزمین پنجاب تو
ہماری ماں ہے بھلا اپنی ماں کے بھی کوئی ٹکڑے کرتا ہے ۔یہ سوچو اور پنجاب
کی سونا اگلتی ہوئی زمینوں کو بربادی سے بچاﺅ ، فیکٹریوں کارخانوں اور
گھریلو صارفین کو بجلی گیس وافر مقدار میں فراہم کرو تو پنجاب کے لوگ کبھی
اپنے محسن سے بے وفائی نہیں کرتے ۔ کاش پنجاب اور اس میں رہنے والوں کو مشق
ستم بنانے والے ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ پنجاب ، پاکستان کا دوسرا نام ہے
اور پاکستان ، پنجاب کے بغیر خود کو نہیں بچاسکتا ۔جب یہاں ہر نعمت میں
موجود ہے تو اس کو استعمال کیوں نہیں لایا جاتا ۔ پنجاب کے موجودہ حکمران
ہوں تا سابقہ یا آنے والے سب کے لیے یہ مسائل اور وسائل لمحہ فکریہ پیدا
کرتے ہیں ۔اب صورت حال معاشی تباہی اور بربادی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے
اگر اب بھی پنجاب کے حکمرانوں نے مصلحت کے طور پر خاموشی کی چادر اوڑھے
رکھی تو پنجاب کی سونااگلتی ہوئی زمینیں تو بنجر ہوں گی ہی یہاں معاشی
بدحالی کی بنا پر گھر گھر صف ماتم بچھ جائے گا پھر نہ کوئی ووٹ دینے والا
رہے گا اور نہ ہی ووٹ مانگے والا ۔
18 ویں ترمیم کے بعد سوائے دفاع کے ہر اس کام کی منصوبہ بندی صوبائی سطح پر
کی جاسکتی ہے جس کاتعلق براہ راست عوام الناس سے ہوتا ہے ۔ڈاکٹر طاہر
القادری کے لانگ پر تو تمام سیاسی جماعتیں بڑھ چڑھ کر تنقید کررہی ہیں اور
ہر قیمت جمہوریت بچانے کا اعلان کررہی ہیں لیکن کیا وہ اس جمہوریت کو بچانا
چاہتے ہیں جس نے آٹا 12 روپے سے 36 روپے کلو پہنچا دیا جس نے پٹرول 55 روپے
سے 102 روپے کردیا جس نے بجلی اور گیس کی بندش کی بنا پر فیکٹریوں کی
چمکنیوں سے نکلنا والا دھواں اور گھروں کے چولہے بھی سرد کردیئے جس نے 64
سالہ تاریخ سے زائد قرضے صرف پانچ سال میں لے کر ہڑپ کرلیے ۔چینی گھی آٹا
تیل ہر چیز انسانی قوت خرید سے باہر کردی ۔سنی اتحاد کونسل کے چیرمین
صاحبزادہ فضل کریم نے خوب کہا ہے کہ پاکستان ، حکمرانوں اور سیاست دانوں کے
لیے عشرت کدہ اور عوام کے ظلم کدہ بن چکا ہے ۔کیا اس دیمک زدہ جمہوریت نما
نظام کو بچانے کے لیے جانی و مالی قربانی دینے کے عزم کااظہار ہورہا ہے ۔ |